ضیاء چترالی
’بیوی کو بھی میری طرح اسلام سے شدید نفرت تھی۔ اس لیے اس نے ایک مرتبہ سالگرہ کے موقع پر مجھے ایک خاص تحفہ دیا۔ یہ تھا سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب ’شیطانی آیات‘ جس میں قرآن پاک پر کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ میرا پیشہ ہی تفتیش و انیٹروگیشن ہے، اس لیے کسی الزام کو سمجھنے کے لیے براہ راست اس کے ماخذ سے جانچ کرنے اور تہہ تک پہنچنے کی عادت ہے۔ اس لیے میں نے سلمان رشدی کے الزامات کی حقیقت جانچنے کے لیے ’قرآن مجید‘ کا خود مطالعہ شروع کیا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ پر حق واضح ہوگیا اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔‘
یہ کہنا ہے برطانوی انسداد دہشت گردی اسکواڈ (The Counter Terrorism Squad) کے چیف انسپکٹر رچرڈ فیئرلی (𝐑𝐢𝐜𝐡𝐚𝐫𝐝 𝐅𝐚𝐢𝐫𝐥𝐞𝐲) کا۔ اسلام کا یہ بدترین دشمن اب راشدکہلاتے ہیں۔ اب یہ دینِ حنیف کے پاسباں اور سپاہی ہیں۔ وہ ہر موقع پر قرآن پاک کو فخر سے اٹھا کر کہتے ہیں ’یہ ہماری کتاب ہے، جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔‘
رچرڈ کا کہنا ہے کہ اسے میری بیوی کی ’بدقسمتی‘ ہی کہیے کہ اس کا شوہر کائناتی فزکس کے علوم میں دلچسپی رکھتا تھا اور اللہ کے حکم سے اس کی نظر قرآن کی ان آیات پر پڑی، جنہوں نے اس کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ وہ تین آیات یہ ہیں:
1- کیا کا فروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں کھول دیا؟ اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا، تو کیا یہ ایمان نہیں لاتے؟
2- اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم اسے وسعت دے رہے ہیں۔
3- اور پہاڑوں کو ہم نے میخوں کی طرح بنایا۔
رچرڈ کہتے ہیں کہ اس لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ: "Three verses changed my life”
‘تین آیات نے میری زندگی بدل دی’
میں نے جان لیا کہ یہ تین آیات کائنات کے اہم ترین تین نظریات پر مشتمل ہیں: انفلاق یعنی کائنات کا کھلنا، کائناتی توسیع کا تسلسل اور سیاروی توازن۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی انسان 1400 سال پہلے یہ سب کچھ جان سکتا ہو!‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ان کی بیوی کی ’بدقسمتی‘ نہیں بلکہ اللہ کی ازلی سنت ہے، جو ہر حق کے متلاشی کی ہدایت دیتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ کے دین پر جب بھی حملہ کیا جاتا ہے، تو وہ مزید بلند ہوتا ہے۔
رچرڈ کو وہ دن بخوبی یاد ہے جس دن انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ رچرڈ یا راشد کہتے ہیں کہ 19 اگست 1993ء ان کی زندگی کا ایک فیصلہ کن دن تھا، کیونکہ اسی دن انہوں نے ایمان کا ذائقہ اور نفس کی پاکیزگی محسوس کی۔
مشہور عرب جریدے الشرق الاوسط نے رچرڈ فیئرلی سے خصوصی ملاقات کرکے ان کا انٹرویو لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’میں نے غور و فکر کے بعد اسلام قبول کیا، کیونکہ میں برطانوی یونیورسٹی ایکسیٹر سے جیولوجی کا فارغ التحصیل ہوں۔ بعض اوقات مجھے مایوسی ہوتی ہے جب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے۔‘
رچرڈ دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں اور ان کے الفاظ جذباتی ہو جاتے ہیں جب وہ اس لمحے کا ذکر کرتے ہیں جب وہ پہلی بار عمرے کے لیے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پہلی بار اپنی زندگی میں آدھی رات کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے تھے۔
’مجھے نہیں معلوم میرے ساتھ کیا ہوا۔ میں، جو ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار افسر تھا، خود کو شدت سے روتا ہوا پایا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ آج تک مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس مقام کا وہ جلال اور حسن کیا تھا جس نے وقت کو میرے سامنے روک دیا۔‘
سوال: آپ کو اسلام کی طرف کس چیز نے راغب کیا؟
یونیورسٹی ایکسیٹر میں میرے ساتھی فرینک گارڈنر تھے، جو ’بی بی سی‘ کے نامہ نگار ہیں اور عربی زبان اور مشرق وسطیٰ امور کے طالب علم تھے۔ میں ہمیشہ سے علوم کا شوقین رہا ہوں اور گہرائی میں جانے کا عادی ہوں، لیکن قرآن مجید میں موجود کچھ آیات، جو 14 صدیوں قبل نازل ہوئیں، مجھے بہت گہرائی میں لے گئیں۔
یہ آیات عظیم دھماکے (Big Bang) کے بارے میں بات کرتی ہیں، کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں بتاتی ہیں، اور پہاڑوں کے زمین کی حفاظت میں کردار کو بیان کرتی ہیں۔ قرآن کی تین آیات نے میری زندگی کو بالکل بدل دیا اور میرے دل کو ہدایت، نور اور ایمان کی گہرائی سے بھر دیا۔ یہ آیات ہیں:
1. "وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ” (سورة الذاريات، آیت 47)
2. "أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا” (سورة الأنبياء، آیت 30)
3. "أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا” (سورة النبأ، آیات 6-7)
یہ آیات کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی کتاب 1400 سال قبل ان سائنسی حقائق کو بیان کرے اور ان کے پیچھے خدائی قدرت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ حقائق دریافت کرنے کے بعد، میں قرآن مجید کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو گیا۔ میں ہر رات قرآن کا ایک مکمل حصہ (پارہ) غور سے پڑھتا تھا، یہاں تک کہ ان دریافتوں نے میرے سامنے حق کا راستہ روشن کر دیا۔
سوال: آپ نے قرآن کی تلاوت کب شروع کی؟
سلمان رشدی کی کتاب ’شیطانی آیات‘ کے منظرعام پر آنے کے بعد۔ میں قرآن مجید کو اپنے کام کا حصہ سمجھ کر پڑھ رہا تھا اور ایک پولیس افسر کے طور پر یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسلام کیا ہے، مسلمان سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف اتنے غصے میں کیوں ہیں اور وہ مظاہرے کیوں کر رہے ہیں۔
سوال: کیا آپ نے کوئی عربی نام اختیار کیا؟
نہیں، میں نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ بہت سے عربوں نے مجھ سے اس کی درخواست کی۔ جب میں ’لندن سینٹرل مسجد‘ گیا تو وہاں کے بہت سے لوگوں نے مجھے ’راشد‘ کہنا شروع کر دیا، کیونکہ یہ نام کسی حد تک ’رچرڈ‘ سے ملتا جلتا تھا۔ یہ کافی دلچسپ اور مزاحیہ تھا، کیونکہ اس نام کا مطلب ہے ’جس نے صراط مستقیم پا لیا۔‘ اب عرب دوست مجھے اسی نام سے پکارتے ہیں۔‘
سوال: کیا آپ مسلم پولیس ایسوسی ایشن کے صدر بنے؟
ہاں، میں اس کا صدر رہا ہوں، بلکہ حقیقت میں، میں نے ہی اسے 2000ء میں قائم کیا تھا۔ جب میں نے اسلام قبول کیا تو ’میٹروپولیٹن پولیس‘ میں زیادہ مسلمان نہیں تھے۔ وہاں کچھ پاکستانی تھے، لیکن ان کی تعداد 100 سے بھی کم تھی۔ اب ’میٹروپولیٹن پولیس‘ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 400 ہو گئی ہے اور ملک بھر میں یہ تعداد تقریباً 2000 تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن ہمیں ابتدا میں کسی قسم کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ وہاں مسیحی پولیس افسران کی ایک ایسوسی ایشن تھی اور سکھ پولیس افسران کی بھی ایک ایسوسی ایشن تھی، مگر مسلمانوں کے لیے کوئی ایسوسی ایشن موجود نہیں تھی۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ 1999ء میں ایک کانفرنس کے دوران میری ملاقات ایک شخص محمد معروف سے ہوئی، جو پاکستانی نژاد تھے اور ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ ’میٹروپولیٹن پولیس کے مثبت عمل ٹیم‘ کے ساتھ وابستہ تھے اور میرے ہی طرح سنجیدہ مسلمان تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسوسی ایشن قائم کی جائے، حالانکہ شروع میں اس کے ارکان کی تعداد بہت کم تھی۔ لیکن ہمیں امید تھی کہ جب لوگ سنیں گے کہ پولیس میں مسلمانوں کی ایک ایسوسی ایشن بنائی گئی ہے تو وہ بھی اس کا حصہ بننا چاہیں گے۔ اس طرح ہم نے 2000ء میں ’مسلم پولیس ایسوسی ایشن‘ قائم کی اور میں اس کا صدر بن گیا، جبکہ معروف کو ایسوسی ایشن کا سیکریٹری بنایا گیا۔ مسلم پولیس ایسوسی ایشن کی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے۔ ایسوسی ایشن نے برطانیہ میں مسلم پولیس افسران کی آواز وزارت داخلہ اور برطانوی حکومت کے فیصلہ سازوں تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں مسلم خواتین پولیس افسران کو اسلامی حجاب پہننے کی اجازت دی گئی۔ اس کے لیے کئی تجربات کیے گئے تاکہ ایسا عملی حجاب منتخب کیا جا سکے جو مسلم خواتین کے کام میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس کے علاوہ، خواتین افسران کے لیے نماز پڑھنے کے لیے علیحدہ جگہیں مختص کی گئیں، رمضان کے مہینے میں افطار کے وقت کھانے کا انتظام کیا گیا اور عید کے دن کو سرکاری چھٹی کے طور پر شمار کیا گیا۔
سوال: کیا آپ نے کسی اسلامی ملک کا دورہ کیا ہے اور کیا آپ حج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ہاں، میں حج کا ارادہ رکھتا ہوں، خاص طور پر جب میں نے تمام مناسک دیکھے ہیں، تو میں ان شاء اللہ اس سال حج کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کے علاوہ، میں نے صرف ایک اور اسلامی مقام کا دورہ کیا اور وہ قاہرہ تھا جہاں میں نے تین دن گزارے۔ 17 سالوں تک لندن سے مکہ مکرمہ کی طرف روزانہ پانچ بار رخ کرنے کے بعد، میں اچانک خود کو اس نور کے سامنے پایا جو حرم مکی کی ہر سمت کو بھر دیتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ میری زندگی کا باقی حصہ میں اس مقام پر گزاروں اور میں نے مقام ابراہیم پر اور طواف کے دوران اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ مجھے رکن پانچویں کی سعادت دے اور مجھے حج کی عبادت کی توفیق عطا کرے۔ مدینہ منورہ میں، میں نے چار راتیں گزاریں، اس سے پہلے کہ میں مکہ مکرمہ جاؤں، مسجد نبوی میں وہاں ایسی بہت سی علامات تھیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ دین حق ہے اور اس کی کتاب آسمان سے نازل ہوئی ہے۔ اگرچہ آپ مسلمان نہ بھی ہوں، بس مسجد نبوی کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرتے ہیں اور قائل ہو جاتے ہیں کہ یہ ایک آسمانی دین ہے جو تمام انسانیت کی ہدایت کے لیے آیا ہے۔
سوال: انٹیروگیشن کے دوران، اگر آپ کے پاس کوئی مسلمان دہشت گردی کے شبہے میں گرفتار ہو، تو کیا آپ اپنے مسلم ہونے کو بھول کر اپنے کام کو پیشہ وارانہ انداز میں انجام دیتے ہیں؟
جب ہمارے پاس وہ قیدی آتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، تو ہم ان کے ساتھ بہت ہی مہذب طریقے سے پیش آتے ہیں۔ ایک شخص جو گوانتانامو سے آیا تھا، وہ پولیس ’میٹروپولیٹن‘ کی جانب سے اچھے سلوک کا ذکر کرتا تھا، کیونکہ ہم نے یہ تصدیق کی تھی کہ اس کے پاس نماز پڑھنے کے لیے چٹائی ہے اور اگر ہمارے پاس کوئی مسلم قیدی ہو اور وہ قرآن کا ایک نسخہ مانگتا ہے تو ہم اسے فراہم کرتے ہیں۔ ہم اس طرح کی تمام چیزوں کے بارے میں آگاہ ہیں، خاص طور پر حلال کھانا فراہم کرنے کے بارے میں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں آج کے دور میں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں، جو شاید ہم دس سال پہلے اتنے کامیاب نہیں تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں، چاہے تفتیش کے دوران ان کے مجرمانہ پہلو پر توجہ دی جا رہی ہو۔
تبصرہ کریں