چند برس قبل ایک صومالی ماڈل نے بی بی سی کے نمائندے سے بات چیت کے دوران کہا تھا "پردہ کرتے ہوئے میں اپنے آپ کو روحانی طور پر خدا کے زیادہ قریب محسوس کرتی ہوں”۔
مذکورہ بالا احساس ایک گہری حقیقت کو ظاہر کرتی ہے یعنی بعض اعمال اور رویے انسان کو خدا کے قریب کر رہے ہیں اور بعض بالکل الٹ طور پر خدا سے دور کر دینے والے ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں بنیادی طور پر عمل کے دو مخالف دھارے رواں دواں ہیں۔ ایک عمل کا وہ دھارا جس میں بندہ خدا کی منشاء کو پیش نظر رکھے اور دوسرا عمل کا وہ دھارا جس میں انسان خدا سے بے نیاز رہ کر اندھی خواہش پرستی میں مبتلا ہو کر زندگی گزارے۔
اللہ تعالیٰ انسان سے جن اعمال کی طفیل راضی ہوتا ہے ان میں سے ایک پردہ بھی ہے۔ پردہ محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ ایک خاص طرزِ زندگی کو ظاہر کرنے والا وہ آفاقی عمل بھی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اخلاقیات اور جذبات میں کوئی ایسے زہریلی اثرات در نہیں آسکتے جن کے زیرِ اثر آکر کوئی فرد دوسرے کی عزت و ناموس کو پامال کر بیٹھے۔
پردہ ہمہ جہت اطمینان سے رہنے مزید براں مکمل یکسوئی اور پاکیزگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ممکن بنانے کے لیے وہ الہامی اصول ہے جس کا منبع خود خدا کی ذات، داعی حضرات انبیاء کرام اور جس پر عامل دنیا بھر کے تمام سلیم الفطرت لوگ ہیں۔
پردہ مرد و زن کا ایک دوسرے سے مناسب، ضروری اور محفوظ فاصلہ اختیار کرنے کو کہا جاتا ہے جس کو اگر نظر انداز کر کے غیر فطری اختلاط کو گوارا کیا جائے تو بے شمار اخلاقی، روحانی، ذہنی و جذباتی مسائل اور بحران جنم لیتے ہیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ بے پردگی اور بدنظری دو ایسی علتیں ہیں جو انسانوں کے اندر شدت سے ذہنی، جذباتی اور نفسانی ابال پیدا کرکے نا آسودگی اور تناؤ سے دوچار کر دیتی ہیں۔ اخلاقی اور جنسی بے راہ رویوں کے الم ناک واقعات کے پیچھے دراصل یہی ناآسودگی کام کر رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نزدیک انسانی سماج کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے حدود و قیود، حقوق و فرائض اور اقدار و جذبات کا ایک پورا نظام وجود میں آیا ہے۔ پردہ اس پورے نظام کا پاسبان ہے۔ پردہ اگر ہٹ جائے تو اس نظام کے زمین بوس ہونے میں پھر دیر نہیں لگتی۔ پردے کا تعلق انسان کے قلب و نظر، اعمال و اخلاق اور سوچ و اپروچ سمیت پوری ہستی سے ہے۔
سماجی ڈھانچہ رشتوں پر قائم ہے اور رشتے باہمی اعتماد اور احترام سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ پردہ باہمی اعتماد و احترام کے لیے ایک خدائی حصار کا درجہ رکھتا ہے اس کا اہتمام اور لحاظ اگر قائم ہے تو نتیجتاً سماج کا وجود صحت و استقامت کے ساتھ قائم رہے گا اور اگر نہیں تو سماج کا وجود بھی روبہ زوال رہے گا جس میں اطمینان ہوگا نہ ہی استحکام، احترام ہوگا نہ ہی اعزاز بلکہ ہر طرف بے چینی، ناآسودگی اور اضطراب کا راج رہے گا۔
مذکورہ بالا خبر میں پردے کے حوالے سے بظاہر ایک خاتون کا احساس سامنے آیا ہے لیکن اگر دین کی تعلیمات پر سنجیدہ ہو کر غور کیا جائے تو خدا سے قریب کرنے اور رکھنے کا عمل کی دنیا میں ایک پورا نظام حضرات انبیاء کرام کی رہنمائی میں تشکیل پایا گیا ہے جو حضرت انسان کے سامنے ہزارہا برسوں سے موجود ہے۔ اس نظام اور تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگوں کو خدا کی قربت بھی نصیب ہوتی ہے اور کامل اطمینان اور تحفظ بھی۔
پردے کے بارے میں کہیں کہیں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ خواتین پر مسلط کوئی قید ہے ایسا قطعاً نہیں یہ ایک اختیار کردہ حق ہے جو لوگوں نے ایمان کے مطابق طرزِ زندگی کے ساتھ خود بخود قبول کیا ہے۔ پردے سے ہٹ کر اگر زندگی گزارنے کا اختیار موجود ہے، اس کا استعمال بھی ہو رہا ہے اس کے مطلق ناپسندیدہ اثرات اور نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں تو پھر پردے کے ساتھ رہنے کا اختیار کیوں قابل قبول نہیں؟
اسلام میں پردے کی اپنی ایک مسلمہ اہمیت ہے۔ اسلامی طرز زندگی میں عورت کو اپنے حسن و جمال اور آرائش و زیبائش کو نامحرم مردوں سے چھپانے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ ان کی عزت و آبرو محفوظ رہے۔ پردہ عورت کے لیے ایک حفاظتی حصار ہے جو انہیں ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
کوئی بھی فرد اور اگر اپنی فطری حدود کے مطابق رہنے کا اہتمام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عافیت و حفاظت عطا فرماتا ہے اس طرح کوئی بھی فرد یا معاشرہ انصاف اور استحقاق کا ساتھ دیں تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی قربت اور قلبی و احوالی طمانیت کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے اس طرح میرٹ اور ٹیلنٹ کے قدردان معاشرے ہمیشہ مضبوط، آسودہ اور آباد رہتے ہیں، عین یہی معاملہ صداقت، امانت، نفاست، شفافیت، شرافت، شراکت اور معاونت کے ساتھ چلنے والوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
پردے کو جب کپڑے کا ٹکڑا سمجھ کر دیکھا جاتا ہے تو اس سے کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں کہ یہ شاید بعض معاشروں میں مردوں نے عورتوں کو زبردستی پہنایا ہے لیکن جب اس کو ایک خاص طرزِ زندگی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو اسے ایک طرزِ زندگی کا مظہر سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ پردہ غیر مردوں سے عورتوں کا محفوظ فاصلہ روا رکھنے کا اہتمام ہے کوئی جبری مسلط کردہ قید نہیں۔
اللہ تعالیٰ کو پردہ بہر صورت مطلوب ہے اس کا ایک مظہر تو وہی ہے جو عورت کے ہاں نظر آتا ہے لیکن پردے کا ایک تعلق مرد کے ساتھ بھی ہے اور وہ یہ کہ مرد کبھی ان حدود کی طرف نہ بڑھے جہاں سے عورت کی حفاظت شروع ہوتی ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب بھی مرد و عورت میں نامطلوب قسم کا اختلاط پیدا ہوتا ہے تو اس سے کئی طرح کی خرابیاں جنم لیتی ہیں اور شر کو معاشرے میں پھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ کو دنیا میں خیر ہر شکل میں پسند اور شر ہر صورت میں ناپسند ہے۔ زندگی کی آسودگی اور دنیا کی آبادی خیر کے ساتھ جڑی ہے جبکہ شر کا آخری نتیجہ لازماً ظلم، بد امنی، بے راہ روی اور تباہی کی صورت میں نکلتا ہے اور ہاں دنیا تو دنیا آخرت کا فیصلہ بھی بنیادی طور پر خیر و شر کی بنیاد پر ہوگا۔
تبصرہ کریں