گردش، سید عنایت اللہ جان

فیصل آباد کا علاقہ ناظم آباد، مذہبی ہم آہنگی کی ایک خوبصورت مثال

اس وقت ملک میں بھی اور دنیا میں بھی انسانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر مذہبی، لسانی، نسلی، سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی شدید ترین ضرورت ہے۔ ہر طرف نفرت کا بول بالا ہے، مختلف علاقوں میں لوگوں نے ایک دوسرے کا نشانہ لیا ہوا ہے اور دنیا کے اکثر و بیشتر مقامات میں جنگ کی آگ بھڑکی ہوئی ہے یا پھر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔

ایسے میں عقل، بقاء اور سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ انسان سب مل کر اپنے ذہنوں، زمینوں، احوال، زندگی اور جذبات میں ہم آہنگی، ہمدردی اور خلوص و مہربانی کو بڑھاوا دینے کے لیے مواد کی تلاش پر توجہ مرکوز رکھیں ورنہ نفرت اور عداوت کے جذبات اور واقعات سے وہ تباہی پھیل جائی گی کہ جہاں کسی کو بھی امن و سلامتی سے رہنا نصیب نہیں ہوگا اور یوں ہم سب ایک دوسرے کو ختم کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دے کر فنا ہو جائیں گے۔ نہ کوئی جیت کے لیے رہ جائے گا اور نہ ہی کوئی ہار کے لیے، سب کے حصے میں صرف گھپ اندھیرا آ جائے گا۔

مجھے خوشی ہے ہمارے وطن پاکستان میں وہ مواقع، امکانات اور مواد وافر مقدار میں موجود ہیں جو  انسانوں کے درمیان ہم آہنگی اور خیر خواہی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ بس! ان کو مزید ترقی دینے، حرکت میں رکھنے اور مسلسل حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

اب آئیے! پاکستان کے صوبہ پنجاب میں فیصل آباد کے علاقے ناظم آباد کے اندر مسلم مسیحی ہم آہنگی اور رواداری کی ایک خوبصورت مثال کے بارے میں جانتے ہیں۔

فیصل آباد شہر کے علاقے ناظم آباد میں مسیحی برادری کی اکثریت ہے۔ یہاں 1962ء میں سینٹ پال کیتھولک چرچ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اب اس چرچ کی بیسمنٹ میں مسیحی برادری کے چھوٹے بچوں کا ایک سکول ہے۔ ایک خبر رساں ادارے کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے چرچ کی انتظامی کمیٹی کے رکن ابرار مسیح کہتے ہیں،’ابتدا میں یہاں تقریباً ساری آبادی مسیحی کمیونٹی کی تھی۔ بعد میں لوگوں نے زمینیں بیچنا شروع کیں تو چند مسلمان گھرانے آ کر آباد ہو گئے۔ مسجد بہت بعد میں یعنی نوے کی دہائی میں تعمیر ہوئی۔‘

مسجد کی تعمیر کیسے ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے مذکورہ نمائندے نے حافظ شعبان گل سے رابطہ کیا، جن کے والد نے جامع مسجد محمد علی فضلی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ بتاتے ہیں ’ یہاں مسلمانوں کی عبادت گاہ نہیں تھی، 1994ء میں میرے والد نے مسجد کی بنیاد رکھی۔ بعد میں ساتھ ایک خالی پلاٹ فروخت ہوا تو اسے بھی خرید لیا گیا۔ یوں مسجد اور چرچ بالکل آپس میں جڑ گئے۔ دونوں کی دیوار سانجھی ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں’ جس وقت چرچ کے ساتھ پلاٹ خرید کر مسجد کی توسیع کی گئی اس سے پہلے ایک بہت اچھا قدم اٹھایا گیا۔ مسجد کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مسیحی برادری سے رابطہ کر کے اس کی اجازت لی جائے تاکہ وہ عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے بڑے کھلے دل کے ساتھ اجازت دی۔ شکر ہے اعتماد، احترام اور محبت کی باہمی فضاء آج بھی برقرار ہے۔ یہاں تیس برس میں ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔”

مثالی تعاون، باہمی اعتماد اور مذہبی رواداری کا ماحول کیسے برقرار رکھا گیا؟

جیسا کہ محلے میں ایک گھر کو اردگرد کے گھروں سے واسطہ پڑتا ہے اسی طرح دو عبادت گاہیں بھی ایک دوسرے کی ضرورت مند ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے مسجد کے خادم اور مؤذن محمد سلمان بتاتے ہیں، ‘ابھی چند روز پہلے مسجد میں تعمیراتی کام جاری تھا۔ اس دوران چرچ کی چابیاں میرے پاس تھیں۔ ہم نے سیڑھی تک چرچ سے لی۔ اسی طرح انہیں کچھ درکار ہو تو ہم سے مانگ لیتے ہیں۔ ہم ضرورت کے وقت اچھے پڑوسی ثابت ہوتے ہیں۔‘

