محمود الحسن
ہم عجیب لوگ ہیں، ایک طرف قحط الرجال کا رونا لیکن دوسری طرف معروف ہستیوں کو جھوٹی خبر کے تیر سے وقت سے پہلے مارنے کے درپے رہتے ہیں۔ میڈیا کو تو خیر سب سے پہلے خبر بریک کرنے کی ازلی بیماری ہے لیکن سوشل میڈیا پر عام لوگوں کو ایسی کیا آفت پڑتی ہے جو وہ کسی کے فوت ہونے کی غیر مصدقہ خبر کو فروغ دیتے ہیں۔ یوں جیسے مرنے کا شدت سے انتظار کر رہے ہوں۔
برصغیر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے اور ان کے پہلو بہ پہلو اخبارات و رسائل بھی جھوٹی خبروں کا ذریعہ بنتے رہے ہیں ۔ ان کے لیے ٹی وی اور سوشل میڈیا کی طرح فوری تردید کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے یہاں شائع شدہ جھوٹی خبر خرابِی بسیار کا باعث بنتی ہے۔
اخبارات میں ضعیف اور علیل مشہور شخصیات کے بارے میں خاص ایڈیشن ایڈوانس میں تیار کر کے رکھنے کی روایت بھی ہے جو ان کے مرحوم ہونے پر منصہ شہود پر آتے ہیں۔ اس سلسلے کے کئی واقعات صحافی کی حیثیت سے میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں۔ اس وقت لیکن اپنے تجربے سے باہر کےایک واقعے کا ذکر کرتا ہوں جس کا تعلق ملکہ ترنم نور جہاں کی ذات سے ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جنگ اخبار نے میڈم کے جیتے جی ایک خاص ایڈیشن تیار کروا لیا تھا جسے ان کے بزمِ جہاں سے رخصت ہونے کے بعد منظرِ عام پر آنا تھا لیکن جنگ لندن میں وہ غلطی سے نور جہاں کی حین حیات میں شائع ہو گیا۔ اس پر میڈم برافروختہ ہوئیں اور ذمہ داران کو سخت سست کہا۔
میڈم کا غصہ کیسے فرو ہوا اس کے بارے میں معروف فکشن نگار اور اخبار جہاں کے سابق ایڈیٹر اخلاق احمد بتاتے ہیں:
’ملکہ ترنم نور جہاں کے انتقال کا سپلیمنٹ جنگ لندن میں چھپ گیا تھا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس معاملے کی معافی تلافی کرنے کے لیے اس وقت حسین حقانی سے مدد لی گئی تھی جنہوں نے نور جہاں کے داماد حسن سردار کے گھر پر ان سے رابطہ کیا تھا‘۔
یہ تو ایڈیشن کی بات ہے کالم نویس بھی زندوں کے بارے میں تعزیتی کالم لکھ مارتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک مثال شاعر اسرار زیدی کی ہے جنہوں نے جاگتی آنکھوں سے اشفاق نقوی کا وہ انگریزی کالم ملاحظہ کیا جس کے مطابق وہ دنیا سے گزر چکے تھے۔
اس سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے ہنگامہ خیز دنوں میں صحافی اور شاعر صلاح الدین محمد کے مرنے کی خبر آئی تو منو بھائی نے تعزیتی کالم رقم کر دیا لیکن بعد میں وہ زندہ سلامت لاہور پہنچ گئے اور طویل عرصہ ہمارے درمیان رہے۔
انتظار حسین کے بقول ’منو بھائی کا کالم انہوں نے پڑھ لیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی قیامت کے ساتھ ساتھ منو بھائی کے تعزیتی کالم کی قیامت کو بھی جھیل گئے بلکہ اس کے بعد تو زیادہ تندرست ہو گئے۔‘
منیر نیازی نے بھی اپنے مرنے کی خبر بقائمی ہوش و حواس سنی۔ یہ خبر ہندوستان سے نکلی تھی اور پھر وہاں منیر نیازی کو بڑی محبت سے یاد کیا گیا۔ پاکستان میں کسے یہ تاب و مجال تھی کہ منیر نیازی کے ہوتے ہوئے ادب کے ماہ منیر کے غروب ہونے کی جھوٹی خبر پھیلا سکے۔ اس قصے کی تفصیلات ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
گزشتہ برسوں میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر مختلف شخصیات کے مرنے کی فیک نیوز کی فہرست سازی کے بجائے خیال ہوا کہ ماضی کے جھروکوں سے 3 واقعات بیان کیے جائیں جن کے بارے میں آج کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ان ہستیوں نے فیک نیوز کا وار سہنے کے بعد لمبا عرصہ زیست کا مزہ پایا۔
اس سلسلے کی پہلی مثال نامور مغنیہ مختار بیگم کی ہے۔ ان کی آواز کے جادو کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں سے اگر آپ ان کے عاشقِ صادق آغا حشر کی غزل ہی سن سکیں تو ان کے فن کی بلندی کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ کیا مضائقہ ہے اگر آپ اس مضمون کے توسط سے یہ غزل پڑھ لیں :
چوری کہیں کُھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبو اُڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
اللہ رکھے اس کا سلامت غرورِ حسن
آنکھوں کو جس نے دی ہے سزا انتظار کی
گلشن میں دیکھ کر مرے مستِ شباب کو
شرمائی جاری ہے جوانی بہار کی
اے میرے دل کے چین مرے دل کی روشنی
آ اور صبح کر دے شبِ انتظار کی
جرأت تو دیکھئے گا نسیمِ بہار کی
یہ بھی بلائیں لینے لگی زلفِ یار کی
اے حشرؔ دیکھنا تو یہ ہے چودھویں کا چاند
یا آسماں کے ہاتھ میں تصویر یار کی
مختار بیگم کی فنی تربیت گاہ کے ٹکسال سے ان کی بہن فریدہ خانم کی سی مایہ ناز گلوکارہ بھی ڈھل کر نکلی ہیں۔ ان کی شخصیت کے اعجاز نے جنہیں اپنی طرف کھینچا ان میں ملکہ ترنم نور جہاں سے بڑا نام کیا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے
رائٹرنہ بنتی تو میں شاید پاگل ہوجاتی، معروف پاکستانی مصنفہ بیپسی سدھوا سے مکالمہ
شہر زاد عالم : معروف ظروف ساز (potter) بھی چلی گئیں
اب آتے ہیں موضوع کی طرف ۔ سنہ 1934 میں مختار بیگم کا کلکتہ میں طوطی بول رہا تھا۔ ایسے میں وہ ایسی بیمار پڑیں کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ اس وقت جب وہ اسپتال میں زندگی کے لیے لڑ رہی تھیں پنجاب کے اخبارات نے ان کے انتقال کی خبر شائع کر دی۔ یہ جھوٹی خبر ان کے پرستاروں پر بجلی بن کر گری۔ کلکتہ سے اس کی تردید ہوئی لیکن اس وقت تک یہ خبر چار دانگ عالم میں پھیل چکی تھی۔
ان کی موت کی تردید میں کلکتہ سے رسالے ’فلم اور اسٹیج‘ نے ایک تحریر شائع کی جس کا عنوان تھا ’مختار بیگم زندہ ہیں‘۔ اس کی زوردار عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ فیک نیوز نے کس بڑے پیمانے پر خرابی پیدا کی تھی :
’ لاہور کے قریباً تمام اخبارات نے مختار بیگم کی موت کی خبر نہایت فوق البھڑک عنوانات سے شائع کی۔ ایک اخبار نے تو کمال کردیا ۔ لکھتا ہے کہ مختار کی موت سے کلکتہ میں ایک سنسنی پھیل گئی۔ لوگوں نے کاروبار بند کردیے۔ تمام نگار خانے بند ہو گئے۔ جنازہ کے ہمراہ لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا۔ جس میں مالکانِ فلم کمپنی، ایکٹر،ایکٹرسیں وغیرہ سب کوئی شریک تھے (اور غالباً ایڈیٹر اخبار موصوف میت کو کندھا دیے ہوئے تھے) اور جنازہ کی فلم لی گئی۔ اسی قسم کی بے سروپا باتیں درج ہیں … پنجاب کے تمام اخبارات میں کوئی خبر شائع ہو ہندوستان بھر میں پھیلنا لازمی ہے۔ تاروں اور خطوط کا سلسلہ تھا جو لگاتار چلا آتا تھا۔ایسے عالم میں ان کے عزیزو اقارب کے پاس موت پر اظہارِ افسوس،خیریت طلب تاروں کی بھرمار۔ ہزاروں خطوط کا پڑھنا۔ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ قصور تار اور خط روانہ کرنے والوں کا نہیں بلکہ ان غیر ذمہ دارانہ اخبار نویسوں کا ہے جو ایسی جھوٹی خبریں اس قدر تفصیل کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔‘
اس خبر کی اشاعت کے بعد مختار بیگم 48 سال زندہ رہیں۔ برصغیر میں فیک نیوز کی زد میں آنے کے بعد کسی معروف شخصیت کے زندہ رہنے کا یہ غالباً طویل ترین عرصہ ہے۔
معروف محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے مجھے ایک دفعہ بتایا تھا کہ 25 فروری 1982 کو مختار بیگم کے انتقال سے غالباً ایک سال پہلے ان کے مرنے کی جھوٹی خبر جنگ اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ وقت سے پہلے مختار بیگم کی جان لینے کی یہ دوسری صحافتی ’اٹیمپٹ‘ تھی لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
مختار بیگم کی طرح جگر مراد آبادی کے انتقال کی خبر بھی 2 دفعہ چلی۔ پہلی دفعہ 1938 میں اور دوسری مرتبہ 1958 میں۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری کی جگر مراد آبادی پر کتاب میں دونوں واقعات کا حوالہ موجود ہے۔
پہلی بار کا قصہ یہ ہے کہ وہ مراد آباد میں چند دوستوں کے ساتھ شکار کے لیے گئے تو وہاں سے بغرض تفریح کسی قریبی گاؤں چلے گئے۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شکار سے نہ لوٹنے پر ان کے مرنے کی افواہ پھیل گئی۔ انگریزی اخبار ’اسٹیٹس مین‘ میں خبر کی اشاعت سے بات دور دور تک گئی۔ اخبارات میں ان کی وفات حسرت آیات پر لکھا گیا۔ تعزیتی جلسے ہوئے۔ جامع مسجد دلی میں غائبانہ نمازِجنازہ ادا کی گئی۔
آل انڈیا ریڈیو نے ’یوم جگر‘ منانے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے ہی جگر کے زندہ ہونے کی نوید مل گئی اور ریڈیو نے اس خوشی میں پروگرام کیا جس میں جگر نے اپنا کلام سنایا۔
1958 میں جگر کو دل کا دورہ پڑا تو ایک بار پھر پاک وہند میں ان کے انتقال کی خبر پھیل گئی۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری نے لکھا ہے:
’پاکستان میں پہلے لاہور کے اخباروں میں شائع ہوئی۔ ان سے کراچی کے اخباروں نے نقل کی۔ اس دفعہ بھی خوب تعزیتی جلسے ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے کی صدارت احسان دانش نے بھی کی… اس خبر کی تردید ہو جانے پر مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی نے روزنامہ جنگ میں لکھا تھا کہ پہلی خبر کے بعد جگر صاحب کی عمر 20 سال بڑھ گئی تھی۔ اور اب اس خبر کے بعد پھر کم از کم 20 برس کے اضافے کی توقع ہے‘۔
یہ بھی پڑھیے
خالد احمد کے پسندیدہ مصنفین کون ہیں؟
غالب کا محلہ بِلّی ماراں یا بَلّی ماراں؟
علامہ اقبال کی شاعری پر کرشن چندر پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے مگر۔۔۔۔
شوکت تھانوی کی توقع پوری نہ ہوئی اور 2 ہی سال بعد جگر مراد آبادی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
جگر مراد آبادی کے بعد منیر نیازی کی 1983 میں ’انتقالِ پر ملال‘ کی بات کر لیتے ہیں جس کا انڈیا میں بہت سوگ منایا گیا۔
‘’کتاب نما‘ دہلی نے دسمبر 1983 کے پرچے میں اپنے اداریے میں لکھا:
’ابھی سلیم احمد کی جدائی کا غم تازہ ہی تھا کہ پاکستان سے ایک اور سانحے کی خبر ملی۔ منیر نیازی بھی ہماری بزم سے رخصت ہو گئے۔ نظم اور غزل دونوں صنفوں میں ان کی آواز الگ سے پہچانی جاتی تھی۔ نئی نظم کی تعمیر میں ہمارے زمانے کے جن معدودے چند شعرا کی خدمات بے مثال کہی جاسکتی ہیں ان میں ایک نہایت اہم اور ممتاز نام منیر نیازی کا بھی تھا۔ منیر نیازی کی شاعری معاصر ادب کی تاریخ میں ایک علاحدہ باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس شاعری کا مزاج، ماحول اور ذائقہ ایک منفرد اور مختلف فنی اور تخلیقی شعور کا پتا دیتا ہے، جو طلسماتی فضا منیر نیازی کی شاعری کا اختصاص تھی، اسی فضا کا عکس ان کی زندگی اور شخصیت پر بھی سایہ فگن رہا۔ ایک انوکھی گمشدگی، قلندری اور بے نیازی منیر نیازی کے پورے وجود کا حصہ تھی، زمانہ لاکھ فراموش کار سہی، منیر نیازی کی شاعری کا سحر ہمیشہ باقی رہے گا۔ ان کے جانے سے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی ادبی روایت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔‘
ممتاز نقاد شمیم حنفی نے ’مرحوم‘منیر نیازی پر کالم میں لکھا:
’کیا میرا جی ، کیا ناصر کاظمی اور منیر نیازی تینوں کی تقدیر جواں مرگی ٹھہری۔‘
منیر نیازی کے مرنے کی خبر باؤنس ہونے پر شمیم حنفی بہت خوش ہوئے اور انتظار حسین کو خط میں لکھا:
’یہ منیر نیازی اچانک گئے اور اچانک آگئے۔ پہلے وحید اختر نے بتایا، پھر احمد ہمیش نے، پھر کچھ اور لوگوں نے۔ نہ پوچھیے اپنے غلط ثابت ہونے پر کتنی خوشی ہوئی… احمد ہمیش نے تو ان کی موت کا نقشہ بھی کھینچ دیا تھا اور بہت دل گرفتہ نظر آیا تھا۔ جگر صاحب کے بعد یہ دوسری افواہ تھی … زندہ باد منیر نیازی ۔ سنتے ہیں ایسوں کی عمر دراز ہوتی ہے… محمود ہاشمی نے تو ایک تعزیتی پروگرام بھی کر ڈالا۔‘
اس سارے قضیے میں احمد ہمیش کے کردار پر انتظار حسین نے بڑی گرفت کی ہے ۔
شمیم حنفی کا خط پڑھنے کے بعد انہوں نے مشرق اخبار میں اپنے کالم ’خبر مرگ پیش از مرگ‘ میں لکھا:
’ لیجیے صاحب چور کا پتا چل گیا۔ منیر نیازی تو اپنی موت کے مصنف کو لاہور میں تلاش کر رہے تھے مگر آدمی کراچی سے بر آمد ہوا ہے۔ منیر نیازی شک کر رہے تھے کشور ناہید پر، بر آمد ہوئے احمد ہمیش، احمد ہمیش جب ہندوستان جاتے ہیں تو کوئی گل ضرور کھلاتے ہیں۔ اب کے وہ ہندی کانفرنس میں گئے تھے تو یہ گل کھلایا کہ اردو شاعری کا ایک پھول ہی مرجھا چلا تھا اور ظالم نے خالی خبر نہیں سنائی ایسا نقشہ کھینچا جسے دم نزع وہ بالیں پر بیٹھا ہوا تھا۔‘
موت سے پہلے موت کی خبر سے منیر نیازی کی ناراضی دور کرنے کے لیے انتظار حسین نے ان سے کہا:
’جیتے جی ایسے خراجِ تحسین کسے میسر آتے ہیں۔ ٹھیک ہے تم نے یوں شاعر کی حیثیت سے بہت داد پائی ہے لیکن مرنے کے بعد جو خراجِ تحسین پیش کیے جاتے ہیں، اس لذت سے محروم رہتے۔ تم ان معدودے چند خوش بختوں میں سے ہو جنہوں نے جینے کے مزے کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور تعزیتی خراج تحسین سے بھی لطف اندوز ہو لیے۔ اس سے پہلے یہ شرف جگر صاحب کو حاصل ہوا تھا۔‘
شمیم حنفی کی اس بات پر کہ ایسوں کی عمر دراز ہوتی ہے، انتظار حسین نے جگر اور صلاح الدین محمد کی مثال دے کر صاد کیا اور لکھا کہ ان شاءاللہ موت کی یہ افواہ منیر نیازی کو راس آئے گی اور وہ عمر دراز پائیں گے۔
شمیم حنفی اور انتظار حسین نے جس تمنا کا اظہار کیا تھا وہ پوری ہوئی اور منیر نیازی اپنی موت کی فیک نیوز کے بعد 23 برس اور جیے۔
تبصرہ کریں