امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہائی قریبی ساتھی رچرڈ گرینیل سے لے کر میٹ گیٹز تک اپنے تبصروں اور سوشل میڈیا پوسٹس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں جس سے بیرون ملک پی ٹی آئی کی مہم کی عکاسی بھی ہوتی ہے لیکن تجزیہ کاروں کو یقین نہیں ہے کہ یہ حکمت عملی کام کرے گی۔
عرب ٹیلی ویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق جب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینیل نے گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد میں احتجاج کے دوران جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تو یہ ان کی یہ پوسٹ فوری وائرل ہو گئی۔
اسی روز ڈیلیٹ کی گئی ایک اور ایکس پوسٹ میں رچرڈ گرینیل نے لکھا کہ ’پاکستان کو دیکھو! جہاں ان کے ٹرمپ جیسے رہنما جھوٹے الزامات پر جیل میں ہیں اور یہاں کے لوگ امریکی ’ریڈ ویوو‘ سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنی ایکس پوسٹ میں مطالبہ کیا کہ ’دنیا بھر میں سیاسی مقدمات بند کرو‘! ٹرمپ کی جانب سے انہیں خصوصی مشنز کے لیے صدارتی ایلچی نامزد کیے جانے کے ایک روز بعد 16 دسمبر کو دونوں ٹویٹس کو لاکھوں بار پڑھا گیا جن میں رچرڈ گرینیل نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا۔ دوسری بار کی پوسٹ کو ایک کروڑ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔
رچرڈ گرینیل کے اس پیغام کو اس وقت مزید تقویت ملی جب ایک اور ریپبلکن اور اٹارنی جنرل کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق امیدوار میٹ گیٹز نے بھی لکھا کہ ’عمران خان کو رہا کرو‘۔
ایکس پر پوسٹس کو عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے لیے ایک اہم پہلو کے طور پر دیکھا گیا تھا، جو اگست 2023 سے اپنے رہنما کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
عرب ٹی وی کے مطابق بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اتحادیوں کی جانب سے عمران خان کی رہائی میں اس قدر دلچسپی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ ان سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے پاکستان پر سابق وزیراعظم کی رہائی کے لیے سخت اور بامعنی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کچھ لوگ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات اور مقدمات کو ان کے خلاف ستم ظریفی سے تعبیر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی بیرون ملک سے مدد حاصل کرنے کے لیے امریکا میں لابی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم 3 سال تک حکومت کرنے والی پی ٹی آئی واشنگٹن پر عمران خان کو ہٹانے میں کردار کا الزام بھی لگا رہی ہے۔
پیچیدہ تعلقات
ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی حکومت کو تقریباً 4 سال اقتدار میں رہنے کے بعد اپریل 2022 میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وہ اس کا الزام پاکستان کی طاقتور فوج کے ساتھ مل کر امریکا کی زیر قیادت سازش کو قرار دے رہے ہیں، اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے حامیوں کو ملک بھر میں احتجاج کے لیے اکٹھا کیا گیا جبکہ امریکا اور پاکستانی فوج دونوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سے ہی عمران خان اور ان کی پارٹی کو ملک میں کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عمران خان اگست 2023 سے درجنوں الزامات اور سزاؤں کے تحت جیل میں ہیں جبکہ ان کی جماعت کے انتخابی نشان کرکٹ بیٹ کو واپس لے لیا گیا جس کے باعث پی ٹی آئی 8 فروری کے قومی انتخابات میں بطور پارٹی شرکت نہیں کر سکی، انتخابی نشان چھین لیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
عمران خان کی برطرفی کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں معمولی بہتری آئی ہے اور بائیڈن انتظامیہ نے مئی 2022 میں ڈونلڈ بلوم کو پاکستان میں امریکی سفیر مقرر کر دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران امریکی حکام نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ تاہم امریکا میں بااثر پاکستانی تارکین وطن گروپوں، جن میں سے اکثریت عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کرتی ہے، نے عمران خان کے لیے ریلیف کے لیے امریکی سیاست دانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر مہم چلائی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی عمران خان کی رہائی کے لیے کھلے عام بلند آواز میں وکالت کرنا ان تعلقات میں مزید پیچیدگیوں میں اضافہ کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے امریکی کانگریس نے گزشتہ سال مارچ میں پاکستان میں ’جمہوریت کے مستقبل‘ پر سماعت کی تھی، جس کے بعد صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے فروری 2024 میں پاکستان کے مبینہ متنازع انتخابات کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد پر دباؤ بڑھائیں
چند ماہ بعد اکتوبر میں 60 سے زیادہ ڈیموکریٹک قانون سازوں نے جوبائیڈن پر زور دیا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد پر دباؤ بڑھائیں۔ اس کے بعد 5 نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات سے چند روز قبل امریکا میں پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما عاطف خان نے ٹرمپ کی بہو لارا ٹرمپ سے ملاقات کی اور عمران خان کی قید سے متعلق پی ٹی آئی کے خدشات پیش کیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے 2 روز بعد 22 جنوری کو اسلام آباد میں نومبر میں ہونے والے مظاہروں جن میں پی ٹی آئی حکومت پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہلاکتوں کا الزام عائد کر رہی ہے، کے حوالے سے کیپیٹل ہل میں کانگریس کی ایک اور سماعت متوقع ہے۔ اب تک اسلام آباد ٹرمپ کے اتحادیوں کی جانب سے آنے والے بیانات کی اہمیت کو مسترد کرتا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ان کا ملک باہمی احترام، باہمی مفاد اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے۔دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ جہاں تک انفرادی حیثیت میں بیان دینے والے کسی بھی شخص کا تعلق ہے تو ہم اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیں گے۔
کیا عمران خان کو ٹرمپ سے امید رکھنی چاہیے؟
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے نان ریزیڈنٹ اسکالر سید محمد علی نے پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے امریکی حمایت کے لیے مہم چلانے کو ’ایک قسم کی بے وقوفی ‘ قرار دیا ہے۔
سید محمد علی نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکی مداخلت کے خیال کو آگے بڑھانے سے لے کر، پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے تارکین وطن اب آنے والی امریکی انتظامیہ کو پاکستانی سیاست میں مضبوط کردار ادا کرنے کے لیے راضی کر رہے ہیں۔
لیکن اس طرح کی سوچ کو چھوڑ دیں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک سے دور بیٹھے اوورسیز پاکستانیوں میں سے بہت سے عمران خان کو اپنے ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے عمران خان کو اپنا بہت اچھا دوست قرار دیا تھا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے اپنی پہلی مدت میں ’پاکستان کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں‘ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا، بعد میں 2018 سے 2022 تک عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے۔
دونوں کی پہلی ملاقات جولائی 2019 میں واشنگٹن میں اور پھر جنوری 2020 میں ڈیووس میں ہوئی تھی، جہاں ٹرمپ نے عمران خان کو اپنا ’بہت اچھا دوست‘ قرار دیا تھا۔
جو بائیڈن کے رابطہ نہ کرنے پر عمران خان نالاں
اس کے برعکس عمران خان اور جو بائیڈن کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے، اسی لیے عمران خان اکثر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ انہوں نے نومبر 2020 میں صدارت سنبھالنے کے بعد ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے پاکستانی تارکین وطن کی حمایت حاصل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ امریکا کی دونوں پارٹیوں کے لوگوں کو عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
حسین حقانی نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں پاکستان ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے یہ سوچنا بے وقوفی ہے کہ وہ اس طرح امریکی حکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک یا 2 بیانات کے علاوہ وسیع تر پالیسی میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔
تبصرہ کریں