مگر دونوں برادریوں کے درمیان یہ مثالی ماحول کیسے وجود میں آیا اور کیا چیز اسے برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے؟

اس تناظر میں ابرار مسیح کہتے ہیں، ’مسجد اور چرچ کی انتظامی کمیٹیوں نے باہمی مشاورت سے آغاز میں کچھ چیزیں طے کر لی تھیں۔ مثال کے طور پر عبادت کے اوقات کار کیا ہوں گے؟ مسلمانوں نے خود پیشکش کی کہ مسجد میں اذان اور خطبے کے لیے لاؤڈ سپیکر کا استعمال نہیں کیا جائے گا، اسی طرح چرچ کے لاؤڈ سپیکر بھی اندر نصب کیے جائیں گے تاکہ دوسری برادری کی عبادت میں خلل نہ ہو۔ اس طرح شروعات ہی بہت مثبت طریقے سے ہوئیں۔‘

گزشتہ تیس برس سے یہاں ایک بھی ناخواشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ حافظ شعبان کہتے ہیں، ’پہلے دن سے اعتماد کی فضاء قائم ہوئی جس سے اگر کبھی چھوٹا موٹا اختلاف ہوا بھی تو اسے تنازعہ نہیں بننے دیا۔ مثلاً ایک بار ہماری نماز کا وقت تھا تو دوسری طرف سے موسیقی کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ ہماری کمیٹی نے بات کی تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اوقات کار کا ٹھیک اندازہ نہ ہو سکا تھا۔ آئندہ خیال رکھیں گے۔ پھر ہمیں یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی۔‘

مسجد اور چرچ کا مثالی تعاون آس پاس کے ماحول کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ابرار مسیح کہتے ہیں، ’گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہمارے اردگرد کے علاقوں میں مذہبی عدم برداشت کے خوفناک واقعات پیش آئے۔ تصور کیجیے اگر ہمارے درمیان اچھے تعلقات نہ ہوتے تو یہاں کی مسیحی برادری کس خوف سے گزرتی؟ یہ چرچ اور مسجد کے مثالی تعاون کا نتیجہ ہے کہ ہم ایسے اذیت ناک خوف سے آزاد ہیں۔‘

ناظم آباد کے ایک سرگرم سماجی کارکن طارق ٹوبہ بتاتے ہیں ’گزشتہ برس جب فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی برادری پر حملہ ہوا اور چرچ جلائے گئے، تب ہم نے اپنے محلے داروں سے افسوس کیا اور انہیں تحفظ کا پورا یقین دلایا۔ یہاں سب کو احساس تھا کہ جڑانوالہ میں غلط ہوا ہے۔ ناظم آباد کے مسلمان اپنی برادری کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوم مسیحی برادری کے ساتھ کھڑے تھے۔ کیوں کہ سب نے رواداری کا ماحول دیکھ رکھا تھا۔ مختلف برادریاں جتنا ایک دوسرے کے قریب ہوں گی تعصبات ختم ہوں گے اور بہتر معاشرہ وجود میں آئے گا۔‘

گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سابق ایجوکیشن آفیسر اور سماجی کارکن راشدہ خانم کہتی ہیں ’ہم بچپن سے اسی علاقے کے رہائشی ہیں، مجھے نہیں یاد، کبھی یہاں مذہبی بنیاد پر کوئی تنازعہ ہوا ہو۔ یہ ایک مثالی ماحول ہے۔ سب کے بچے ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھروں سے کھانا آتا ہے۔ بچے ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے ہیں۔ اگر ہم ناظم آباد جیسی مذہبی ہم آہنگی چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو تعصب سے بالاتر ماحول میں پروان چڑھانا ہو گا۔‘

فیصل آباد کے علاقے ناظم آباد میں قائم ماحول اور موجود رواداری انسانی فطرت کا مظہر ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ انسانوں نے اپنی طویل تاریخ اسی ایک روئے زمین پر گزاری ہے۔ ہم میں اختلافات بھی ہیں اور بقاء کی خواہش بھی۔ ایک طرف ہم میں مقاصد کا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے ہمیں مشترک اغراض سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ انسانوں میں اختلافات حال کی سطح پر نہیں بلکہ ماضی کی سطح پر موجود ہیں اور ہاں یہاں رکنا بھی نہیں بلکہ انہیں اختلافات کے درمیان رہ کر ہم نے آگے ایک مشترک مستقبل کی طرف بڑھنا بھی ہیں۔ ہم سب نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصولی اختلاف اور ضروری اشتراک کے امتزاج سے اپنے لیے محفوظ راستہ بنانا ہوگا اور اس امر کو یقینی بھی کہ ہمارے درمیان بے شک اختلافات موجود سہی لیکن ایک چیز مشترک بھی ہے اور وہ ہے ایک محفوظ مستقبل۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے درمیان ضروری لچک اور وسعت قلبی پیدا فرمائے کہ جن کے ہوتے ہوئے ہمیں دوسروں کے ساتھ بہتر انداز میں رہنے اور چلنے کا سلیقہ آئے۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے