مک ریور ، یوجینیا یوسف (سی این این)
جب حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈز نے اتوار کی رات 3 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی ویڈیو جاری کی، اس میں ایک حیران کن معاملہ سامنے آیا۔
جیسے ہی رومی گونن، ڈورون اسٹین بریچر، اور ایملی دماری غزہ شہر میں ریڈ کراس کی گاڑی (SUV) میں سوار ہوئیں، حماس کے ایک عسکریت پسند نے ان میں سے ہر ایک کو ایک کاغذی بیگ دیا جس پر القسام بریگیڈز کا لوگو نظر آ رہا تھا، اور یہ تحائف پر مبنی بیگ تھا۔
اس دوران میں نقاب پوش عسکریت پسند نے ایک سرٹیفکیٹ اٹھا رکھا تھا جس پر عبرانی اور عربی زبانوں میں لکھا ہوا تھا ’ رہائی کا فیصلہ‘۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی طرف سے اتوار کو جاری کی گئی فوٹیج میں تینوں خواتین میں سے ہر ایک بیگ اٹھائے ہوئے تھی۔
گونن کے خاندان کے ایک نمائندے نے پیر کو امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این کو بتایا کہ گونن کو جو بیگ ملا ہے اس میں سرٹیفکیٹ، ایک ہار اور تصاویر تھیں۔ اور کہا کہ اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی (شن بیٹ) نے یہ مواد ضبط کر لیا ہے۔
یہ تصاویر کس قسم کی تھیں؟ انہوں نے اس کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا تاہم اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تصاویر میں ان خواتین کی قید کا زمانہ دکھایا گیا ہے۔
حوالگی کے دوران، ریڈ کراس کے نمائندے سے عربی زبان کی دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا گیا جس کا عنوان تھا ’اسرائیلی قیدیوں کی وصولی کا اعتراف‘۔ جبکہ دستاویز میں لکھا گیا تھا ’میں، بین الاقوامی ریڈ کراس کا نمائندہ، تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز سے کل تین قیدی موصول ہوئے ہیں، جو…‘ اور پھر ان یرغمالیوں کے نام لکھے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
حماس اسرائیل معاہدہ نافذ، تین اسرائیلی قیدی خواتین کی رہائی
اسرائیل پہلی بار جنگ ہار گیا، ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ
سات اکتوبر 2023 کے بعد، مشرق وسطیٰ کس قدر بدل چکا ہے؟
سی این این کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رہا ہونے والی یرغمالیوں، اسرائیلی معاشرے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے یہ ایک حیران کن معاملہ ہے کہ یرغمالیوں کو 471 دنوں تک جبری قید میں رکھنے کے بعد تحائف سے بھرا بیگ دیا گیا۔
اس طرح حماس کی طرف سے خود کو ایک ناقابل شکست، سنجیدہ منتظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر اپنے دلیرانہ، تباہ کن حملے کے 15 ماہ بعد، حماس کو معلوم تھا کہ اس کے لیے یہ اہم لمحہ آئے گا۔
حماس کی طرف سے پیغام واضح تھا، اسرائیلیوں کے لیے، غزہ والوں کے لیے، اور دنیا بھر میں دیکھنے والوں کے لیے کہ وہی غزہ کی قانونی گورننگ باڈی تھی،اور اب بھی ہیں۔ اسی کے پاس باقاعدہ قانونی اختیار حاصل ہے۔ حتیٰ کہ ان اسرائیلی شہریوں سے متعلق بھی جنہیں ان کے گھروں سے زبردستی اٹھایا گیا ہے۔
یہ پیغام غزہ شہر کے السرایا چوک میں بھی نظر آیا جہاں القسام بریگیڈ کے عسکریت پسندوں کی ایک قطار سڑک پر کھڑی تھی، یہ ان اسرائیلی عوام کے لیے ایک پیغام تھا، جن کی حکومت نے اس گروہ کو تباہ کرنے کا عہد کیا تھا۔
غزہ شہر میں چند درجن عسکریت پسندوں کا جمع ہونا شاید ہی کسی سنگین فوجی خطرے کا ثبوت ہو۔ تاہم یہ تصاویر اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کو اشتعال دلائیں گی اور ان لوگوں کو بھی مشتعل کریں گی جو جنگ بندی کے حق میں تھے، اور مذاکرات کے حامی تھے۔ وہ یہ دلیل دیں گے کہ اگر 15 ماہ کی مسلسل جنگ حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہی تو مزید خونریزی بھی حماقت ہوگی ۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون سار نے اتوار کے روز اعتراف کیا کہ اسرائیل حماس کی فوج اور حکومت کو ختم کرنے کا مقصد پورا نہیں کر سکا۔
’ہاں! ہم نے پیش قدمی ضرور کی ہے۔‘
اسرائیلی فوج اور یرغمالیوں یا مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے فورم نے یرغمالیوں کی رہائی والی ویڈیو پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جس میں انھیں تحائف سے بھرے بیگز دیے گئے۔
دریں اثنا، امریکی وزیر خارجہ( جو گزشتہ شب سابق ہوچکے ہیں) اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنا ہدف پورا کرنے سے بہت دور رہا۔
’ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ حماس نے تقریباً اتنے ہی نئے عسکریت پسندوں کو بھرتی کیا ہے جتنے عسکریت پسندوں سے وہ محروم ہوئی۔ یہ ایک طویل جنگ کا معاملہ ہے۔‘
تبصرہ کریں