ظفر عالم چیمہ

مشرقی سماج اور مملکت خدا داد

·

 ابتدائے افرینش سے ہی جب سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا، اللہ اور فرشتوں کا مکالمہ، خلافت ارضی، اے اللہ تو اس انسان کو پیدا کرنے والا ہے جو دنیا میں زمین پر خون اور فساد پھیلائے گا، بہرحال اس کی حکمتیں وہی جانے ،لیکن ہابیل اور قابیل کے جھگڑے سے سلسلہ حسد و ہوس سے شروع ہوا تھا آج تک جاری و ساری ہے اس حسد کی وسعت کے اندر نسل پرستی زر پرستی اور خود پرستی بھی شامل ہو گئی ہے کہ میں حسب و نسب میں اعلی ہوں اور میرا خاندان بھی ، ساری دنیا کی آسائشیں میرے اور میرے خاندان کے لیے ہونی چاہیے اور دوسرے کمتر بھی ہیں اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا اور ہتھیانا بھی جائز۔ 
ابتدا ہی سے انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں کے اندر اپنی ضروریات زندگی تلاش کرتا رہا۔ کبھی اس جگہ شکار تو کبھی دوسری، پھر یہ خاندان جلدی ہی قبیلوں کی شکل اختیار کر گئے۔ ضروریات بڑھیں تو زراعت کی طرف توجہ ہوئی، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالے گئے، اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے نئی نئی زمینوں کو تلاش کیا گیا، پھر دریاؤں کے کناروں پہ آبادیاں بنیں۔ ان آبادیوں نے بڑی بڑی تہذیبوں کو جنم دیا کیونکہ انسان کے اندر جمالیاتی شعور ودیعت کیا گیا جس کی بنیاد پر بڑے بڑے شہر اور ملک وجود میں آنے لگے لیکن پھر وہی انسان کی حرص و ہوس اور غلبے کی جبلت نے اپنے آپ کو سپیریئر اور دوسرے کو کمتر دکھانے کے لیے جنگوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جس میں مرد یا تو کام آگئے یا ان کو غلام بنا لیا گیا۔ اسی طرح ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی غلام بنا لیا گیا۔ تہذیب کا ارتقا بھی جاری رہا اور ساتھ ساتھ ظلم و جور بھی۔
جب دریا کے کناروں پہ بڑی بڑی تہذیبوں نے جنم لیا، انسان اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے تھوڑا سا فارغ ہوا تو پھر اس نے اپنے اور کائنات کے درمیان ربط تلاش کرنے کی کوشش کی کہ میں کیا ہوں، کہاں سے آیا ہوں، مر کر کہاں جانا ہے، مقصد زندگی کیا ہے، دنیا سے ظلم و جبر کیسے ختم ہو سکتا ہے، عدل کیسے کیا جا سکتا ہے۔

انہی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک طرف تو مشرق میں انبیاءکا سلسلہ ہے اور دوسری طرف مغرب روم اور یونان میں فلاسفہ کے قابل ذکر تعداد ہے جو کہ ایک آئیڈیل ریاست کی تلاش میں ہیں کہ ایسی ریاست جس کے اندر انسان امن و سکون اور عدل و انصاف کے ساتھ رہ سکے، مشرق کا الہیات اور انبیا کا سلسلہ کہ انسان کو کیسے ٹھیک کیا جائے تاکہ معاشرہ اور ریاست ٹھیک ہو سکے۔
مغرب کی تمام تر توجہ” اجتماعی” اور مشرق کی "انفرادی”، 
مشرق اور مغرب کا یہ فرق آج بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ مغرب میں سارا فوکس معاشرے، ریاست، ریاستی انفراسٹرکچر، عدل و انصاف، انسانی حقوق اور سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کو اوپر اٹھانے، ان کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر ہے جبکہ مشرق میں ما قبل تاریخ کے دور سے بادشاہ اپنے لیے محلات اور باغات بنا کر، ٹھاٹھ باٹھ سے رہنا، عام لوگوں کو زیر دست کمتر ، نوکر ،غلام اور مزارع بنا کے رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔

بادشاہت کے بعد ایک طبقہ اشرافیہ نے اس کی جگہ لے لی۔اب وہی سارے وسائل اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے کہ تمام خاندان اور افراد اپنے اپ کو سنوارتے ہیں، وسائل کے لیے مار دھاڑ کرتے ہیں اپنے آپ کو اوپر لے آتے ہیں ان میں دوسرے لوگوں کو اجتماعی طور پر اوپر اٹھانے ان کو برابری کی سطح پر لانے ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بجائے ایک ظلم و استحصال کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، 
 ہزاروں انبیاء اور مصلحین کے باوجود بھی آج تک مشرقی فطرت یہی ہے کچھ بھی نہیں بدلا ، آج بھی انفرادی سطح پر ہی چیزیں چل رہیں ہیں دنیاوی معاملات اور دین میں بھی۔ 
اگرچہ دین اسلام اجتماعیت پر بہت توجہ دیتا ہے تمام عبادات نماز، روزہ اور حج اجتماعی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں بھی، لیکن افسوس اجتماعی نماز اجتماعی ڈسپلن اجتماعی مسائل اور وسائل کے حوالہ سے کچھ اثر انداز ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح زکوة کی وجہ سے اجتماعی طور پر غربت اور محرومی میں کمی نظر نہیں آتی اور حج کا عظیم الشان اجتماع عالمی سطح پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا۔

اس سب کے پیچھے مشرق کی وہی انفرادی سطحی اور خود غرضانہ، خود ستائشی اور خود نمائی کی سوچ ہے کہ بس میں متقی ہوں میں ہی ٹھیک ہوں، مجھے ہی امیر ہونا چاہیے اور تمام وسائل دنیا میرے پاس ہی ہوں، دوسروں سے مجھے کیا لینا دینا۔ کبھی صدقہ اور خیرات کر دیا وہ بھی صرف دکھاوا اور خود ستائشی، یہی مشرقی شعور ہے انفرادی سطح کا جس کی وجہ سے آج تک مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ بس زندگی سسک سسک کر چل رہی ہے۔ 

 جب تک مشرق کے معاشرے انفرادی سطح سے اٹھ کر اجتماعی طور پر تمام لوگوں کو ساتھ لے کے ان کی بہتری اور ان کی خیر خواہی کے لیے نہیں اٹھیں گے مشرق کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ابھی مشرق میں جو ایک دو استثنیٰ ہوئے ہیں جن میں انڈیا، چائنہ اور جاپان ہے۔ ان ممالک نے بھی مغرب سے سیکھا ہے، انہوں نے اپنے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو خط غربت سے نکالا ہے اور جب تک بقیہ ممالک اس طرز کو نہیں اپنائیں گے، اسی طرح ہی محرومیوں کا شکار رہیں گے۔ 
ہمارے ہاں مملکت خداداد میں جو لوگ بھی حلال حرام چوری چالاکی دھوکہ فراڈ اور خوشامد سے دولت مند ہو جاتے ہیں پھر وہ اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اب کاروبار زندگی اور کاروبار حکومت بھی ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے گو اس کی کوئی اہلیت اور مہارت ہو نہ ہو(کوئی عقل شکل ہو نہ ہو )۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی بھی انفرادیت خود پسندی خود نمائی خود پرستی کا دور دورہ ہے کہ جو طبقہ باوسائل ہے وہ عجیب طرح کے نفسیاتی خلجان میں مبتلا ہےہر وقت اپنی ذات لباس گاڑی گھر اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی نمائش کرتے رہنا اور داد طلب نظروں سے دوسروں کو دیکھنا اور بیچارے جو بے وسائل ہیں وہ انہیں کی خوشامد اور واہ واہ پہ لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی تمام تر ضروریات زندگی کا انحصار انہیں باوسائل طبقات پر ہے جو اپنی خود پسندی اور خود پرستی سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ان تمام چیزوں کو میڈیا اور سوشل میڈیا نے کمال عروج تک پہنچایا ہے۔بقول جون ایلیا 
اے رونق بزم زندگی طرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
 ایک تو آئے نہ تھے کبھی گئے تو روٹھ کر گئے
کبھی کسی کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کر بھی دیں گے تو ایسے جیسے اس کی سات نسلوں پر احسان کر دیا ،تمام سرکاری ملازم صرف دفتر آنے جانے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ کام کرنے کے پیسے بھی لے لیتے ہیں اور کام کرنے کے بعد احسان بھی جتاتے رہتے ہیں جس کی تنخواہ ریاست سے اور رشوت بندہ سے وصول کی ہوتی ہے۔
جہاں پر لوگ علم اور مذہب دوستی کے لیے (مساجد اور یونیورسٹیاں) ملک ریاض اور( دین اور روحانیت) کے لیے طاہر اشرفی اور ’مرشد‘ کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اس معاشرے کا کیا عالم ہوگا۔
 اس انتہائی درجے کی پست ذہنیت کے ساتھ یہ ملک اور معاشرہ کیسے آگے بڑھے گا یہ نقطہ ہے نقطہ وروں کے لیے۔ 
اور رہ گئے کاروباری اور تاجر حضرات اگر یہ کمزور سی لولی لنگڑی ریاست اور اس کا آئین اور نظام نہ ہو تو یہ تاجر عام آدمی کی کھال اتار کے اس کے جوتے پہننے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس قدر انتہائی سفاک اور ظالم سماج کے اندر رہنا بذات خود ایک بہت بڑا امتحان اور آزمائش ہے دیکھیں کب تک؟

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے