پاکستان اور بنگلہ دیش کے آرمی چیفس اور چیف ایگزیکٹوز کی ملاقاتوں کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ہمیں یہاں تک پہنچنے کے لیے پچاس سال لگ گئے ہیں۔
قوموں کی تاریخ میں بعض واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔
برطانیہ کے زیر تسلط برصغیر میں دو ریاستی تصور کے پروان چڑھنے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے نام سے دو ملک آزاد ہوئے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا۔ انسانی تاریخ نے کئی ملک بنتے، پھیلتے اور ٹوٹتے، سکڑتے دیکھے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم بھی اسی جبری یا فطری ارتقاء کا تسلسل کہا جاسکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ سمیت کئی قوتیں وسائل سے مالا مال برصغیر کو ایک ریاست کے طور پر قائم نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ برطانوی استعمار کو جب یقین ہوگیا کہ اس کے لیے خطے پر مزید قابض رہنا ممکن نہیں رہا تو اس نے اپنے مہروں کے ذریعے خطے کی دو بڑی قوموں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے پروگرام پر عمل شروع کردیا۔
خطے کے ہندو ، مسلمان اور سکھ صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ مسلم حکمرانوں کے ادوار میں مذاہب کی بنیاد پر تصادم کہیں نظر نہیں آتا۔ برطانیہ سے آزادی کے لیے تینوں مذاہب کے ماننے والے مل کر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
برصغیر کے مسلمان دیگر قوموں کی نسبت زیادہ معتوب تو تھے ہی ان کی مذہبی قیادت کے نقطہ نظر نے بھی انہیں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے پسماندگی کا شکار کیا اسی خوف نے انہیں دو ریاستی تصور کی طرف جانے پر مجبور کیا۔
انگریز سرکار نے اپنی حکمت عملی کے تحت برصغیر کے دل پنجاب کو غیر منصفانہ طور پر تقسیم کردیا۔ مسلم لیڈر اس کے مضمرات کا اندازہ نہ کرسکے جبکہ سکھ لیڈر شپ شاطر قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل گئی۔ اس غفلت کا خمیازہ تقسیم کے وقت اہل پنجاب کو بدترین فسادات اور قتل و غارت کی صورت بھگتنا پڑا۔ قضیہ کشمیر دونوں ہمسائیوں میں آگ بڑھکائے رکھنے کا شاخسانہ چلا آ رہا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی میں سے کوئی بھی دو قومی دشمنی کے تصور کا قائل نہیں تھا۔ دونوں لیڈر ہمسائیہ ریاستوں میں برادرانہ تعلقات کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کو پہلے مرحلے میں ہی راستے سے ہٹا دیا گیا۔
بانی پاکستان کی ناگہانی وفات کے بعد ملک کا اختیار رفتہ رفتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلاموں کے ہاتھ میں آتا گیا۔ انہی غلاموں بالخصوص جنرل ایوب خان نے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی بنیاد رکھی جسے ان کے جانشینوں جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو نے انجام تک پہنچا دیا۔ محب وطن شیخ مجیب الرحمٰن جنرل یحییٰ اور بھٹو کے رویوں اور مشرقی پاکستان میں محرومیوں کے ردعمل میں انڈیا کے ہاتھوں استعمال ہوگئے جس کے نتیجے میں پاکستان یکجا نہ رہ سکا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا اگلا ٹارگٹ بھی پورا ہوگیا۔
انڈین تعاون سے علیحدگی اختیار کرنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کا بلنڈر یہ ہے کہ انہوں نے نئے ملک کا نام مشرقی پاکستان رکھنے کی بجائے اسے بنگلہ دیش کی شناخت دے ڈالی جس کی وجہ سے ایک ہی وجود سے دو حصوں میں تقسیم ہونے والوں میں دوریاں مزید بڑھ گئیں۔ اقتدار کے حریص بھٹو نے اپنی تقریروں میں بنگالی بھائیوں کے متعلق انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرکے دوریوں کو بڑھاوا دیا۔
علیحدگی کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن دانستہ یا نادانستہ بنگلہ قوم کو یکجہتی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے حالانکہ یہ کام انہیں پہلے درجے میں کرنا چاہیے تھا۔ بنگلہ دیش پرو انڈین شیخ مجیب الرحمٰن کی ذاتی جاگیر بن کر رہ گیا۔
گزشتہ پچاس سال سے بنگلہ دیش میں پرو انڈین اور پرو پاکستان ایلیمینٹس کے درمیان کشمکش چلی آ رہی ہے۔ اس کشمکش نے بنگالی امن، ترقی اور خوشحالی کو بری طرح پامال کیا۔ شیخ مجیب اپنی ہی فوج کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ ان کی واحد زندہ بچ جانے والی اولاد شیخ حسینہ واجد نے اقتدار تک رسائی کے بعد، علیحدگی کی مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کے قریبی درجن بھر لیڈروں کو ناحق تختہ دار پر لٹکا دیا۔ ہزاروں ورکرز کو جیلوں میں بند کردیا۔ پھانسیوں اور قید و بند کے خلاف ابھرنے والی نفرت نے ترقی کی طرف سفر کرتے بنگلہ دیش کی بھی پرواہ نہیں کی۔ نتیجتاً حسینہ واجد کو ملک سے فرار ہو کر اپنے روحانی باپ انڈیا کی گود میں پناہ لینا پڑی۔
آج مشرقی اور مغربی پاکستان کی قیادت گلے مل رہی ہے۔ ہمارے نزدیک بنگلہ دیش میں تبدیلی اور دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی قربتوں کے پشت پر ہمارے مارخور کی دہائیوں پر محیط حکمت عملی موجود ہے۔ کوئی اس تبدیلی اور قربتوں کو حادثہ تصور کرتا ہے تو یہ اس کا خبث باطن ہے۔ مارخور نے اپنی تدبیر سے پاکستان میں مداخلت کرنے والے مجرم انڈیا اور اس کے ہاتھوں میں کھیلنے والے مجیب الرحمٰن کی باقیات سے ایک ساتھ بدلہ لے لیا ہے۔
وقت بدل رہا ہے۔ بنگالی بھائیوں کی طرح سکھ بھائیوں کو بھی حقیقت کی سمجھ آرہی ہے۔
بنگلہ دیش اگرچہ الگ وجود رکھتا ہے اور ہم اسے دل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک وہ آج بھی مشرقی پاکستان ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مشرقی و مغربی پاکستان کی بقا، ترقی اور خوشحالی کا راز باہمی اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اس کار خیر کو قائم رکھنے کے لیے مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان میں چھپے ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفاداروں کی گرفت بھی انتہائی ضروری ہے۔
( جناب خلیل احمد تھند پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین ہیں۔)
تبصرہ کریں