گردش، سید عنایت اللہ جان

فلسفہ اور زندگی میں اس کی افادیت

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

"فلسفہ کیا ہے؟

لغت میں فلسفہ کے معانی ہیں

1- حب دانش۔

2- تجربہ، مشاہدہ اور فکر سے اصول اخذ کرنا۔

3- تلاش حقیقت۔

پانی کے عناصر ترکیبی (آکسیجن – ہائیڈروجن) معلوم کرنا سائنس ہے اور یہ دریافت کرنا کہ کیا اس ترکیب و تکوین کے پیچھے کوئی دماغ بھی مصروف عمل ہے؟ فلسفہ ہے۔ اقوام عالم کے اقبال و زوال پر بحث کرنا تاریخ ہے اور وہ قوانین اخذ کرنا جو عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں فلسفہ ہے۔ فلسفی کائناتی مسائل کی حقیقت تلاش کرتا، ہر ظاہر کا باطن ڈھونڈتا اور اقدار و معانی کا مطالعہ کرتا ہے۔ درست کہا تھا افلاطون نے کہ "فلسفہ تلاش حقیقت کا نام ہے”۔ ارسطو کے ہاں فلسفے کا مقصد اصول و علل پر بحث کرتا ہے۔ رواقیہ کے ہاں علم، نیکی، فضیلت اور ایسی دانش حاصل کرنے کا نام فلسفہ ہے جو زندگی کو خدائی مشیت سے ہم آہنگ بنا دیں”۔

(کتاب: فلسفیان اسلام مصنف: غلام جیلانی برق)

فلسفہ علم کی ایک ایسی شاخ ہے جو وجود، حقیقت، علم، اقدار اور اخلاقیات سے متعلق بنیادی سوالات سے بحث کرتی ہے۔ یہ تنقیدی سوچ، منطقی استدلال اور منظم طریقے سے اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے کی ایک وقیع کوشش ہے۔ فلسفہ زندگی کے معانی، حقیقت کی نوعیت، علم کی حدود، اخلاقیات کی بنیادوں، انسانی وجود کے رازوں اور کائنات کی وسعتوں کو تلاش کرتا ہے۔ یہ موضوعات کی ایک وسیع رینج کا احاطہ کرتا ہے مثلاً مابعدالطبیعات، علمیات، اخلاقیات، سیاسی فلسفہ، جمالیات، اور منطق وغیرہ۔

فلسفہ قدیم زمانے سے انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اس نے آج کی جدید دنیا، جس میں ہم رہتے ہیں اس کی تشکیل و تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے مطالعہ کے بہت سے شعبوں جیسے سائنس، ریاضی، ادب اور آرٹ کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ فلسفہ نے پوری تاریخ میں مختلف سماجی اور سیاسی تحریکوں کو بھی متاثر کیا ہے جیسے کہ حالیہ تاریخ میں نشاۃ ثانیہ، روشن خیالی اور وجودیت وغیرہ۔

فلسفے کے مطالعہ میں دلائل کا تجزیہ کرنا، نظریات کا تنقیدی جائزہ لینا نیز منطقی اور مربوط دلائل کی تشکیل شامل ہیں۔ فلسفے میں کھلے ذہن سے نقطہ نظر کا اظہار اور نوع بہ نوع مفروضوں اور تصورات پر سوالات اٹھانے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ فلسفی وجود سے متعلق بنیادی سوالات کو دریافت کرنے اور حتی الوسع انہیں سمجھنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ استنباطی استدلال، منطقی استدلال اور جدلیاتی استدلال۔

فلسفہ معاشرے پر نمایاں اثر رکھتا ہے۔ یہ لوگوں کے سوچنے کے انداز، ان کے فیصلے اور رجحانات مزید برآں ان کی اقدار کو بھی متاثر کرتا ہے۔ فلسفہ سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی مسائل سمیت سماجی مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے بھی ایک فریم ورک فراہم کر کے معاشرے کی مدد کر سکتا ہے۔ سیاسی فلسفے میں مثال کے طور پر سیاسی طاقت کی نوعیت، حکومت کی قانونی حیثیت نیز شہریوں کے بنیادی حقوق اور ذمہ داریوں کو دریافت کرنے میں مدد کرتا ہے۔ فلسفہ کی اس شاخ نے جمہوری اور لبرل سیاسی نظاموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے جیسا کہ امریکہ اور مغربی یورپ میں پائے جاتے ہیں۔

اخلاقیات فلسفے کی ایک اہم شاخ ہے جس کا معاشرے پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ یہ صحیح اور غلط، اچھے اور برے، مرغوب اور معیوب اور یہ کہ اخلاقی ذمہ داریوں کے بارے میں سوالات کی کھوج کر رہی ہے۔ اخلاقی معیارات معاشرے کے بہت سے شعبوں میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً قانون، طب، کاروبار اور سیاست وغیرہ میں۔ نجی اور سماجی زندگی، سزائے موت، اسقاط حمل یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق جیسے مسائل کے بارے میں بھی فلسفیانہ بحثوں نے سوچوں کو کافی متاثر کیا اور مختلف سماجی تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ ثقافتی اقدار اور اصولوں کی تشکیل میں بھی فلسفہ کا ایک اہم کردار ہے۔

جمالیات، فلسفے کی وہ شاخ ہے جو خوبصورتی اور مختلف فنون کی نوعیت کو تلاش کرتی رہتی ہے، اس نے باقاعدہ ثقافتی تحریکوں اور رجحانات کی ترقی میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے جیسا کہ رومانویت اور مابعد جدیدیت وغیرہ۔ فلسفہ افراد کو تنقیدی سوچ اور خود آگاہی کے لیے وسائل فراہم کرتا ہے۔ یہ افراد کو اپنی اقدار اور عقائد کو فروغ دینے اور اپنی زندگی کے بارے میں شعوری نقطہ نظر اپنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ فلسفیانہ نقطہ نظر ذاتی اور اجتماعی ترقی نیز زیادہ بامعنی شخصیت اور کردار کے لیے ایک طاقتور محرک کی حیثیت سے موجود ہے۔

فلسفہ اور سائنس دونوں مطالعے کے قریبی شعبے ہیں۔ ایک کا تعلق عقل سے ہے اور دوسرے کا تعلق مادے سے۔ یہ حقیقت ہے مادہ اور عقل کبھی بھی ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہے ہیں۔ فلسفے اور سائنس کا انسانی تاریخ میں ایک پیچیدہ اور مسلسل ارتقا پذیر تعلق رہا ہے۔ عام طور پر فلسفے نے سائنسی تحقیقات کے لیے ایک تصوراتی ڈھانچہ فراہم کر کے اور سائنسی تحقیق میں استعمال ہونے والے ثبوت اور استدلال کے معیارات کو قائم کرنے میں مقدور بھر مدد کر کے سائنس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سائنس میں فلسفے کی کلیدی کردار میں سے ایک سائنسی طریقہ کار کی ترویج کی ترقی بھی ہے۔ 16ویں اور 17ویں صدیوں میں فرانسس بیکن اور رینے ڈیکارٹس جیسے فلسفیوں نے سائنسی طریقہ کار کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جو کہ قدرتی دنیا کی تحقیقات کے لیے ایک منظم طریقہ ثابت ہوا ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں مفروضے وضع کرنا، مشاہدے اور تجربات کے ذریعے ان کی جانچ کرنا اور پھر نتائج کی بنیاد پر نظر ثانی کرنا یا رد کرنا شامل ہے۔ فلسفہ نے ان تصورات اور مفروضوں کو واضح کرنے میں بھی مدد کی ہے جو سائنسی تحقیقات کا حصہ ہیں مثال کے طور پر علمیات، فلسفے کی وہ شاخ ہے جو علم اور عقیدے کا مطالعہ کر رہی ہے، یہ ثبوت اور استدلال کے ان معیارات کو قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے جن کو سائنسدان اپنے مفروضوں اور نظریات کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں سائنس نے روایتی فلسفیانہ مفروضوں کو چیلنج کرتے ہوئے فلسفیانہ نظریات کے لیے نئے تجرباتی ثبوت فراہم کر کے فلسفے کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر نیورو سائنس اور نفسیات میں دریافتوں نے دماغ اور شعور کی نوعیت کے بارے میں نئی بصیرت پیدا کی ہے، جو دماغ اور جسم کے مسائل اور ذاتی شناخت کی نوعیت کے بارے میں فلسفیانہ بحثوں کے لیے اہم مضمرات رکھتی ہے۔ مجموعی طور پر فلسفہ اور سائنس کے درمیان تعلق پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے اور علم کے یہ دونوں وقیع شعبے اہم طریقوں سے ایک دوسرے کو متاثر اور مطلع کرتے رہتے ہیں۔

فلسفہ اور مذہب دونوں کا تعلق وجود، معنی اور حقیقت کے بارے میں بنیادی سوالات سے ہیں اور ان کی ایک لمبی اور جڑی ہوئی تاریخ ہے۔ دونوں حقیقت کی نوعیت، انسانی زندگی کے مقصد اور وجود کے حتمی معنی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام پیغمبروں نے کائنات اور زندگی سے متعلق بنیادی سوالات اٹھا کر اپنے مخاطبین کو متوجہ کیے ہیں نیز تمام الہامی کتابوں میں عقل کو جھنجھوڑنے والے موضوعات موجود ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے درمیان البتہ ایک اہم فرق یہ ہے کہ فلسفہ عام طور پر سوالات کو دریافت کرنے کے لیے استدلال اور تنقیدی سوچ پر انحصار کرتا ہے جبکہ مذہب کا انحصار ایمان اور الہام پر ہے۔ فلسفی اپنے دعووں کی تائید کے لیے منطق اور شواہد کا استعمال کرتے ہوئے سخت تجزیہ اور استدلال کے ذریعے ان سوالات تک پہنچتے ہیں جبکہ مذہبی صداقتوں پر ایمان رکھنے والے کچھ عقائد، کچھ اصول اور کچھ تعلیمات سے تشکیل پانے والے فکری اور عملی نظام کو قبول کرتے ہیں۔ قبولیت کے اس عمل میں ایمان، اعتماد اور الہام جیسے ذرائع انہیں میسر ہوتے ہیں۔ فلسفہ اور مذہب میں اختلافات کے باوجود اکثر و بیشتر اشتراک اور تعامل کا تعلق پایا جاتا ہے۔ مذہبی روایات کے تناظر میں بہت سے فلسفیانہ نظریات اور دلائل تیار کیے گئے ہیں نیز فلسفیوں نے اکثر اپنے کام میں مذہبی متنوں اور تعلیمات پر روشنی ڈالی ہے۔ فلسفہ اور مذہب کے درمیان اشتراک کا ایک شعبہ اخلاقیات بھی ہے۔ دونوں شعبوں کا تعلق صحیح اور غلط، اچھائی اور برائی اور اخلاقی اقدار کی نوعیت جیسے بنیادی سوالات سے ہے۔ اخلاقیات کے بہت سے فلسفیانہ نظریات، جیسے افادیت پسندی وغیرہ مذہب اور فلسفے میں گہرے تعلق کی عکاسی کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے مذہبی عقائد اور تعلیمات نے بہت سے معاشروں میں اخلاقی اصولوں اور اقدار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسفہ اور مذہب کے درمیان تعلق پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے، دونوں شعبے مختلف طریقوں سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اگرچہ مذہب اور فلسفے کے مختلف نقطہ نظر اور مفروضے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں وجود اور معنی کے بنیادی سوالات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دونوں دنیا اور خود کو سمجھنے کے عمل میں گویا اہم شراکت دار ہیں۔

جدید دنیا میں فلسفہ کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ آج معاشرے کو درپیش پیچیدہ مسائل اور چیلنجوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے اور ہمیں تنقیدی سوچ اور اخلاقی فیصلہ سازی کے وسائل فراہم کر رہا ہے۔ ان اہم شعبوں میں سے ایک جہاں فلسفے کا جدید دنیا پر اثر پڑا ہے وہ انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی تحریکوں کی ترقی ہے۔ فلسفیوں نے ان اصولوں اور اقدار کو واضح کرنے میں مدد کی ہے جو ان تحریکوں میں کار فرما ہیں اور انصاف و مساوات کے نظریات تیار کیے ہیں جو کہ اجتماعی معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں مثال کے طور پر، جان رالز کا سیاسی فلسفہ سماجی انصاف اور معاشی حقوق اور وسائل کی تقسیم کے بارے میں ہونے والی بحثوں پر اثرانداز رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں فلسفہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے ہمیں سائنسی تحقیق اور تکنیکی ترقی کے اخلاقی اور سماجی مضمرات کو سمجھنے اور ان کے استعمال کے بارے میں مناسب فیصلوں تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے مثال کے طور پر فلسفیوں نے جینیاتی انجینئرنگ، مصنوعی ذہانت اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کے اخلاقی جہتوں کو تلاش کیا ہیں اور ان شعبوں میں عوامی مباحثوں اور پالیسیوں کو تشکیل دینے میں مدد کی ہے۔ فلسفہ ہمیں تنقیدی سوچ اور خود آگاہی کے لیے بھی آلات فراہم کرتا رہتا ہے، جو تیزی سے بدلتی ہوئی ایک پیچیدہ دنیا میں ضروری ہیں۔

