’قاضی حسین احمد بہت بہادر اور ذہین انسان تھے، عام لوگوں میں رہ کر کام کرتے تھے۔ ان کا نام عام لوگ بھی عزت سے لیتے تھے، چاہے وہ ان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ قاضی حسین احمد سے میری کچھ ملاقاتیں ہوئیں جن میں میں نے ان میں محبت اور شفقت دیکھی۔ 1993 میں جب میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو دیکھا کہ اس وقت قاضی صاحب جماعت اسلامی میں نئی جان لے آئے تھے۔ انہوں نے جماعت کو عام اور پاپولر بنایا۔ ایک شادی میں جب میری ملاقات قاضی حسین احمد سے ہوئی تو وہ میرے متعلق بہت کچھ جانتے تھے حالانکہ میں بہت زیادہ مشہور نہیں تھا۔ قاضی حسین احمد سیاست کرتے تھے تو بہادر کی طرح کھڑے ہو جاتے تھے جس کی مثال لال مسجد واقعہ ہے جس کی انہوں نے مخالفت کی اور سینٹ سے بھی استعفی دیا۔ سینٹ میں صرف حاضری لگوانے نہیں جاتے تھے بلکہ کام کرتے اور اپنے علاقے کے لوگوں کا بھی بہت کام کیا۔ مطالعہ بہت کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے۔ مولانا مودودی کی وفات کے بعد جو خلا جماعت اسلامی میں پیدا ہوا تھا اس کو قاضی حسین احمد نے پُر کر دیا۔۔‘
یہ الفاظ ہیں مسلم لیگ نون کے ایک رہنما کے ہیں جن کا تعلق سندھ سے ہے۔
میں اس ہستی کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھی تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ان کی شخصیت کے کس، کس پہلو پہ لکھوں کیونکہ ایک ہمہ جہت شخصیت کو احاطہ تحریر میں لانا خاصا دشوار ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ایک غیر جانبدار کی طرح لکھوں، مخالف کی طرح لکھوں یا ایک عقیدت مند کی طرح۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں حیثیتوں کے ساتھ بھی لکھوں تو مواد ایک ہی ہوگا وہ اس لیے کہ ان کے مخالف بھی ان کے عقیدت مند پائے گئے اور عقیدت مند اعتدال کی راہ میں رہ کے ان سے شجاعت صداقت اور جرأت کے اسباق سیکھتے نظر آئے۔
یہ بات ہے جون1996 کی ۔ مجھے کچن میں ابو کی آواز سنائی دی۔ امی کو بتا رہے تھے۔
’۔۔ او زبردستی چلا گیا اے‘
’۔۔کس طرح۔۔‘
’۔۔ منتظمین نے بڑا کہیا کہ بیٹا کوسٹر وچ جگہ نہیں، توں نئیں جاسکدا پنڈی۔۔ او انہاں نوں دسے بغیر کوسٹر دی چھت تے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔‘
یہ تو معلوم تھا کہ راولپنڈی لیاقت باغ میں احتجاجی جلسہ ہے آج جماعت اسلامی کے تحت۔اب ابو کی گفتگو سے پتہ چلا کہ میری دوست کا چھوٹا بھائی چودہ، پندرہ سالہ نوجوان بصد شوق روانہ ہو گیا ہے قاضی کی پکار پر۔۔
بے نظیر حکومت کی، روٹی کپڑا مکان کی، عطا و بخشش کی پالیسیاں، افلاس زدہ عوام کی سسکتی بِلکتی زندگی کی محرومیوں کی قیمت پہ حکمرانوں کی عیاشیوں پہ یہ احتجاجی جلسہ ہورہا تھا۔۔۔۔
عصر کے قریب ابو خاصے دکھی لہجے میں کہنے لگے: چلو سب ۔۔۔۔
’۔۔کہاں۔۔۔۔؟‘ پی ٹی وی کی مختصر سی خبر کے الفاظ میری سماعت میں محفوظ تھے۔۔۔۔۔ یااللہ خیر ہو۔۔۔
’۔۔وہ ۔۔۔ شہید ۔۔۔ہوگیا ہے۔۔۔۔پولیس نے سیدھے فائر کھول دیے ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔اس کے آگے ابو کچھ کہہ نہ سکے ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں اپنی انتہائی قریبی دوست کے گھر تھی۔ اس کی امی۔۔۔ ہماری خالہ جان۔۔۔۔ چہرے پہ سکون اور انداز میں صبر و وقار کی تصویر بنی عورتوں کے درمیان بیٹھی تھیں۔۔۔
قاضی بابا سے بڑا پیار تھا اسے۔۔۔۔ گولی کارخ قاضی صاب کی طرف تھا، یہ فوراً قاضی صاب کے آگے ڈھال بن گیا۔۔۔۔ معصوم۔۔۔نڈر۔۔۔۔ بہادر۔۔۔ خوبصورت نوجوان۔۔
یہ تھے فقرے جو تعزیت کے لیے جمع ہونے والی خواتین کی زبان پہ تھے۔۔۔ پولیس کے لاٹھی چارج اور 5کارکنان کوشہید کر دینے کے علاوہ قاضی بابا کے ساتھ جس انداز سے گستاخی کی گئی، ان کی سفید داڑھی کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنا خون کھول اٹھا تھا۔
1996ہی میں منعقدہ ایک جلسے (ہارس شو سٹیڈیم گجرات) میں، میں نے قاضی صاحب کو بہت قریب سے دیکھا۔ اپنی دوست کے ہمراہ ان کے سامنے جا کر سلام کیا اور دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے کمالِ شفقت سے سلام کا جواب دیا تھا اور ’میری بچیو!‘ کہہ کے دعا دی۔ ان کے چہرے کا نور اور شخصیت کا وقار لوح یادداشت میں محفوظ ہے مگر شاید لفظوں میں بیان نہ کر پاؤں۔ تب سے انھیں قاضی بابا کہنا شروع کردیا۔۔
بعد میں قاضی بابا نوجوان شہید کے گھر خود جلوہ افروز ہوئے۔گھر والوں نے انھیں ٹھنڈی لسی پیش کی جو کہ نیچے چٹائ پہ بیٹھ کے سادگی کے ساتھ نوش جاں کی گئ۔۔۔
بات ہو رہی تھی 24جون 1996 کی۔ میری دوست کے شہید بھائی ( ایک دینی مدرسے کا طالبعلم تھا) کے زیر استعمال کپڑے جو مدرسے والوں نے گھر بھیج دیے تھے، صابن تولیہ وغیرہ ماں نے جوں کے توں سنبھال دیے۔ میں جب بھی جاتی ان کے گھر تو میری فرمائش پہ وہ مجھے دکھائے جاتے۔ میں حیران ہوں کہ اس قدر صاف ستھری چیزیں اور جو خوشبو ان سے آرہی تھی اس میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔۔۔
24جون کے اس خونیں کھیل پہ حسن نثار نے لکھا تھا ’ یہ اپنے ہاتھوں اپنی حیات کا شٹر ڈاؤن کرنے والے شہید ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد عوام اور ان کے حقوق کے لیے جان کی حد سے گزرنے والا ہی برتر شہید ہوتا ہے۔ اٹھاؤ ان جماعتیوں کی لاشیں جو دراصل ہمارے تمہارے ضمیر کی لاشیں ہیں، پھر اڑاؤ مذاق قاضی کا اور بھانڈوں کی طرح مارو اس بڈھے کو جُگتیں جو اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیتا ہے، ظلم ظالم مظلوم اور مظالم کی بات کرتا ہے اور جس نے کبھی کوئی انڈسٹری نہیں لگائی، کبھی کوئی قرضہ نہیں لیا، پنجاب کو پلاٹوں کی شکل میں تقسیم نہیں کیا اور خود کشمیر سے لے کر کابل تک اور کراچی سے لے کر بوسنیا تک باولوں کی طرح تقسیم ہوا پھرتا تھا اس کے بعد آوارہ لڑکوں کی طرح اٹھاؤ پتھر اور مارو قاضی کو جس نے مصیبت زدہ لوگوں کی محرومیوں پر صرف دکانیں بند کرانے کی کارروائی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انتہا پر اتر آیا اور اس آدم خور بجٹ کی بنیادیں ہلانے پر تُلا ہوا ہے جس کے ہلتے ہی بہت کچھ ہل جائے گا۔۔۔
اسے انتہا پسند کہو۔۔۔
اسے بنیاد پرست کہو ۔۔۔
اسے مُلّا کہو ۔۔۔
اس کی تضحیک کرو ۔۔۔
لیکن ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ اپنی تمام تر سفاکی سمیت ذرا رکو۔۔۔۔۔۔ قاضی اپنے کارکن بیٹوں کو تو دفنا لے۔۔ عبدالصمد اور شفیق احمد کو کفن تو پہنا لے اور پھر میں ان جاہل جماعتیوں کے لیے تھوڑا سا رو لوں ۔
صبر کرو۔۔
ذرا آرام لو ۔۔۔۔۔
کچھ وقت دو۔۔۔ میں قاضی حسین احمد کی آنسوؤں میں تر اپنے خون جیسی سفید داڑھی کو پرسا دے لوں، مجھے اتنی مہلت دو کہ لیاقت بلوچ کے آنسو پونچھ سکوں، حافظ ادریس سے تعزیت کر سکوں، منور حسن کو دلاسہ دے سکوں اور امیر العظیم کے گلے لگ کے رو سکوں۔۔۔
اس کے بعد میں بھی بے غیرتوں کی طرح کہوں گا جماعتیے جاہل ہوتے ہیں،
جماعتیے متشدد ہوتے ہیں،
جماعتیے تنگ نظر ہوتے ہیں،
جماعتیے رجعت پسند ہوتے ہیں۔۔۔۔‘
۔۔۔آج اس ’انتہا پسند‘، اور ’بنیاد پرست‘ کی یادیں تازہ کرنے بیٹھی ہوں تو ’روشن خیال ترقی پسند‘ انسانوں کی اس ’مہذب‘ دنیا میں مجھے اس جیسا کوئی مل نہیں رہا ۔۔۔
وہ’تنگ نظر‘ ایسا تھا کہ نہ صرف اپنے بیٹوں کو بلکہ بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوا ڈالی۔۔۔
کیسے پیمائش کرو گے اس کی تنگ نظری کی کہ جب مسلک اور فرقے کی بنیاد پہ لوگ اپنے اپنے خول میں بند ہو کے کفر کے سرٹیفیکیٹس اور نفرت کے کیپسول مفت بانٹ رہے تھے اس نے مِلّی یکجہتی کونسل کی تشکیل کی، ایک ایک کے پاس جا کے محبت فاتح عالم کا پیام دیا۔
جب سرکار نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر ایم کیو ایم کو اونچی اڑان کی اجازت دی تو نفرت اور تعصب سے تپائی گئی ایم کیو ایم کی بھٹیوں سے کالی کالی لال پیلی چنگاریاں ملک بھر میں پھیلنے کو تھیں تب یہ ’مُلّا‘ کاروان دعوت و محبت لے کے نکلا قریہ قریہ نگر نگر پیار کےدیے جلائے۔ یہ اور اس کے بیٹے ہر شہر، ہر گوٹھ تک پیار کا امرت گیت گاتے پھرے۔
۔ہم بت خانہ رنگ ونسل و خوں ڈھاتے جائیں گے
خدا کی کبریائی کااعلان کرتے جائیں گے
محبتیں بڑھائیں گے، عداوتیں مٹائیں گے
سکون و چین آئے گا نورِ لا الہ سے۔۔۔۔۔۔۔
کیو ٹی وی پہ ایک پروگرام پیش کیاجاتا ہے ’ کہے فقیر‘ اس میں محترم سرفراز شاہ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں محبت، اخلاص، ایثار وفا کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ بانٹنے کی بات ہوئی تو قاضی حسین احمد کا حوالہ دیا۔ کہنے لگے کہ قاضی صاحب کہا کرتے تھے ’ہم غربت ختم نہ بھی کر پائے اگر تو بانٹ لیں گے۔۔۔۔۔۔‘
قارئین! شمس الدین امجد ایک اکیس بائیس سالہ جوان جسے قاضی صاحب مرحوم نے خود بلوایا اور اپنے ساتھ رکھ لیا میڈیا کوریج کے لیے۔
شمس الدین امجد نے بہت پیارے الفاظ میں قاضی بابا کی یادوں کو تازہ کیا اور خراج عقیدت پیش کیا۔مکمل تحریر فیسبک پہ موجود ہے۔ میں صرف خلاصہ یہاں رکھ رہی ہوں۔۔
شمس الدین امجد لکھتے ہیں کہ
قاضی صاحب کے بلانے پہ اور ان کے کہنے پہ جب میں نے یہ ذمے داری اٹھا لی(میڈیا کوریج کی) تو کوئی کہنے لگا ’قاضی صاحب جلالی طبیعت کے ہیں، تم زیادہ دیر ٹک نہیں سکو گے۔۔۔ کوئی کہنے لگا ’ان کے ساتھ تو بس کوئی پشتون ہی چل سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔‘
لیکن میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا تھا کہ مجھے قاضی صاحب نے خود اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی ہے۔ میں نے ان کے ساتھ دس سال کام کیا۔۔۔۔ کئی غلطیاں کیں۔۔۔ ایک بار بھی انھوں نے نہیں ڈانٹا ۔۔۔۔اُف تک نہیں کی۔۔۔ مجھے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ اور حضور ﷺ کا تعلق یاد آتا تھا۔ دس سال میں انس کو ایک مرتبہ بھی ڈانٹ نہیں پڑی تھی۔
ایک بار مجھے پیسوں کی ضرورت پڑی ۔میں نے عرض کیا’ بیت المال سے قرض حسنہ لے دیجیے‘۔
قاضی صاحب نے کہا ’بیٹا! رقم (ساٹھ ہزار روپے) مجھ سے لے لو، ضرورت پوری ہوجانے کے بعد لوٹا دینا لیکن کسی کو بتانا نہیں۔۔۔‘
شمس الدین امجد لکھتے ہیں ’میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، بہت محبت سمیٹی، بے حد نرم خو اور دلنواز شخصیت کے مالک تھے۔۔ ۔۔۔۔‘
قارئین! میں بہت کچھ مزید لکھتی مگر تحریر کی طوالت کا خدشہ آڑے آتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک پرفضا مقام زیارت کاکا خیل میں آسودہ خاک اس عظیم المرتبت ہستی کے حوالے سے اپنی بات انور مسعود کے اشعار پہ ختم کرتی ہوں:
تری تمام زندگی تھی درس راستی
شفاف اس قدر کہ سویرا کہیں جسے
اک بے مثال دین و سیاست کاامتزاج
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے
تبصرہ کریں