القادر-یونیورسٹی،-سوہاوہ-کا-ماڈل

القادر ٹرسٹ کا قیام ہی غیرقانونی نکلا لیکن کیسے؟ نئے انکشافات سامنے آگئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

القادر ٹرسٹ سے متعلق نئے حیران کن انکشافات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق یہ ایک محدود مدت کے لیے بنایا گیا ٹرسٹ تھا جس کا قانونی طور پر کوئی وجود نہیں تھا۔

انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، القادر ٹرسٹ کو صرف 8 ماہ کے لیے ایک ٹرسٹ کے طور پر قائم کیا گیا تھا، آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے مطابق، اس ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں ہے، القادر ٹرسٹ کے صرف 2 ٹرسٹی ہیں جو کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مطابق، دسمبر 2019 میں پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے سب رجسٹرار آفس اسلام آباد میں القادر ٹرسٹ کو رجسٹر کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک نیا آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 تیار کیا گیا جبکہ القادر ٹرسٹ کی رجسٹریشن سابقہ ٹرسٹ ایکٹ 1882 کے تحت ہوئی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ ٹرسٹ ایکٹ 1882 کے تحت القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کی ٹرسٹ ڈیڈ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ٹرسٹیز 4 سے کم یا 500 سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔

ابتدائی طور پر اس کے ٹرسٹیز بابر اعوان اور زلفی بخاری تھے جنہیں 2021 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر ہٹایا گیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر اور فرحت شہزادی (فرح گوگی) کو ٹرسٹی نامزد کیا گیا لیکن یہ دونوں ٹرسٹیز کے طور پر کبھی رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔

نئے ایکٹ کے تحت القادر ٹرسٹ کا وجود؟

آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کو 26 اگست 2020 کو لاگو کیا گیا اور ہر ٹرسٹ کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ خود کو نئے ایکٹ کے تحت رجسٹر کرائیں، تاہم محکمہ صنعت اور لیبر کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق القادر ٹرسٹ نے 2 سال کی تاخیر کے بعد یعنی 2023 میں رجسٹریشن کی درخواست جمع کرائی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القادر ٹرسٹ تاحال خود کو رجسٹرڈ کرانے میں ناکام رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ القادر ٹرسٹ کا آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے تحت کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیا آئی سی ٹی ٹرسٹ ایکٹ نافذ ہونے تک القادر ٹرسٹ کو صرف 8 ماہ کے لیے ٹرسٹ کے طور پر رجسٹر کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے تحت القادر ٹرسٹ کی دوبارہ رجسٹریشن کی درخواست ایک اینٹی کرپشن کے ادارے کی جانب سے پیش کی گئی منفی رپورٹس کی وجہ سے روک دی گئی تھی۔

القادر ٹرسٹ کو لکھے گئے خط میں کن اعتراضات کا ذکر تھا؟

انڈسٹریز اینڈ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی مجاز اتھارٹی نے اس بارے میں 13 اکتوبر 2023 کو القادر ٹرسٹ کے چیف فنانشل آفیسر کو ایک خط لکھا جس میں مختلف اعتراضات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ خط میں بتایا گیا کہ میمورنڈم آف ایسوسی ایشن فراہم نہیں کیا گیا، ٹرسٹ کا پتہ رہائشی علاقے کا دیا گیا ہے اور منسلک سی این آئی سی کی نقول تصدیق شدہ نہیں ہیں۔

اہم شخصیت سے ملاقات سے پہلے اور بعد کا احوال

’ یوتھوپیا‘ میں رہنے والے لوگ

خط میں مزید کہا گیا کہ رجسٹریشن ایکٹ 1908 کے تحت منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی رجسٹریشن کا ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، معلومات کی تصحیح اور قانونی کارروائی سے متعلق حلف نامے فراہم نہیں کیے گئے، ملکیت یا کرائے کا ثبوت اور تصدیق شدہ یوٹیلیٹی بلز کی فوٹو کاپیاں غائب ہیں اور ہارڈ کاپی میں فراہم کردہ مالیاتی ڈیٹا آن لائن درخواست سے مطابقت نہیں رکھتا۔

مجاز اتھارٹی نے 21 نومبر 2023 کو القادر یونیورسٹی ٹرسٹ پروجیکٹ کو دوبارہ ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ پہلے خط میں مطلع کردہ خامیوں کو دور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے القادر ٹرسٹ کی درخواست میں تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔

القادر ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امجد الرحمان نے معاملے کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ 1882 کے ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اب بھی موجود ہے، زمین اور عمارتوں سمیت تمام اثاثے اس کے نام پر رجسٹرڈ ہیں، نئے ایکٹ کے تحت موجودہ رجسٹریشن کو اپ گریڈ کرنے کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دی ہے، اس معاملے پر القادر ٹرسٹ نے متعلقہ محکمہ کے خلاف عدالت میں درخواست دی جو زیرالتوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ تمام اثاثے قانونی طور پر القادر ٹرسٹ کے نام پر رکھے گئے ہیں لہٰذا اس ٹرسٹ کا وجود منسوخ نہیں کیا جاسکتا، البتہ نئے ایکٹ کے تحت اس کی رجسٹریشن ایک لازمی امر ہے۔

’ٹرسٹ کی درخواست میں کوئی کمی نہیں ہے‘

القادر ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امجدالرحمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بابر اعوان اور زلفی بخاری کو القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے نکالے جانے کے بعد فرحت شہزادی اور ڈاکٹر عارف نذیر بٹ کو نامزد کیا گیا تھا لیکن ٹرسٹی کے طور پر کبھی رجسٹر نہیں کیا گیا۔ تاہم پی ایس ای سی کی ضرورت کے طور پر ایک نیا ٹرسٹ رجسٹر کیا گیا (القادر یونیورسٹی ٹرسٹ انڈوومنٹ فنڈ برائے چیریٹی اور فنڈز کے مقاصد) جہاں فرحت شہزادی اور ڈاکٹر عارف نذیر بٹ کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ اس کا ٹرسٹی بنایا گیا، اب جبکہ فرحت شہزادی کو بھی یہاں سے ہٹا دیا گیا ہے تو اب صرف ماہرین تعلیم ہی اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا حصہ ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرسٹ ایکٹ 2020 کے تحت ہماری آئی سی ٹی لیبر انڈسٹریز کے پاس 2 درخواستیں ہیں، ایک ٹرسٹ رجسٹریشن کے لیے اور دوسری چیریٹی رجسٹریشن کے لیے، ٹرسٹ کی درخواست میں کوئی کمی نہیں ہے، تاہم محکمہ نے نئی درخواستیں جمع کرانے کا کہا ہے اور کچھ ترامیم بھی تجویز کی ہیں۔

امجدالرحمان نے کہا کہ ہم نے محکمے سے درخواست کی کہ وہ ہماری درخواست پر دوبارہ غور کریں کیونکہ درخواست دائر ہونے کے بعد پورٹل بند ہوجاتا ہے، ہمارے خیال میں اگر وہ ترامیم چاہتے ہیں تو ہم پورٹل کے ذریعے ضروری تبدیلیاں کرسکتے ہیں، ہم نے مجوزہ ترامیم کی ہارڈ کاپیاں محکمہ کو پہلے ہی جمع کرا دی ہیں، نئی درخواست دائر کرنے کے لیے پرانی درخواست کو حذف کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ ناممکن ہے کیونکہ اس حوالے سے ہمارا کیس اصل دائر کردہ درخواست پر مبنی ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے