جاڑے کی اداسی بھی عجیب احساس رکھتی ہے۔ سرد فضا صرف جسم کو ہی سرد کرتی ہے۔ دل تو ابل ابل کر باہر آنے کر تیار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔کہیں کونے میں دبے چھپے وہ سارے درد، دکھ زخم رسنا شروع ہوجاتے ہیں جنھیں کبھی مرہم پٹی کر کے ٹھیک کرنے کا وہم کیا ہو ۔۔۔۔
پھیکی سی ہنسی لبوں پر دوڑ گئی جس کے ساتھ کئی قطرے آنسوں کے بہہ نکلے ۔۔۔۔
سامنے حد نگاہ سر سبز و شاداب درخت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ان کے جھنڈ کی وجہ سے کل تک درختوں کے دوسری طرف کا منظر نگاہوں سے اوجھل تھا ۔ ۔۔۔ کسی نے سامنے والے درخت کی بہت سی شاخیں اس حد تک کاٹ دیں کہ آگے کا چھپا ہوا منظر واضح ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ دیکھا کہ وہاں ایک خوب صورت پگڈنڈی ہے، درختوں کے درمیان صاف ستھرا سا رستہ جو آگے سے گھومتا ہوا کسی کھلی صاف سڑک کو نکل رہا ہے ۔۔۔۔۔
سوچا کہ رستے تو کئی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی نا انھیں ڈھونڈنے کی ہمت تک نہیں ہوتی ۔۔۔۔تھکن سے ہمت ٹوٹ گئی ہوتی ہے ۔۔۔۔
بہت سے پرانے چہرے، خیالات تھے جو ابھر ابھر کے آرہے تھے ۔۔۔۔۔ ان میں یادیں بھی تھیں اور باتیں بھی ۔۔۔جدائی بھی تھی اور ملن بھی ۔۔۔یہ سب کبھی رلا رہا تھا اور کبھی مسکان بکھیر رہا تھا۔۔۔۔
کچھ باتوں کو برسوں گزر چکے ہیں، اور کچھ یادیں وقت کے زخموں پر اپنی مہر لگا کر جا چکی ہیں۔ اور سب کو معاف کر دیا ہے۔ دل پر جمی ہر تلخی کی تہہ اتار دی ہے، مگر آج بھی کچھ چیزیں سامنے آجائیں تو دل کی گہرائیوں میں چھپا ایک بھولا ہوا درد جاگ اُٹھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔وہی درد اور تکلیفیں جو کئی برسوں کی محنت کر کے مرہم لگا لگا کر ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔اففف
ہاں ان سب سے کہنے کا دل کرتا ہے کہ ہم نے لبوں پر ہنسی کیا سجا لی تم نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارا دل دکھ درد کے احساس سے ہی خالی ہوگیا ہے اور آنکھیں اس نمی سے ہی انجان ہوگئی ہیں جو کہ اشک بن کر دل کے درد کا اظہار کرتی ہیں ۔۔۔۔
لیکن دوسرے ہی لمحے خیال آیا کہ
اچھا پھر سے تم ایسا سوچنے لگی ہو ؟
جیب گھرایٹ سی طاری ہوگئی ۔۔۔۔
۔وہی پرانی ٹیسیں کہیں سے اٹھ رہی ہیں، زخم کہیں سے رسنے لگا ہے ۔۔۔۔ پرانے ٹانکے ادھڑ سے جارہے ہیں، وہی تکلیف اور آنسو بہنے لگے ہیں۔ایسا کیوں ؟
۔۔۔”کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب تک پرانی تلخ یادیں پکڑے رکھی ہیں ۔۔۔۔۔؟ کیا ابھی بھی اُس تکلیف و اذیت کی قید میں ہوں؟
یہ احساس جب جب مدھم پڑتا ہے پھر وہی چہرے سامنے آجاتے ہیں یا ان کی کوئی بات ہوجاتی ہے۔پھر کئی کئی دن اسی اذیت سے کیوں دو چار ہوجاتے ہیں ۔؟ ۔۔
ذہن کے سوال پر دل کی خاموشی میں تلاطم سا ہوا ۔۔۔۔۔
ہوا کے نرم جھونکے نے چہرے کو چھوتے ہوئے ان آنسو کو نیچے لڑھکا کر زمین میں جذب کردیا جو آنکھوں سے رواں تھے ۔۔۔۔۔
یہ زخموں کو سینا کوئی سیدھی راہ نہیں، یہ ایک بھٹکتا ہوا سفر ہے۔ ٹیڑھا میڑھا سا ۔۔۔۔۔ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔ ابھی کئی کئی بار کچے پکے زخم ادھیڑ جائیں گے ۔۔۔۔اس لیے ان سے گھبرانا نہیں ہے ۔۔۔۔
۔اچھا ۔۔۔۔جیسے اس تسلی سے آرام آگیا ہو
کچھ اور گرم گرم آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے
سامنے کا رستہ دھندلا گیا پگڈنڈی کی خوب صورتی کسی دھندلے عدسے سے دیکھے گئے منظر کے جیسی ہوگی ۔۔۔۔۔۔
کیا معاف کرنا کیا واقعی کسی خاص فرد کے لیے ہوتا ہے یا یہ اپنے اندر کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ہوتا ہے؟ پھر ایک سوال ابھرا
معاف کرنا کوئی جادوئی الفاظ نہیں ہوتے جن کے ادا کرتے ہی سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہ تو بس ایک مضبوط فیصلہ ہوتا ہے کہ ہم سوچ لیتے ہیں کہ ماضی کے بوجھ سے دل کو آزاد کیا جائے۔
اور یہ سفر بارش کے قطروں جیسا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ، نرمی سے۔ ہر قطرہ، ہر لمحہ، دل کے زخموں پر گر کر ہمیں سکون دیتا ہے۔
اس کی خوبصورتی یہی ہے کہ تکلیف کو تسلیم کریں، اسے خود سے چھپاتے نہیں۔ جب جب کوئی تلخی، بری یادیں کوئی واقعہ سامنے آئے گا، دل میں پرانی لہریں ضرور پیدا ہوں گی
، لیکن اب علم ہے کہ حال قابو میں ہے اس کو ماضی کے درد تلخ نہیں ہونے دیں گے۔
"میں بہتر ہو رہی ہوں،” ہر اس فکر کی قید سے آزاد کہ جس کے بوجھ تلے دب کر میرا دم گھٹنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ہوا کی تازگی کو محسوس کرنے کے لیے ایک گہری سانس جس کی تازگی روح تک اتر گئی، لینے کے ساتھ ہی یہ سبق بھی یاد آیا کہ ماضی کی یادیں ہمارے بہتر ہونے کی طاقت کو چھین نہیں سکتیں۔
مضبوط ہونا ہیلنگ کا مطلب کبھی نہ ختم ہونے والا سکون نہیں، بلکہ ایک ہنر ہے جو درد کے ساتھ جینا سیکھ لینا کیوں کہ اسی حالات نے ہمیں مضبوط بنایا ہوتا ہے۔
ہر دکھی دل کے نام ۔۔۔۔۔میری طرف سے ایک دلاسہ سمجھ لیں۔
سلامت رہیں
تبصرہ کریں