فلسطین کی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ ’القسام بریگیڈ‘ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ انھوں نے آج اسرائیلی قیدیوں رومی جونین، ایملی دماری اور دورون شطنبر خیر کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے ثالثوں کے ذریعے ان تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے نام فراہم کر دیے ہیں اور بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی فہرست کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے، جنہیں آج رہا کیا جانا متوقع ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی نشریاتی ادارے نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے قطری ثالث سے ان خواتین قیدیوں کی فہرست وصول کر لی ہے، جنہیں آج رہا کیا جائے گا اور یہ اس وقت ہوا جب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ (14:00 گرین وچ ٹائم) کے مطابق نافذ ہو گیا۔
ایملی دماری کے گھر والوں نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں بتایا گیا ہے کہ ایملی دماری ان قیدیوں کی فہرست میں شامل ہے جنھیں آج رہا کیا جائے گا۔
جبکہ رومی جونین اور دورون شطنبر خیر اسرائیل کے ساتھ ساتھ برطانوی شہریت بھی رکھتی ہیں۔
اس سے پہلے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اس وقت تک نافذ نہیں ہوگا جب تک حماس ان قیدیوں کی فہرست فراہم نہیں کرتی جنہیں آج اتوار کو رہا کیا جانا تھا، تاہم حماس نے معاہدے کی شرائط پر عمل کرنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ فہرست کی فراہمی میں تاخیر فنی اور میدان میں مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ حماس اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے میں، سب سے پہلے آج تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگلے سات دنوں میں، حماس مزید چار اسرائیلی قیدی رہا کرے گی۔ جب کہ پہلے مرحلے میں ( جو بیالیس سے ساٹھ دنوں پر محیط ہوسکتا ہے) مجموعی طور پر تینتیس اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
پہلا مرحلہ
پہلا مرحلہ 42 دنوں پر مشتمل ہے۔ اس مرحلے میں درج ذیل امور پر اتفاق کیا جائے گا۔
دونوں فریقوں کی طرف سے باہمی فوجی کارروائیوں کو عارضی طور پر روکنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔قابض اسرائیلی فوج کا مشرق کی طرف اور آبادی والے علاقوں سے دور غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں بشمول "وادی غزہ” میں سرحد سے متصل علاقے تک انخلا عمل میں لایا جائے گا۔ 7 اکتوبر 2023 سے پہلے کے نقشوں کی بنیاد پراسرائیلی فوج سرحد سے 700 میٹر کے فاصلے تک رہے گی۔
غزہ کی پٹی میں فوجی اور جاسوسی کے مقاصد کے لیے اسرائیلی فضائی سرگرمیوں کو عارضی طور پر 10 گھنٹے فی دن اور قیدیوں کی رہائی کے دنوں میں 12 گھنٹے کے لیے معطل کیا جائے گا۔
پہلے مرحلے کے دوران اسرائیل تقریباً 2,000 قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں 250 عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے تقریباً 1,000 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
بے گھر ہونے والوں کی اپنے رہائش کے علاقوں میں واپسی اور وادی غزہ سے انخلاء کیا جائے گا۔
اسرائیلی زیر حراست افراد کی رہائی کے بعد قابض فوج معاہدے کے ساتویں دن رشید اسٹریٹ مشرق سے صلاح الدین سٹریٹ تک مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی اور اس علاقے میں موجود تمام فوجی چوکیوں کو کو ختم کر دیا جائے گا۔ بے گھر ہونے والوں کو ان کے رہائشی علاقوں میں واپس بھیجنے کے عمل کا آغاز ہوگا اور تمام شعبوں میں آبادی کے لیے نقل و حرکت کی آزادی کو یقینی بنانے کے علاوہ پہلے دن سے ہی شاہراہ رشید کے ذریعے انسانی امداد کے داخلے اور بغیر کسی رکاوٹ کے جاری کیا جائے گا۔
معاہدے کے نفاذ کے آغاز کے 22ویں دن قابض اسرائیلی فوج پٹی کے مرکز سے خاص طور پر "نیٹزاریم محور” اور "کویت گول چکر” سے سرحد کے قریب کے علاقے میں واپس آجائیں گی۔ فوجی تنصیبات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا بے گھر ہونے والوں کی ان کی رہائش گاہوں پر مسلسل واپسی اور پٹی کے تمام علاقوں میں آبادی کو نقل و حرکت کی آزادی دی جائے گی۔
پہلے مرحلے پر عمل درآمد شروع ہونے کے 7 دن بعد رفح کراسنگ کو کھول دیا جائے گا اور انسانی امداد، امدادی سامان اور ایندھن کی کافی مقدار روزانہ 600 ٹرکوں کے ذریعے داخل کی جائے گی۔ ان میں سے 50 ٹرک ایندھن روزانہ روانہ کیے جائیں گے۔ 300 ٹرک شمالی کی طرف جائیں گے۔
دونوں طرف سے قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) 33 اسرائیلی قیدیوں (زندہ یا مردہ) کو رہا کرے گی، جن میں سویلین خواتین ،خواتین فوجی، 19 سال سے کم عمر کے بچے، 50 سال سے زیادہ عمر کے بوڑھے اور زخمی اور بیمار شہری شامل ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی جیلوں اور حراستی مراکز سے ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے 30 فلسطینی بچوں اور خواتین کو رہا کیا جائے گا۔
قابض ریاست کی جیلوں سے 30 بزرگ اور بیمار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے حماس تمام زندہ بوڑھے، بیمار اور زخمی قیدیوں کو رہا کرے گی۔
اسرائیل حماس کی طرف سے رہائی پانے والی ہر اسیر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
پہلے مرحلے میں قیدیوں کا درج ذیل ترتیب سے تبادیا کیا جاے گا۔
1- معاہدے کے پہلے دن، حماس 3 اسرائیلی شہری قیدیوں کو رہا کرے گی اور ساتویں دن، وہ 4 دیگر قیدیوں کو رہا کرے گی۔
اس کے بعد حماس ہر 7 دن میں 3 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی اور لاشیں واپس کرے گی۔
2- معاہدے کے چھٹے ہفتے میں اسرائیل "شالیت ڈیل” کے 47 قیدیوں کو رہا کرے گا جنہیں 2011 میں رہائی کے بعد دوبارہ قید کیا گیا تھا۔
3- اگر رہائی پانے والے زندہ اسرائیلی قیدیوں کی تعداد 33 تک نہیں پہنچتی ہے تو باقی لاشوں کی تعداد پوری ہو جائے گی۔ بدلے میں چھٹے ہفتے میں اسرائیل 7 اکتوبر 2023 کے بعد پٹی سے گرفتار تمام خواتین اور بچوں کو رہا کر دے گا۔
4- تبادلے کا عمل معاہدے کی شرائط سے وابستگی کی حد سے منسلک ہے، جس میں دونوں طرف سے فوجی کارروائیوں کا خاتمہ، قابض افواج کا انخلا، بے گھر افراد کی واپسی، اور انسانی امداد کا داخلہ شامل ہے۔
جن فلسطینی قیدیوں کو انہی الزامات کے تحت رہا کیا گیا تھا جن کی وجہ سے انہیں پہلے حراست میں لیا گیا تھا، ان کی دوبارہ گرفتاری ممنوع ہے۔انہیں اپنی بقیہ سزا پوری کرنے کے لیے دوبارہ گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی قیدیوں کو ان کی رہائی کی شرط کے طور پر کسی دستاویز پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
پہلے مرحلے میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے طے کیے گئے معیار کو معاہدے کے دوسرے مرحلے میں تبادلے کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کی شرائط کے حوالے سے دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ بات چیت، معاہدے کے نافذ ہونے کے 16ویں دن کے بعد شروع نہیں ہوگی۔
اقوام متحدہ، اس کی ایجنسیاں اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں انسانی خدمات کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور معاہدے کے تمام مراحل میں کارروائیاں جاری رہیں گی۔
غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی شروع کی جائے گی، شہری دفاع کی ٹیموں کے لیے ضروری سامان لایا جائے گا اور ملبہ ہٹایا جائے گا۔یہ ترتیب معاہدے کے تمام مراحل میں جاری رہتا ہے۔
جنگ کے دوران اپنے گھروں سے محروم ہونے والے بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں کی تعمیر کی خاطر سامان داخل ہونے کی اجازت ہے، جس میں کم از کم 60,000 عارضی ہاؤسنگ یونٹس اور 200,000 خیموں کی تعمیر بھی شامل ہے۔
معاہدے کے تحت زخمی فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک بڑی تعداد طبی علاج کے لیے رفح کراسنگ سے بیرون ملک علاج کے لیے جانےکی اجازت ہوگی۔ کراسنگ سے گذرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور اس سے گزرنے والے مسافروں کے ساتھ ساتھ سامان کی نقل و حرکت پر پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔
جنگ کے نتیجے میں تباہ ہونے والے گھروں اور شہری انفراسٹرکچر کی جامع تعمیر نو کے لیے ضروری انتظامات اور منصوبوں پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا مصر، قطر، اور اقوام متحدہ سمیت متعدد ممالک اور تنظیموں کی نگرانی میں متاثرہ افراد کو معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
دوسرے مرحلے میں پہلے مرحلے کے تمام اقدامات پر عمل درآمد کا تسلسل ہوگا جب تک کہ شرائط پر بات چیت جاری رہے، معاہدے کے ضامنوں کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے تسلسل کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے جب تک کہ دونوں فریق کسی معاہدے پر نہ پہنچ جائیں۔
دوسرا مرحلہ
یہ مرحلہ بھی 42 دن پر مشتمل ہوگا۔ اس میں درج ذیل امور پر اتفاق کیا گیا۔
پائیدار امن کی واپسی کا اعلان، بشمول فوجی کارروائیوں اور دشمنانہ سرگرمیوں کا مستقل خاتمہ اور دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں تمام زندہ اسرائیلی مردوں کو فلسطینی قیدیوں جن کی تعداد کا تعین بعد میں کیا جائے گا کے بدلے میں رہا کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ قابض اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی سے مکمل طور پرنکل جائے گی۔
تیسرا مرحلہ
تیسرا مرحلہ 42 دنوں پر مشتمل ہوگا۔
دونوں فریق اپنے اپنے پاس موجود لاشوں کی شناخت کرنے کے بعد لاشوں اور باقیات کا تبادلہ کیا جائے گا۔
معاہدے کی سرپرستی کرنے والے متعدد ممالک اور تنظیموں کی نگرانی میں تمام متاثرہ افراد کو معاوضہ دینے کے علاوہ 3 سے 5 سال کے عرصے میں غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا جس میں مکانات، شہری عمارتیں اور بنیادی ڈھانچہ شامل ہیں۔
تمام کراسنگ کھول دی جائیں گی اور لوگوں اور سامان کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے گی۔
’نیتن یاہو کا جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا ایک طویل ریکارڈ‘
صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ اسرائیل بالخصوص وزیر اعظم نیتن یاہو کا جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا ایک طویل ریکارڈ ہے اور کہا کہ اس بار اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
ایردوان نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غزہ سے مثبت خبریں موصول ہوئی ہیں، جس نے دلوں میں لگی آگ پر کچھ پانی ڈالا ہے، کہا ہے "ہماری انتھک کوششوں اور تجاویز کے نتیجے میں، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ 15 ماہ کے بعد امید ہے کہ غزہ کے لوگ قدرے سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حکومت 467 دنوں سے جاری نسل کشی اور قتل عام کے باوجود غزہ کے عوام کی مزاحمت کے عزم کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
اسرائیل، خاص طور پر نیتن یاہو کا جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا ایک طویل ریکارڈ ہونے کی یاد دہانی کراتے ہوئے ایردوان نے کہا، ’اس بار اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ غزہ میں ماضی کی واپسی کو روکنے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈالنا چاہیے۔‘
ایردوان نے کہا کہ ہم نے 467 دنوں کے دوران غزہ کے لوگوں کو ایک لمحے کے لیے بھی تنہا یا بے یارومددگار نہیں چھوڑا اور ہم جنگ بندی کی مدت کے دوران غزہ کے خون آلود زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ ’ہم جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ایک ایک کرکے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔‘
تبصرہ کریں