گردش، سید عنایت اللہ جان

سعودی عرب، محمد بن سلمان اور وژن 2030ء

مملکت سعودی عرب اپنی سیاسی، مذہبی، تجارتی، تاریخی، معاشی اور بین الاقوامی حیثیت کے تناظر میں دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ سعودی عرب دو ارب انسانوں کی محبتوں اور عقیدتوں، چار ارب لوگوں کے معاشی اور اقتصادی شراکت داریوں اور چھ ارب پر پھیلی مخلوق کے لیے سماجی اور تہذیبی دلچسپیوں کا ایک غیر معمولی مرکز بن گیا ہے۔ سعودی عرب دنیا پر اثر انداز ریاستوں میں شمار ہو رہا ہے۔ سعودی عرب علی الاعلان خود کو "انسانیت کی مملکت” قرار دیتا ہے اور حتی الوسع اسی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنا عالمی اور نظریاتی کردار ادا کر رہا ہے۔ آئیے سعودی عرب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

دنیا کے اہم خطے مشرق وسطی میں واقع سعودی عرب کے شمال مغرب میں اس کی سرحدیں اردن، شمال میں عراق، شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین جبکہ مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں سلطنت عمان اور جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہیں جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ دنیا میں اس کی اہم ترین شناخت دین اسلام سے نسبت ہے اور یہ دنیا بھر میں حرمین شریفین کی سرزمین کہلائی جاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں۔

جدید سعودی ریاست کا ظہور 1750ء کے آس پاس عرب خطہ کے عین وسط میں شروع ہوا، جب ایک مقامی قبائلی رہنما محمد بن سعود نے معروف علمی شخصیت محمد بن عبدالوہاب نجدی کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کی داغ بیل ڈالی۔ سعودی مملکت کا قیام ڈیڑھ صدی پر محیط جد وجہد کا ثمر ہے لیکن ہم طوالت سے قلم بچا کر ڈائریکٹ 1932 میں آتے ہیں جہاں سے موجودہ سعودی عرب کا قیام عمل میں آیا ہے۔ آل سعود کو یہ کریڈٹ بہر صورت جاتا ہے کہ اس نے افراتفری، انتشار، خانہ جنگی اور قبائلی آویزشوں کی آماجگاہ بنے خطہ زمین پر ایک منظم، مضبوط، مستحکم، پر امن اور اسلامی شناخت کے حامل مملکت کا قیام ممکن بنایا۔

عربوں کے ہاں کچھ خوبیاں اعلی مقدار اور معیار میں ایسی پائی جاتی ہیں جو انسانی عظمت کے قیام میں بے حد مددگار ہیں۔ مثلاً وہ بہت زیادہ خوددار، سخی، مہمان نواز، پر اعتماد اور جرآت مند ہیں۔ عربوں کے چہرے اعتماد، لہجے فخر، سینے جذبے اور رویے دائمی طور پر نفاست سے آراستہ رہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے اپنی زبان، روایات، اقدار اور تاریخ پر نازاں رہے ہیں۔ یہ دوستی اور دشمنی دونوں ببانگ دہل نبھانے کے روادار ہیں۔

23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔ دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے بڑے ذخائر کی نشان دہی بھی ہوئی۔ 1933ء میں شاہ عبد العزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی (امریکہ) کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔ ابتدائی چند برس سخت تلاش اور جدوجہد میں گزر گئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے تیل کا خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا کہ جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔ یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ ثابت ہوا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا جس سے مملکت میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔

سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992ء میں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن پاک ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہوگی۔ سعودی عرب میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہو رہے ہیں البتہ 2005ء میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کر رہا ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی خاندان میں سے کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔ قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو کہ لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہے۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہے جس کے قاضیوں کا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔

سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف بھی پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پر برف باری یہاں نہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ وسطی صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔

2021ء کے مطابق سعودی عرب کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ سے کچھ اوپر ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن بعد میں معاشی خوشحالی اور شہروں میں تیز رفتار ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی خوشحال اور مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 30 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 3 فی ایک ہزار افراد ہے۔ چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند فیصد لوگ جنوبی اور مشرقی افریقی نسلوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو کہ چند سو سال قبل مختلف اسباب کے تحت یہاں ہو گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے تقریباً سوا کروڑ سے زیادہ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میں بھارت کے 30 لاکھ، پاکستان کے 20 لاکھ(گزشتہ پانچ برسوں میں مزید اِضافہ ہوا ہے)، بنگلہ دیش کے 15 لاکھ، فلپائن کے 10 لاکھ اور مصر کے تقریباً 9 لاکھ باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد بھی مملکت سعودی عرب میں برسر روزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندے بھی لاکھوں کی تعداد میں قیام پزیر ہیں۔

آج کل سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 25 جامعات، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ مملکت کے سرکاری بجٹ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے (یاد رہے یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعلیمی بجٹوں میں سے ایک ہے)۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ممالک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، ملائیشیا، جرمنی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ یاد رہے 2023 میں مملکت نے ریکارڈ تعداد میں اپنے طلباء کو تعلیمی اسکالرشپس دے کر باہر ممالک بھیجا تھا۔

سعودی عرب میں نقل و حمل کا بھی ایک بہترین نظام قائم ہے۔ پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ و مدینہ، شاعز، دمام اور آخر میں ریاض اور طائف کے درمیان موٹر ویز شامل ہیں۔ ملک میں ایک ترقی یافتہ بحری نقل و حمل کا نظام بھی رائج ہے جو بنیادی طور پر پیٹروکیمیکل کی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ سعودی پورٹ اتھارتی ان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا بھی ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں اور ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل کے ذریعے نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی تاہم اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع و تجدید کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیل فٹ بال ہے۔ سعودی عرب گرمائی اولمپکس، والی بال، باسکٹ بال اور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کر رہا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پر جانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھا گیا ہے۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میں ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني شامل ہیں۔ یاد رہے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب نے فیفا عالمی فٹبال کپ 2034 کی میزبانی کے حقوق حاصل کیے ہیں جس کے لیے ابھی سے تیاریاں پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ مملکت کا عزم ہے کہ سعودی عرب سائنسی، تجارتی، سیاحتی، تعلیمی، تفریحی اور ثقافتی طور پر ایک بڑا عالمی مرکز بن جائے اور اسی راستے پر پوری یکسوئی اور دلجمعی سے گامزن ہے۔

اسلام سعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کا کھلے عام عبادت کرنا منع ہے۔ سعودی شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کے لیے، اسلام قبول کرنا ضروری ہے۔ سعودی عرب کی ثقافت کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ قرآن مجید سعودی عرب کے آئین اور اسلامی شریعت عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔

سعودی عرب کے معروف ترین قومی رقص "ارضیٰ” ہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے۔ یہ رقص کی نہایت باوقار انداز ہے۔ حجاز کی السہبا لوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرب اندلسی دور سے جا ملتی ہیں۔ سعودی عرب کا لباس باشندوں کے روایتی ذہن، تاریخی ماضی اور اسلام سے مضبوط تعلق کا عکاس ہے۔ عام طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جو کہ ثوب کہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پر شماغ یا غطرہ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہر عبایہ اور نقاب کا استعمال ضرور کرتی ہیں۔ اسلام میں شراب نوشی اور سور کے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے جس پر سعودی عرب میں بھی سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی لوگ نہایت خوش خوراک واقع ہوئے ہیں تاہم زیادہ رغبت سے گوشت، چاول اور قہوے کا استعمال کرتے ہیں۔ سعودی روٹی خبز کا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شوارمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔

تاریخ سے واضح ہے کہ ممالک، اپنی اپنی لیڈر شپ کے سائے میں تبدیلی اور انقلابات کی کروٹیں لے رہے ہوتے ہیں۔ تبدیلی، بہتری اور نت نئے احوال سے ہم آہنگی قوموں کی ضرورت ہوتی ہے اور بقاء و ارتقاء کا تقاضا بھی۔ عالمی تناظر میں اس کے بغیر آگے بڑھا جا سکتا ہے نہ ہی جما جا سکتا ہے۔ موجودہ دنیا جس سطح پر آج ہمیں نظر آرہی ہے یہ یہاں ہوا کے ذریعے نہیں پہنچی بلکہ طرح طرح کی تبدیلیوں، چیلنجوں، اصلاحات اور تجربات سے گزر کر یہاں پہنچی ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے سعودی عرب کا معاشرہ جواں سال، جرآت مند، انسان دوست، جدت پسند اور پرجوش ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں بہتر تبدیلی کے عمل سے گزرے گا اور پہلے سے موجود خوبیوں کے ساتھ مطلوب مواقع اور امکانات کو ملا کر دنیا میں مزید اونچا مقام پائے گا۔ امت کی قیادت، انسانیت کی شراکت اور عرب تاریخ و ثقافت میں وہ موقع موجود ہے جس سے کام لے کر سعودی عرب عالمی سطح پر ایک باوقار اور مضبوط حیثیت کا حامل ٹھہرے گا۔

محمد بن سلمان سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم ہیں۔ آپ سياسی اور سیکورٹی امور کونسل کے صدر اور  سعودی اقتصادی اور ترقياتی امور کی کونسل کے بھی صدر ہیں۔ آپ شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود  کی اہلیہ فہدہ بنت فلاح آل حثلین العجمی سے ان کے فرزند ہیں۔ محمد بن سلمان نے ریاض میں مقامی سکولوں سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے بعد كنگ سعود یونیورسٹی سے قانون میں  بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آپ اپنے والد کی حكومت کے آغاز سے ہی اہم مناصب پر خدمات انجام دے رہے ہیں جیسا کہ ديوان ملک کے صدر ہیں اس کے علاؤہ 29 اپریل 2015 کو شاہی حکم نامہ سے ولی عہد اور سعودی وزراء کابینہ کے صدر کا نائب دوم مقرر کیا گیا۔ آپ کو آپ کے چچا زاد ولی عہد اور وزیر داخلہ محمد بن نایف بن عبد العزیز آل سعود کی سعودی بيعہ اتھارٹی کی طرف سے معزولی کے بعد جون 2017 کو باقاعدہ ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔

محمد بن سلمان مكہ مکرمہ اور تمام مقامات مقدسہ کے لیے رائل کمیشن کے صدر بھی ہیں، جس کا مقصد  مکہ مکرمہ شہر اور دوسرے مقامات مقدسہ میں مختلف سروسز کے معیار کو ان مقامات کے تقدس اور اہمیت کی وجہ سے بہترین بنانا اور اللہ کے گھر کے مہمانوں یعنی معتمرین اور حجاج کرام کے لیے تمام امور میں  آسانی اور سہولت کو ممکن بنانا ہے۔ محمد بن سلمان کا سب سے بڑا اقدام سعودی "ويژن 2030” ہے، جس کا مقصد تیل پر انحصار کی بجائے دیگر معاشی ذرائع کو وسعت دینا ہے، آپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل میں سعودی حکومت کا تیل پر انحصار بتدریج ختم کر دیا جائے گا جیسے آپ نے ایک موقع پر "لَت” سے تعبیر کیا تھا۔ "وژن 2030” سعودی عرب میں انقلاب کی نوید ہے۔ "وژن 2030” سے سعودی عرب کو علمیت، جدت، شفافیت، شراکت، سیاحت، مہارت اور معیاری خدمات کے ذریعے دنیا کی قیادت سے سرفراز کیا جائے گا۔

محمد بن سلمان کو اپنی جدت پسندی اور جرآت مندی کے سبب مشہور زمانہ میگزین "دی ایکونومسٹ” نے اپنے والد شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کی حکومت کے پیچھے سب سے طاقتور شخصیت کے طور پر قرار دیا ہے۔ محمد بن سلمان کو 2017ء میں معروف امریکی میگزین "ٹائم” نے قارئین کی آراؤں کی روشنی میں "سال کی شخصیت” کے طور پر منتخب كيا تھا۔ اسی طرح امریکی فارن پالیسی میگزین نے اپنے 2015ء کے 100 اہم ترین مفکرین کی سالانہ فہرست میں محمد بن سلمان کو دنیا کے مؤثر رہنما کے طور پر منتخب کیا تھا۔ 2018ء میں "فوربس میگزین” نے دنیا کے موثر ترین شخصیات کی فہرست میں آپ کو شامل کیا تھا۔ محمد بن سلمان 31 اگست 1985ء کو  ریاض میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ شاہ سلمان بن عبد العزیز  کے فرزندوں میں چھٹے نمبر پر ہیں۔

سعودی وژن 2030

25 اپریل 2015 کو شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک انقلابی تصور پیش کیا جیسے بعد میں مملکت سعودی عرب کا "ويژن 2030” کا نام دیا گیا۔ یہ منصوبہ تیل کے دور میں داخل ہونے کے بعد سے مملکت سعودی عرب کا ایک بڑا جامع سماجی، سائنسی، تجارتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی منصوبہ ہے۔ یہ ہمہ جہت منصوبہ کم و بیش 80 میگا سرکاری پروجیکٹس کے ساتھ مکمل ہوگا۔ جن میں سے سب سے کم پروجیکٹ 4 ارب ریال کے برابر لاگت کا ہے جبکہ بعض پروجیکٹس کی لاگت ایک سو ارب ریال سے بھی زیادہ کی ہے جیسے کہ ریاض میٹرو پروجیکٹ وغیرہ۔

یہ منصوبہ سعودی عرب کی اقتصادی اور ترقیاتی امور کی کونسل نے محمد بن سلمان کے زیر صدارت مرتب کیا اور شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کے زیرِ صدارت سعودی وزراء کابینہ میں پیش کیا گیا۔ "ويژن 2030” کے اعلان کے بعد محمد بن سلمان نے اقتصادی اور ترقیاتی امور کی کونسل کی طرف سے 7 جون 2016ء کو قومی تبدیلی منصوبہ اور 22 دسمبر 2016ء کو مالیاتی توازن پروگرام کا منصوبہ پیش کیا یہ دونوں پروگرامات گویا مذکورہ "ويژن 2030” کی بنیاد ہے۔ سعودی کابینہ نے ان دونوں پروگراموں کی منظوری دے دی ہے۔ محمد بن سلمان "وژن 2030” اور اس سے متعلقہ مختلف پروگراموں سے  تیل کے علاوہ دیگر آمدنی میں 6 گنا اضافے  کے لیے 43.5 ارب ڈالر سالانہ سے بڑھا کر 267 ارب ڈالر سالانہ کا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح تیل کے علادہ دیگر سعودی ملکی پیداور کو 16 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیں اس طرح مذکورہ منصوبے سے سعودی عرب میں سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے ایک ایسی جگہ کا قیام چاہتے ہیں جہاں روزگار سمیت مختلف اقتصادی مواقع فراوانی سے میسر ہو۔

محمد بن سلمان نے سعودی "ويژن 2030ء” کے تین مراحل وضع کیے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ سعودی عرب کو امت کا مرکز بنانا۔ مملكت سعودی عرب، عربی اور اسلامی دنیا کے عین مرکز میں واقع ہے اور اس میں مسجد حرام اور مسجد نبوی جیسے مقامات واقع ہیں جو مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ مقدس حیثیت کے حامل ہیں اور یہاں دنیا بھر میں موجود دو ارب مسلمانوں کا قبلہ بھی ہے۔ محبت اور عقیدت کے مرکز کو خدمت اور جدت سے ملا کر اسے نت نئے مواقع میں بدلنے کے امکان پر کام کرنا، امید ہے کہ مجوزہ منصوبے میں اس پہلو پر ایک طاقتور عامل کے سبب مرکوز رکھی جائے گی۔

2۔ مملكت سعودی عرب کی عظیم سرمایہ کاری صلاحیت کو اس کی معاشی حجم میں اضافے کے لیے ایک طاقتور محرک اور اضافی وسیلے کے طور پر تسلیم کرانا۔ مملکت میں موجود زبردست امکانات اور صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے سعودی عرب کو ایک عالمی سطح کے سرمایہ کارانہ طاقت بنانا۔ سعودی عرب میں تاریخی اور تفریحی اہمیت کے بے شمار مقامات کو خاص ترتیب سے آراستہ کر کے عالمی سیاحت کا مرکز بنانا۔

3۔ محمد بن سلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مملکت سعودی عرب  اور اس کے ارد گرد اہم آبی گذرگاہوں مثلاً مشرق میں آبنائے ہرمز، جنوب مغرب میں آبنائے باب المندب اور شمال مغرب میں واقع نہر سوئز کی بدولت سعودی عرب کو تین براعظموں (ایشیا، افریقہ، یورپ) کے لیے ایک گیٹ وے کی حیثیت سے بھی منوانا۔

بادی النظر میں سعودی "وژن 2030” معیشت، تجارت، سیاحت، ثقافت اور بین الاقوامیت سے جڑا ایک دیوہیکل منصوبہ ہے جس میں طے شدہ اہداف کو علمیت، امنیت، تجارت، شراکت، شفافیت اور راحت و جاذبیت کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سعودی عرب نے کئی ایک اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ آئیے ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ متوازن اور باوقار عالمی اور خارجہ پالیسی

سعودی عرب نے بڑی قوتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے برابری کی سطح پر ایک باوقار اور متوازن لائحہ عمل ترتیب دیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سعودی عرب نے آمریکہ، چین اور روس کے ساتھ جس حکمت، بصیرت اور دور اندیشی سے معاملات چلائے ہیں بلاشبہ یہ سب قابلِ تعریف و اطمینان ہیں۔ یہ دنیا اقدار اور مفادات کے بنیادوں پر زمانوں سے استوار چلی آرہی ہے۔ اقدار اور مفادات سے جڑے توقعات اور امکانات قدرت نے انسانوں میں باہم خوب منسلک کر رکھے ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم سے کبھی بھی بے نیاز نہیں ہو سکتی اور اگر بے نیازی برتے گی تو انسانی برادری سے پیچھے رہ جائے گی اور یوں یہ طرزِ عمل دو طرفہ نقصان کا باعث بنے گا۔ ہم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ سعودی عرب عالمی سطح پر جانبداری، تفریق اور کشمکش کا حصہ بنے بغیر برابری، توازن، شراکت داری اور انسانی عظمت و احترام کے اقدار سے ہم آہنگ ہو کر امت کی قیادت کا حق ادا کرے گا۔

2۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فوجی اتحاد کا قیام

سعودی عرب نے عالمی اور علاقائی امن و استحکام کے غرض سے اسلامی دنیا پر مشتمل ایک فوجی اتحاد کا قیام بھی عمل میں لایا ہے۔ طرح طرح اور نوع بہ نوع تنازعات اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے یہ ایک ضروری اور برمحل اقدام ہے۔ کسی کو نشانے پر لیے بغیر، ملکی سلامتی اور علاقائی استحکام ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ اس اتحاد کا باقاعدہ اعلان 15 دسمبر 2015 کو مملکت سعودی عرب کی قیادت میں کیا گیا تھا، جس کا ہدف دہشت گردی کی تمام صورتوں کی روک تھام ہے۔ اسلامی  فوجی اتحاد جو کہ 41 مسلم ممالک پر مشتمل ہے اور اس کا مشترکہ آپریٹنگ نظام بھی پوری طرح فعال ہو چکا ہے۔ یاد رہے اتحاد کا ہیڈ کوارٹر سعودی دارالحکومت ریاض میں قائم ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی ہدف تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا کر انتہا پسندی سے متعلق نامطلوب نظریات اور رویّوں کے خلاف ہمہ جہت مقابلہ ہے۔ اتحاد کی کوشش ہوگی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، تمام اتحادی ممالک کے قواعد اور ضوابط سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو۔

3۔ مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ رائل کمیشن

یکم جون 2018ء کو شاہ سلمان بن عبد العزیز کے ایک حکم نامہ کے  مطابق مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ کے تقدس اور مقام و مرتبہ کے سبب سے اور اللہ کے گھر کے مہمانوں یعنی حجاج کرام اور معتمرین عظام کی خدمت کے لیے مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ رائل کمیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ محمد بن سلمان جو اس کمیشن کے مجلس انتظامیہ کے صدر ہیں، ان کی شدید خواہش ہے کہ مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ کو فلاحی اور ترقیاتی شہر بنا کر انہیں دنیا کے بہترین شہروں میں شامل کیا جائیں۔ اس کمیشن کا ہدف جدید ذرائع سے کام لے کر فلاحی، ترقیاتی، سماجی، سلامتی، تعلیمی، ثقافتی، سہولیاتی، تکنیکی، آبی، ماحولیاتی، تجارتی، سرمایہ کاری، رہائشی، سیاحتی، تفریحی، مواصلاتی، رابطہ جاتی، توانائی اور تعلیمی خدمات کے معیار اور مقدار کو بہتر سے بہتر بنانا ہے۔

4۔ ایک بین الاقوامی تجارتی، تفریحی اور ثقافتی شہر نیوم کو بسانے کا فیصلہ

نیوم کا نام دو الفاظ کو باہم جوڑ کر چنا گیا ہے۔ پہلے تین حرف لاطینی لفظ neo سے لیے گئے ہیں جس کا عربی میں مطلب "نیا” ہوتا ہے جبکہ چوتھا حرف عربی لفظ "مستقبل” سے لیا گیا ہے یعنی نیوم کا مطلب "نیا مستقبل” ہے۔ نیوم سعودی عرب کے شہر تبوک میں ایک کثیر ملکی، کثیر جہتی اور کثیر سرحدی مجوزہ اقتصادی اور سیاحتی شہر کا نام ہے جس کا کل رقبہ ساڑھے 26 ہزار کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ شہر سعودی عرب، اردن اور مصر کے اشتراک سے سرحدی علاقوں میں تعمیر کیا جائے گا۔ نیوم شہر سعودی شہر تبوک کے شمال مغرب میں بنایا جائے گا جس میں مصر اور اردن کے بھی کچھ علاقے شامل ہوں گے۔ یہ شہر خلیج عقبہ کے قریب بنایا جائے گا۔

نیوم منصوبے کا افتتاح

اس شہر کا اعلان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 24 اکتوبر 2017 کو ریاض، سعودی عرب میں مستقبل کے "انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس” میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے موجودہ ٹیکس اور مزدوری کے قوانین اور "خود مختار عدالتی نظام” کے ساتھ "موجودہ حکومتی فریم ورک” سے آزادانہ طور پر کام کرے گا۔ یہ اقدام سعودی "ویژن 2030” سے ​​سامنے آیا ہے، یہ منصوبہ سعودی عرب کے تیل پر انحصار کم کرنے، اس کی معیشت کو متنوع بنانے اور عوامی خدمت کے شعبوں کو بین الاقوامی سطح کی ترقی دلانے کا آئینہ دار ہے۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی فرمز کی خدمات لی گئی ہیں مثلاً جرمن کلاؤس کلین فیلڈ، الکووا انکارپوریشن کے سابق چیئرمین اور سی ای او اور سابق صدر اور سیمنز اے جی کے سی ای او، شہر کی ترقی کی نگرانی کریں گے۔ منصوبوں میں روبوٹ سے سیکیورٹی، رسد و طلب، گھروں کی تعمیر اور فراہمی مزید برآں عالمی سطح کی نگہداشت جیسے کام انجام دینے کا مقصد پیش نظر ہے۔ اس شہر کو مکمل طور پر ہوا اور شمسی توانائی سے چلانے کا پروگرام ہے۔ چونکہ یہ شہر سکریچ سے ڈیزائن اور تعمیر کیا جائے گا، لہذا انفراسٹرکچر اور نقل و حرکت میں دیگر جدتوں کی تجاویز بھی ہیں۔ سعودی عرب اورعالمی سرمایہ کاروں کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ سے 500 ارب ڈالر کی منصوبہ بندی اور تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2025 تک مکمل ہوگا۔

چند ہفتے قبل بی بی سی نے نیوم شہر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "اندھیرے میں جگمگاتے ساحل، وسیع و عریض صحراؤں والے ملک میں اربوں درخت لگانا، مقناطیسی قوت سے زمین کے اوپر دوڑتی مسافر ٹرینیں، ایک نقلی چاند، صحرا کے ساتھ ساتھ 100 میل طویل ماحول دوست شہر”۔یہ مستقبل میں بسائے جانے والے ایک مجوزہ شہر ’نیوم‘ میں بننے والے کچھ منصوبے ہیں۔ سعودی عرب اپنے ملک کو سرسبز بنانے کے عزم کے تحت ایک ایسا شہر بسانا چاہتا ہے۔نیوم انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ مستقبل کا ایک ایسا نقشہ ہے جس کے تحت انسانیت، تجارت، شفافیت، سیاحت اور جدیدیت کی منازل تو طے کرے گی ہی مگر خاص بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان ترقی کا کرہ ارض کے ماحول پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا۔ شہر بسانے کے اس منصوبے کی مالیت تقریباً 500 ارب ڈالر ہے اور یہ سعودی عرب کے وژن 2030 کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے چھٹکارا دلا پائے گا۔ واضح رہے کہ تیل کے وسیلے نے ہی سعودی عرب کو دولت سے مالا مال ملک بنایا ہوا ہے مگر اب سعودی عرب چاہتا ہے کہ ملکی معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم ہو”۔

سابق بینکار علی شہابی ’نیوم‘ کے ایڈوائزری بورڈ میں شامل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس بڑے خطے میں ایک 170 کلومیٹر طویل شہر کی تعمیر شامل ہوگا، جسے ’دی لائن‘ کہا جائے گا اور یہ صحرا میں خط مستقیم کے طور پر آباد ہوگا۔ مسٹر شہابی کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر مرحلہ وار انداز میں ہو گی۔ "لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک پاگل پن قسم کا منصوبہ ہے جس پر سینکڑوں اربوں ڈالر لاگت آئے گی، مگر یہ سب مرحلہ وار انداز میں ہوگا، بالکل اس انداز میں جہاں طلب اور رسد میں زیادہ فرق نہ ہوگا”۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بارسلونا کے ٹریفک سے پاک ’سپر بلاکس‘ کی طرح ہوگا جس میں ہر بلاک خود کفیل ہوگا اور اس میں دکانیں اور سکول جیسی سہولیات ہوں گی تاکہ لوگوں کو جو بھی چیز درکار ہو وہ پانچ منٹ کی چہل قدمی یا سائیکل کے فاصلے پر ہی دستیاب ہو۔ منصوبہ سازوں کا دعویٰ ہے کہ جب یہ شہر مکمل ہو جائے گا تو اس میں تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے سفر ہوگا اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ 20 منٹ لگیں گے۔ نیوم کا تجارتی مرکز بھی بہت دلچسپ ہوگا جو بذات خود ایک پانی پر تیرتا ہوا چھوٹا سا شہر ہوگا۔ منصوبے کے مطابق شہر کا تجارتی مرکز سات کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہوگا اور یہ دنیا کا سب سے بڑا تیرتا ہوا تعمیراتی ڈھانچہ ہوگا۔ نیوم کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، نظمی النصر کا کہنا ہے کہ "یہ بندرگاہ والا شہر عنقریب اپنے پہلے کرایہ داروں کا خیر مقدم کرے گا”۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