فلسفہ ہمیں اہم سوالات پوچھنے، نوع بہ نوع مفروضوں کو چیلنج کرنے اور دوسروں کے ساتھ سوچ سمجھ کر بات چیت کرنے میں مدد کرتا ہے۔ فلسفیانہ علم ذاتی ترقی، دوسروں کے فلاح و بہبود اور اپنے آس پاس کی دنیا کے بارے میں گہری تفہیم کا باعث بن سکتا ہے۔ مجموعی طور پر فلسفہ جدید دنیا میں اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کو فروغ دینے اور اجتماعی معاملات میں نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے ایک اہم محرک کی حیثیت رکھتا ہے جو ہمیں اپنے وقت کے پیچیدہ مسائل اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل، حوصلہ اور بصیرت فراہم کر رہا ہے۔

فلسفہ انسانی تعلقات کو جانچنے اور انسانوں کے درمیان تعامل کی مختلف نوعیتیں تلاش کرنے کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ یہ تعلقات میں موجود پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ہماری بات چیت میں پیدا ہونے والے چیلنجوں اور تنازعات کو حل کرنے میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ ان کلیدی شعبوں میں سے ایک جہاں فلسفے نے انسانی تعلقات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں تعاون کیا ہے وہ ہے اخلاقیات اور اخلاقی نظریات کی ترقی۔ فلسفیوں نے صحیح اور غلط، اچھائی اور برائی نیز اخلاقی اقدار کی نوعیت کے سوالات کی کھوج لگائی ہے جو ہمیں اخلاقی اعتبار سے مناسب رویے اپنانے اور دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں اخلاقی عیوب کو دور کرنے کا ساز و سامان فراہم کرتے ہیں۔ سماجی اور سیاسی نظم و ضبط سے متعلق نظریات کی نشوونما میں بھی فلسفہ اہم رہا ہے جس نے انسانی معاشرے کی نوعیت اور ان طریقوں کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کی تشکیل میں مدد کی ہے جن سے ہم منصفانہ اور شفاف نظام حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ ارسطو، افلاطون اور تھامس ہوبز جیسے فلسفیوں نے طاقت، اختیار اور ان کے حقیقی جواز کی نوعیت کو دریافت کیا ہے جس سے ہمیں سماجی اور سیاسی تعلقات کی حرکیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک اور اہم شعبہ جہاں فلسفے نے انسانی تعلقات کے بارے میں ہمارے جذباتی مظاہر کی نوک پلک درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ محبت، دوستی اور دوسرے انسانوں سے باہمی تعلقات کی نوعیت کی کھوج ہے۔ فلسفیوں نے ان رشتوں کی نوعیت کا جائزہ لیا ہے اور ایسے سوالات کی کھوج کی ہے جیسے کہ واقعی محبت کرنے یا اچھے دوست ہونے کا کیا مطلب ہے انہوں نے اس کردار کی بھی کھوج لگائی ہے جو کہ اس طرح کے تعلقات ہماری زندگی میں ادا کرتے ہیں اور یہ کہ یہ ہمارے مجموعی فلاح و بہبود اور خوشی و مسرت میں کس طرح حصہ دار بنتے ہیں۔

فلسفہ نے باہمی افہام و تفہیم کے عمل میں مناسب ذرائع اپنانے میں بھی ہماری مدد کی ہے جن میں ہم دوسروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ فلسفیوں نے زبان، معنی اور تشریح کے سوالات کی کھوج لگائی ہے ہمیں یہ سمجھنے کے لیے وسائل فراہم کیے ہیں کہ معاشرے میں تعلقات کار کا نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ اور اسے افراد اور گروہوں کے درمیان بہتر افہام و تفہیم اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر فلسفے نے انسانی تعلقات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں اہم کردار ادا کیا ہے جو کہ ہمیں اخلاقی، سماجی اور باہمی تعاملات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک معقول ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ یہ ان سوالات کو تلاش کرنے اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں پیدا ہونے والے چیلنجوں اور تنازعات پر قابو پانے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ایک اہم وسیلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مغربی فلسفیوں میں سورن کیرکیگارڈ میرا پسندیدہ شخص ہیں۔ یہ ڈنمارک سے تعلق رکھنے والا اہم مذہبی وجودی فلسفی اور ماہر الہیات تھا۔ یہ 1813 میں پیدا ہوئے تھے اور 1855 کو صرف 42 سال کی عمر پا کر وفات پائیں۔ آپ ایک حد درجہ مشفق، حساس اور راسخ العقیدہ "صاحب ایمان” فلسفی تھے۔ ایک دفع آپ کے والد نے گھریلو نوکرانی سے بدسلوکی کا ارتکاب کیا تھا جس پر انہوں نے زندگی بھر اذیت محسوس کی کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے علاؤہ بعض خاندانی صدموں کا سبب بھی وہ اپنے والد کے اس طرزِ عمل کو سمجھ رہے تھے۔ اسے عموماً (مذہبی) وجودیت کا بانی سمجھا جاتا ہے، یہ گویا ایک فلسفیانہ تحریک ہے جو انفرادی آزادی، اجتماعی ذمہ داری اور کائنات کی مذہبی وجودی تصورات پر زور دیتی ہے اور انسانی حالت کے موضوعی تجربے سے بحث کرتی ہے۔ کیرکیگارڈ زندگی میں نیکی اور بدی کے تصورات کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ موصوف کا کہنا تھا کہ انسان زندگی کے سفر میں تین بڑے مراحل سے گزرتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

پہلا مرحلہ: انسان کی جمالیاتی زندگی
دوسرا مرحلہ: انسان کی اخلاقیاتی زندگی
تیسرا مرحلہ: انسان کی مذہبیاتی زندگی

کیرکیگارڈ کا فلسفیانہ کام عقیدے اور عقل کے درمیان تعلق پر مرکوز رہا اور وہ خاص طور پر مذہبی عقیدے کی نوعیت میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس نے استدلال کیا کہ عقیدہ انفرادی انتخاب اور موضوعی تجربے کا معاملہ ہے۔ کیرکیگارڈ کے کلیدی تصورات میں سے ایک "عقیدہ کی چھلانگ” بھی تھا، جسے انہوں نے تجرباتی ثبوت یا عقلی جواز کی عدم موجودگی کے باوجود مذہبی عقیدے کو قبول کرنے کے فیصلے کے طور پر بیان کیا ہیں۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ لوگوں کے لیے حقیقی مذہبی تجربہ حاصل کرنے اور اپنے عقیدے کے ساتھ مکمل طور پر منسلک ہونے کے لیے ایمان کی یہ چھلانگ ضروری ہے۔ کیرکیگارڈ کو ذاتی شناخت کی نوعیت اور خود آگاہی کی جدوجہد میں بھی دلچسپی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ افراد کو اپنے وجود کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی اور ایسے انتخاب کرنا ہوں گے جو اس بات کی وضاحت کریں گے کہ وہ ایک فرد کے طور پر کون ہیں؟۔ انہوں نے استدلال کیا کہ خود کی دریافت کا یہ عمل اکثر اضطراب اور مایوسی کے ساتھ شروع ہوتا ہے، لیکن یہ کہ اس کے ذریعے آخر کار افراد کے لیے مستند اور بامعنی زندگی گزارنا یقینی ہوتا ہے۔ کیرکیگارڈ کے کام کا فلسفہ اور الہیات پر خاصا اثر رہا ہے، خاص طور پر وجودیت اور عیسائی فکر کے شعبوں میں۔ انفرادی انتخاب اور موضوعی تجربے پر ان کا زور ذاتی شناخت، عقیدے اور روحانیت کی نوعیت کے بارے میں جدید نظریات کی تشکیل میں خاص طور پر اہم رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے