گل-لالہ

ہے عشق کی نظروں میں بے شک وہی فرزانہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دسمبر میں لاہور جانے سے پہلے میں نے فرزانہ چیمہ کو اطلاع دی  تو ان کا جوابی میسج آیا

‘ جی آیاں نوں ’

ساتھ پھولوں  کا گلدستہ بھی ان کی خوشی کا مظہر تھا۔

کس کو معلوم تھا کہ یہ استقبالیہ جملہ  آخری پیغام ثابت ہوگا۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

جب میں ملتان سے لاہور روانہ ہوئی توموبائل گھر بھول آئی تھی۔ حلقہ احباب سے رابطے منقطع ہو گئے۔ حسب پروگرام بدھ کو منصورہ میں خالہ میمونہ کے گھر پہنچی تو ان سے علم ہوا کہ فرزانہ چیمہ تو آئی سی یو میں ہے۔ اس غیر متوقع خبر سے دل کو دھچکا لگا۔ اور پیاری سہیلی کے لیے دینی رشتے کی بدولت مجھے سراپا دعا بننا ہی تھا۔

دو دن بعد موبائل ہاتھ آیا تو معلوم ہوا کہ گروپس کا ہر ممبر سراپا دعا ہے۔

فرزانہ چیمہ کے ساتھ میری  پہلی ملاقات 77ء میں پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ہوئی تھی۔ اور یہ مختصر سی ملاقات طالب علمی کے دور کی تھی۔ اس کے بعد ان کی تحریریں ہی یک طرفہ رابطے کا ذریعہ بنی رہیں کیونکہ شادی کے بعد بیرون ملک جا کر میری  زندگی کا نیا مرحلہ نئے تقاضے رکھتا تھا۔

  غالباً چودہ سال بعد ہم سعودی عرب سے مستقل واپسی پہ لاہور میں مقیم ہوئے تو منصورہ آڈیٹوریم میں اسلامی جمیعت طالبات کے زیر اہتمام مشاعرے میں( جس کی مہمان خصوصی بشریٰ رحمان تھیں ) فرزانہ چیمہ  سے ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں ہم نشیں تھیں اور  ان کی چلبلی طبیعت کے مطابق  شعر پڑھنے والی کے شعروں اور وہاں کے ماحول پہ  ان کے تبصرے ہم نشینی  کے لطف کو دوبالا کر رہے تھے۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور اس بھیگی بھیگی شام کے رومانس کو جب ملتیں، اکثر  دہراتی تھیں۔ اور مجھے گلاب کا پھول کہہ کر بہت کچھ یاد دلاتی تھیں۔

 قیام لاہور کے دوران بیت احسن حریم ادب کے پروگرام میں ہمارا ایک ساتھ جانا ہوتا اور اس طرح ہماری دوستی پختہ تر ہوتی گئی۔

دوستی کا پختہ ہوتے چلے جانا یقیناً فرزانہ کی پرخلوص و بے لوث محبت، وفا اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہونا تھا۔ دوسروں کی خوبیوں کے اس درجہ  قدر دان بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے جس سے تعلق بنایا اصول کے مطابق  خوب نبھایا۔

 لاہور سے ملتان منتقل ہونے کے بعد خط کتابت رہی۔ حریم ادب پاکستان کی ذمہ داری کے دوران جب مجلہ ’حریم‘ تیار کرنا تھا تو ان سے تحریر لینے کے لیے یاد دہانی کا جب بھی رابطہ کیا تو خوش دلی سے کہتیں کہ :

’بشری جی ! دوسروں سے  کام کروانا تو کوئی آپ سے سیکھے‘

ملتان سے شارجہ منتقل ہونے پہ فون پہ رابطہ رہا اور لاہور میں مجھے جو بھی کام ہوتا بہت خوش اسلوبی اور محبت سے انجام دیا  کرتی تھیں۔ مفید مشورے سے بھی نوازتیں۔

جب کبھی شارجہ سے لاہور آنا ہوتا تو ہم دونوں  پورے منصورہ میں میل ملاقات کے لیے ایک ساتھ جاتے۔ وہ ساری ملاقاتیں فرزانہ چیمہ  کی خوش مزاجی اور بذلہ سنجی سے یاد گار ہو جاتیں جن کا لطف آج  تک قائم ہے اور رہے گا۔

پھر واٹس اپ عام ہوا تو رابطے آسان ہو گئے۔ ہمارے بین الاقوامی گروپ ’مومنات ‘ میں شامل ہوئیں تو ان کی طرف سے بروقت درست راہنمائی نے ان کو گروپ کی ہردلعزیز شخصیت بنا دیا ۔ شارجہ سے پاکستان منتقل ہونے پہ میں لاہورجاتی تو کئی بار ان کے ہاں رات بھی قیام کیا۔

سادگی کے ساتھ محبت کا بے ساختہ اظہار ان کا خاصہ تھا۔ میزبانی کماحقہ کرتیں۔ اظہار تشکر پہ کہہ دیتیں

’بس ماڑا چنگا جو ہو سکا وہ کر دیا‘

گھر والوں سے متعارف کرواتیں۔ بچوں کو محبت سے مہمان کے پاس بٹھا کر مہمان سے دعا کے لیے کہتیں۔ بچوں کو تہذیب و شائستگی سکھانے میں بہت توجہ رکھتیں۔ بہو کی بہت تعریف کرتیں اور  اپنی سہیلیوں کا محبت سے تعارف کرواتیں۔ ضرورت مند کی حاجت بر وقت احسن طریقے سے پوری کرتیں۔ خدا خوفی اور رضائے الہٰی کو ترجیحاً مدنظر رکھتے ہوئے ہر کام کرتی تھیں۔

تصنع اور بناوٹ سے پاک ایسی پر خلوص محبت اور تعلق للہ اور فی الله  آج کے دور میں واقعی عنقا ہے۔

ہمارے درمیان بات چیت اتنی اپنی ہوتی کہ ہم صرف اپنی باتیں کرتے یا حالات حاضرہ پہ یا کتابوں رسالوں پہ گفتگو ہوتی کسی کی برائی یا گلے شکوے کا موقع نہ آتا۔  وہ میرے ہر کالم کو دل کھول کر ایسا سراہتیں کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی۔ میرے احتجاج پہ کہتیں :

’او، بادشاہو! ایڈی وی کسر نفسی چنگی نئیں ہوندی‘

اور خود اپنے متعلق کسرنفسی میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔ بہترین لکھاری، اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری اعلیٰ عہدے سے عزت کے ساتھ ریٹائرمنٹ لینے والی کئی بار صدارتی ایوارڈ  حاصل کرنے کا اعزاز رکھنے کے باوجود بہت منکسر المزاج تھیں۔

میرے افسانوں کے مجموعے کو شائع کروانے کے لیے ہر ممکن حوصلہ افزائی اور تعاون کیا اور محبت سے سرشار بہترین پیغام کتاب کے لیے لکھا۔ جس میں سے کئی باتیں میں نے بصد اصرار کم کروائیں یہ کہہ کر کہ :

’اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت‘  اس پیغام  کا عنوان بھی انہوں نے ’گلاب کا پھول‘رکھا ۔

وہ ایسی باعمل مسلمان خاتون تھیں کہ جو ایک بار ملے ان کا گرویدہ ہو جائے۔ میری طرح بے شمار لوگ ان کے مداح ہیں۔ اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے حسن صورت و سیرت والوں کی جگہ یقیناً دلوں میں ہی ہوتی ہے۔

کبھی کبھار کسی بات پہ کہہ دیتی تھیں

’اساں تے جٹ آں تے جٹ انج دے ای دیوانے ہوندے نیں‘

میں کہتی:

ہے عشق کی نظروں میں بے شک وہی فرزانہ

دنیائے محبت میں کہلائے جو دیوانہ

تو خوب لطف اندوز ہوتیں۔

ہر ملاقات ایک یادگار ملاقات رہی اور اس کی تفصیل میں جانے کی  اتنی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ قلبی جذبات ایک دوسرے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ وہ مخفی خزانے کی طرح رہیں تو اچھا لگتا ہے۔

میں اس انتظار میں تین دن لاہور رکی رہی کہ فرزانہ ہنستی مسکراتی گھر لوٹ آئے تو ملاقات کرکے جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بندی کو اس دار الفنا سے دار البقا منتقل کر دیا۔

 جانے والے کو ہماری طرف سے مغفرت کی دعائیں بہترین تحفہ ہے اور جانے والی کی خوبیوں کو صدقہ جاریہ بنانے کی ضرورت ہے اور حسن عمل کی گواہیوں کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری پیاری بہن کی بہترین میزبانی فرمائے اور ہرلمحہ درجات بلند فرمائے ان کی ہر تحریر، بندوں کے ساتھ حسن عمل کو قبول فرمائے۔  بحیثیت انسان، ہو جانے والی خطاؤں سے درگزر فرمائے، ہماری گواہیاں قبول فرمائے۔ ان کی نسلوں کو ویسا ہی مومن بنائے جیسا ان کی آرزو تھی۔آمین ثم امین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے