تہران،-ایران

خاکِ فارس کا مسافر (1)

·

جناب عبدالمالک ہاشمی شوقیہ مگر گہرے ذوق کے حامل لکھاری ہیں، جنہیں سفر اور تحریر سے خاص لگاؤ ہے۔ ایران، سعودی عرب، سوڈان، جاپان اور ملائیشیا جیسے ممالک کے مشاہدات کو انہوں نے اپنے سفرناموں میں سمویا۔ ان کے تحریر کردہ سفرنامے ملائیشیا، ایران اور جاپان کی ثقافت اور رنگوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

زیر نظر سفرنامہ  دراصل ایران کے سفر کا دلچسپ احوال ہے، جو پہلے فیس بک پر قسط وار شائع ہوا اور اب ’بادبان‘ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ سفرنامہ نہ صرف ایران کی ثقافت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ مصنف کی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی عکاس ہے۔(ادارہ)


This image has an empty alt attribute; its file name is ---.jpg

میں نے ایران کا سفر جولائی 2001ء میں کیا۔لیکن اس سفر کا خیال پہلی مرتبہ 1991ء میں اُس وقت آیا جب میرے اسکول کے ہم جماعت عمرفاروق نے مجھ سے اظہار کیا کہ ہمیں ایران کا سفر کرنا چاہیے۔ اس وقت تو میں اسپیشل ہائی اسکول ،گوردت سنگ روڈ، کوئٹہ کا طالب علم تھا۔ نہ خیالات میں پختگی تھی اور نہ مالی لحاظ سے خود کفیل تھا۔ لیکن اس واقعے کے دس سال بعد میں جب جولائی 2001ء سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی جامعہ الامام محمدبن سعود الاسلامیہ کے کلیہ اصول الدین میں زیر تعلیم تھا۔ اس دوران ، میں نے موسم گرما کی تعطیلات میں ایران جانے کا ارادہ کیا۔ بڑے بھائیوں سے مشورہ کیا ۔ انہوں نے میرے سفر ایران کے لیے رضامندی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن زیادہ بہتر یہی ہے کہ میں اکیلے جانے کے بجائے کسی کو اپنے ساتھ لیکر جاؤں۔ میری چھٹیاں محدود تھیں۔ مجھے کوئی رفیق سفر نہ مل سکا جو اپنا خرچہ بھی اٹھا سکتا ہو اور اسے فراغت بھی ہوکیونکہ سفر کے لیے فراغت اور مالی استطاعت دونوں ضروری ہوتے ہیں ۔ اس طرح میں نے اکیلے ہی رخت سفر باندھ لیا۔ اُنہی چھٹیوں میری دو بہنوں کی شادی خانہ آبادی بھی تھی اور بلدیاتی انتخابات کی مصروفیات بھی تھیں۔ ان دونوں مصروفیات سے فراغت پانے کے بعد میں نے سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔

اس سفر کی ایک اور دلچسپ وجہ یہ بنی کہ جب میں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ‘ خلافت و ملوکیت ‘کا مطالعہ کر لیا تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اہل تشیّع کے ملک کو قریب سے دیکھا جائے۔

ویزے کے لیے میں نے حالی روڈ، کوئٹہ پر واقع ایرانی کونسلیٹ سے ویزہ فیس معلوم کی اور ویزہ فارم حاصل کیا جو فارسی زبان میں تھا۔ گھر آکر اُسے پُر کیا ۔ اسے پُرکرتے وقت ایک مشکل یہ درپیش ہوئی کہ مجھے ویزے دو اقسام ‘ زیارتی ‘ اور ‘جہانگردی’ میں مغالطہ لاحق ہوا۔ میں زیارتی کو وزٹ ویزا سمجھ بیٹھا اور اس کو منتخب کر لیا جبکہ مجھے ٹورسٹ ویزا یعنی جہانگردی کا ویز ا لینا تھا۔ جہانگردی کو میں آوارہ گردی کے مشابہ سمجھ بیٹھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ زیارتی ویزا سے مراد وہ ویزا ہوتا ہے جو ایسے لوگوں کو جاری کیا جاتا ہے جو ایران میں موجود مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کے لیے ایران جاتے ہیں۔

اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایران جانے کے لیے بہترین طریقہ مذہبی ویزے پر جانا ہے تاکہ آپ لگے ہاتھوں وہ تمام مقدس مقامات بھی دیکھ آئیں جن کے بارے میں بہت سے لوگوں سے سنتے چلے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے میرا غیر ارادی انتخاب ٹھیک ہی رہا ۔ اس طرح اس سفر میں میں نے مذہبی مقامات اور تفریحی، سیاحی اور تاریخی مقامات دونوں کی سیر کی۔ میرا یہ سفر صرف 12 دن پر محیط تھا۔ ویزا فیس1300 روپے تھی اور ویزا فارم پُر کرلینے کے بعد میں بروری روڈ پر واقع جماعت اسلامی بلوچستان کے دفتر گیا ۔

مولانا عبدالحق بلوچ ، اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی بلوچستان، نے کوئٹہ کے ایرانی کونسل جنرل سید عباس حقیقت کے نام ایک سفارشی مکتوب میرے ویزے کے زود تر حصول کے لیے تحریر فرمایا ۔ مولانا ہمیشہ میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے تھے ۔ وہ بذلہ سنج بھی تھے ۔ اس دوران قیم جماعت اسلامی بلوچستان ، مولانا عبدالحق ہاشمی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ جب کبھی میں جماعت اسلامی بلوچستان کے دفتر میں مولانا مرحوم سے رسمی یا غیر رسمی ملاقات کے لیے جاتا ، مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم میری بہت عزت افزائی فرماتے تھے ۔

” یہ خونِ ہاشمی بہت اعلیٰ خون ہے۔ یہ لیاقت و ذہانت پیدا کرتا ہے۔”

مولانا عبدالحق بلوچ

مولانا کا لکھا ہوا مکتوب میں نے ایرانی کونسلیٹ کے ویزا سیکشن کی کھڑی پر موجود ایرانی افسر کو ویزا فارم کے ساتھ جمع کروا دیا۔ ویزا افسر نے مجھے ایک ہفتے کے بعد آنے کو کہا۔ ویزا افسر نے تاکید کے لیے میرے نام کو فارسی لب و لہجے میں دہرایا: اسم شماآقای عبدالمالکِ ہاشمی ہستید؟” (کیا آپ کا نام عبدالمالکِ ہاشمی ہے؟ )

میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرز خطاب میں خاص بات یہ تھی کہ ایرانی مرکب ناموں کے پہلے حصے کے آخری حرف کے نیچے زیر کو امالہ کے ساتھ بولتے ہیں۔ میرے نام ‘عبدالمالک’ کے کاف کے نیچے زیر کو امالہ کے ساتھ جب اس نے بولا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے اکبر ہاشمی رفسنجانی کا رشتہ دار سمجھ رہا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس زمانے میں ایران کے چوتھے صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی تھے ۔ دوران سفر ، بہت سے ایرانی میرا نام سن کر مجھے سے ازراہ تفنن پوچھتے تھے ” آیا شما از نزدیکان رئیس ِ ھاشمی رفسنجانی ھستید؟”(کیا آپ صدر ہاشمی رفسنجانی کے رشتہ دار ہیں؟ )

جب میں زاہدان سے بم کا سفر کر رہا تھا تو میرے ساتھ بیٹھے ادھیڑ عمر کے ایرانی مسافر نے بتایا کہ ‘ ہمارے دائیں طرف رفسنجان نامی شہر ہے۔ ہمارے صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کا تعلق اس شہر سے ہے۔

1980ء کی دہائی میں ہم ریڈیو جدہ کی اردو نشریات کو باقاعدگی سے سناکرتے تھے اور ان کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات لکھ کر جدہ ریڈیو کو سعودی عرب بھیجا کرتے تھے ۔ جب ہمارا نام ہمارے مکتوب کے ساتھ ریڈیو پر پڑھا جاتا تو بے حد مسرت ہوتی تھی۔ جدہ ریڈیو کے ایک پروگرام میں ہم نے سنا کہ ایران کے شہر رفسجان کا پرانا نام نام بَیْھَق تھا۔ عظیم محدث حافظِ کبیر امام ابوبکراحمد بن حسین بَیْہقی شافعی کا تعلق بَیْھَق سے تھا۔ اسی نسبت سے انہیں بیہقی کہا جاتا ہے۔سننِ بیھقی انہی کے نام سے مشہور ہے۔ البتہ فارسی ذرائع کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ بیہق دراصل نیشاپور کے قریب ایک گاؤں حسین آباد ہے ، اس کا پرانا نام ‘ بیہق ‘ تھا۔ یہ گاؤں صوبہ خراسانِ رضوی کی ایک تحصیل ، ششتمند کے وسط میں واقع ہے۔

ایک ہفتے کے اندر اندر میرے پاسپورٹ پر ایران کاویزا لگ گیا۔ میرے پاسپورٹ پر ایک اسٹیکر چسپاں کیا گیا تھا جس میں ویز ا کی قسم (نوع رودید) میں ‘زیارتی ‘ لکھا تھا ۔ مدت اقامت 30 دن تھی۔ خیر ویزے کا مرحلہ بڑی آسانی سے طے ہوگیا۔ شاید اس کی وجہ مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم کا سفارشی مکتوب تھا۔

ویزہ پاسپورٹ پرلگ جانے کے بعد میں اپنے بڑے بھائی مولانا عبدالحق ہاشمی کی ہمراہی میں ،جو اُس وقت قیم جماعت اسلامی بلوچستان تھے، مولا نا عبدالحق بلوچ سے دوبار ہ ملا۔ مولانا عبدالحق بلوچ نے میرے لیے ایران میں مولوی نذیر احمد سلامی کے نام ایک مختصر سا رقعہ لکھا ۔ یہ رقعہ جماعت اسلامی بلوچستان کے پیڈ پر نہیں لکھا گیا تھا بلکہ مولانا مرحوم نے اسے ادارۃ الدعوۃ والتبلیغ کے پیڈ پر لکھا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مجھے ایران میں سیاحتی ، تاریخی اور مذہبی مقامات سیر کے حوالے سے مولوی نذیر احمد کی رہنما ئی حاصل ہوسکے۔ مولوی نذیر احمد سلامی کا تعلق صوبہ سیستان و بلوچستان سے ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی صوبہ سیستان و بلوچستان کی صوبائی اسمبلی جسے کونسل مجلس خُبرگان رہبری(Assembly of Experts for Leadership) کہتے ہیں کے رکن ہیں۔ وہ ایران کے ایک ادارے تقریب بین المذاہب (مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی ) کے مرکزی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ علاوہ ازیں تقریب بین المذاہب اسلامی کے تحت قائم ہونے والی تمام مسالک کی مشترک دانشگاہ(حوزه و دانشگاه مذاھب اسلامی) میں تدریسی امور انجام دے رہے ہیں۔ کراچی کی ایک دینی درس فارغ التحصیل ہیں۔ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں کے جامعہ کراچی سے گریجویشن کی۔ اس پاکستان میں گیار ہ سال طالب علمی کے گزارنے کے بعد وہ وطن واپس آگئے۔ وطن آنے کے بعد زاہد ان کی بہت بڑی دینی درس گاہ دار العلوم زاہدان میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے ۔ اس دارالعلوم کے سربراہ مولوی عبدالعزیز سربازی تھے جو بھارت میں کفایت اللہ دہلوی، حسین احمد مدنی اور قاری محمد طیب قاسمی کے شاگرد رہے۔ علاوہ ازیں، زاہدان ریڈیو پر بلوچی زبان میں سوال و جواب پر مشتمل ایک پروگرام بھی کرتے ہیں۔

بنام مولانا نذیر احمد سلامی، مولانا عبدالحق بلوچ نے اس رقعے میں لکھاکہ:

” مولانا نذیر احمد صاحب، بسلامت باشد

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

مزاج بخیر باد! برادر عبدالمالک حاضر خدمت ہو رہا ہے۔ یہ مولانا عبدالحق ہاشمی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ دیگر اوصاف وہ خود آپ سے عرض کریں گے۔

رہنمائی کی درخواست ہے۔

محتاج دعاء

عبدالحق ، کوئٹہ

10, 7/2001″

اس مختصر سے مکتوب کے علاوہ ، مولانا مرحوم نے ایک پرچی پر کچھ ٹیلیفون نمبر لکھ کر دیے جو ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے علماء حضرات کے تھے۔ مولانا کی خواہش تھی کہ میں ان شخصیات سے مل کر اپنے سفرِ ایران کے حوالے رہنمائی حاصل کروں۔ ان شخصیات میں مولانا عبدالغنی زاہدان ،مولانا عبدالخالق خاش ، مولانا عبدالنصیر خاش اور مولانا اسحاق مدنی تہران شامل تھے۔(جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے