خالد مصطفیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب کی جانب سے 10 ارب ڈالرز کی لاگت سے جدید آئل ریفائنری لگانے کا باضابطہ اعلان تحریک انصاف کی حکومت کی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ درحقیقت نواز شریف حکومت کے سعودی عرب کے ساتھ مصروف باہمی عمل کا نتیجہ ہے جس کا آغاز اکتوبر 2015 میں ہوا تھااور بعد میں اس کے دو فالو اپ اجلاس 2016 میں ہوئے تھے۔ لیکن اعلیٰ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 2016 میں پاناما کیس کے نتیجے میں اس وقت کی حزب اختلاف جماعت تحریک انصاف کی منفی سیاست نے جنم لیا اور پی ٹی آئی نے اس وقت کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا شروع کردیا جس کے باعث گوادر میں سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری پر پیشرفت رک گئی۔
جوائنٹ سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن سید توقیر شاہ کا کہنا ہے کہ آئل ریفائنری کی سرمایہ کاری کیلئے 2016 میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ملاقات جاری رہی لیکن بعد میں پورے کا پورا عمل رک گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان رکا ہوا عمل اکتوبر 2018 میں دوبارہ شروع ہوگیا۔ اس وقت سرکاری دورے پر متحدہ عرب امارات میں موجود پٹرولیم ڈویژن کے ترجمان شیر افغان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پچھلے دور میں آئل ریفائنری سرمایہ کاری کیلئے علی العموم ایک معاہدہ رہا ہے،باضابطہ معاہدہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے کے دوران سائن کیا جائے گا۔
تاہم 20 اکتوبر 2015 کو جب اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس وقت کے اٹارنی جنرل سلمان بٹ اور اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری فنانس طارق پاشا نے کنگز گیسٹ پیلیس، ریاض میں اعلیٰ سعودی حکام کے ساتھ پورے دن کا اجلاس رکھا۔