گردش، سید عنایت اللہ جان

قاضی حسین احمد، جن کا سینہ بحر اوقیانوس اور چہرہ جنت کے پھول جیسا تھا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ملکوں کی آبادی اور بربادی میں بنیادی کردار قیادت کا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت حال اور ماضی دونوں سے ثابت ہے کہ جہاں بھی ایماندار، دیانتدار، اہل اور باصلاحیت قیادت عوام نے منتخب کی ہے وہاں پہ پھر قوموں کی تقدیر بدلی ہے یوں نہ صرف دن دگنی رات چگنی ترقی انہیں نصیب ہوئی ہے بلکہ دنیا بھر کی عزت اور توجہ بھی ان کے حصے میں آئی ہے۔ حالیہ تاریخ میں تقریباً سب لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ روس کی بربادی اور چین کی بیداری اور ترقی کی ذمہ داری اور اعزاز کے لیے وہاں کی لیڈر شپ ہی یاد کی جا رہی ہے۔ گورباچوف بربادی کے لیے اور ماؤزے تنگ ابادی کے لیے دنیا کو ذہن نشین ہیں جبکہ ترکی بھی اسلامی دنیا میں ایک اچھی مثال ہے جس نے اپنی بیدار مغز اور باصلاحیت قیادت کی بدولت قابلِ رشک ترقی کی ہے۔

یہ دنیا دو طرح کے لوگوں سے آباد ہے۔ ایک عام لوگ اور دوسرے خاص لوگ۔ عام لوگ وہ ہوتے جن کی زیادہ تر سوچ، دلچسپی اور کوششیں اپنی ذات اور خاندان تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ایسے لوگ عمومی طور پر اپنی بقاء اور ارتقاء کے لیے تو دوڑ دھوپ میں خوب مگن رہتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر اجتماعی مفاد اور معاملات ان کے لیے کم ہی توجہ کا باعث ہوتے ہیں جبکہ خاص لوگوں کا معاملہ بھی خاص ہوتا ہے ان میں یہ اضافی خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات، احوال اور خاندان کے ساتھ ساتھ قومی، ملی اور انسانی معاملات اور مسائل کو بھی برابر اپنے دل و دماغ، جذبات و احساسات اور اوقات و معمولات میں جگہ دیتے ہیں اس لیے میں بجا طور سمجھتا ہوں کہ جس دل میں ایمان و اطمینان، جرآت و بصیرت اور احساس و ادراک جیسی خوبیاں اعلی معیار و مقدار میں جمع ہو جائیں تو اس دل کے حامل کو اللہ تعالیٰ قیادت کے جوہر سے سرفراز فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا معاملہ عام لوگوں کے ساتھ عام ہوتا ہے اور خاص لوگوں کے ساتھ خاص۔ عام لوگوں کی نسبت خاص لوگوں کو اللہ تعالیٰ زیادہ نوازتا ہے۔ ایسے لوگوں کے اوقات میں برکت، شخصیت میں کشش، زبان میں اثر، اقدامات میں خیر اور جدوجہد سے بڑے بڑے انقلابات پیوست رہتے ہیں۔ ان کا حوصلہ بلندتر، ان کی صلاحیتیں ممتاز، ان کی خوبیاں منفرد، ان کی سوچ وسیع و عریض اور ان کا مجموعی کردار ہر اعتبار سے نمایاں ہوتا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگوں میں سے ایک ملک کے ممتاز سیاستدان اور قومی رہنما، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد بھی شامل تھے۔ مجھے بے شمار مرتبہ ان کو قریب سے دیکھنے، سننے اور سمجھنے کے مواقع ملے ہیں۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک اچھے، سچے، میٹھے اور کھرے انسان تھے۔ ان کا سراپا، چہرہ و لہجہ، اخلاق و کردار، جذبات و احساسات، زبان و بیان، سوچ و فکر غرض ان کی پوری شخصیت ایک خدا پرست، انسان دوست، محب وطن اور آفاقیت پسند لیڈر کی تھی یعنی یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں کہ وہ قیادت کی بہترین خوبیوں سے بخوبی آراستہ رہنما تھے۔ ان کی ذات، زندگی، حوصلے، کوششوں اور صلاحیتوں میں ایک خاص طرح کی برکت ہوتی تھی، رونق ہوتی تھی، خوشبو ہوتی تھی اور روشنی ہوتی تھی جو گرد و پیش کی فضاء کو ہمیشہ روشن اور اطمینان بخش رکھتی تھی۔

قاضی حسین احمد مرحوم کا حوصلہ ماؤنٹ ایورسٹ کی مانند مضبوط، سینہ بحر الکاہل کی طرح وسیع، جذبہ ہر دم تازہ دم، شخصیت مرغوب و محبوب، سوچ ہمیشہ آمادہ حرکت اور چہرہ تو ٹھیک ٹھاک جنت کے پھول جیسا تھا۔ اسلامی نظام کا قیام انہوں نے شعوری طور پر زندگی کا مقصد سمجھا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے اتحاد امت ان کی سب سے بڑی آرزو تھی وہ بجا طور سمجھتا تھا کہ اسلامی نظام اجتماعی اور مربوط کوششوں کا متقاضی ہے یہی وجہ تھی کہ ان کی نظر، ابدی طور پر امت میں موافقت کے راستے ڈھونڈنے کی متلاشی رہتی۔ محترم قاضی حسین احمد اتحاد امت کے معاملے میں بے حد سنجیدہ، یکسو، آرزو مند اور بے چین واقع ہوئے تھے، وہ ہر اس بات میں اپنی بات شامل اور ہر اس قدم کے ہم قدم ہوتے جو اتحاد امت کے حوالے سے سامنے آتے، وہ خالص اور مخلص انسان تھے ان کو دیکھنے اور سننے کے بعد فوراً محسوس ہوتا تھا کہ گویا ان کے دل اور زبان میں کوئی فاصلہ نہیں۔ وہ ایک مدبر، یک رنگ، دانشمند، نفیس اور شفاف لیڈر تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ دل اور زبان میں اگر لمبے فاصلے انسانوں کے درمیان بے شمار پیچیدگیوں کے باعث بنتے ہیں تو موافقت، قابلِ رشک محبوبیت سے سرفراز کرتی ہے۔

قاضی حسین احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے قیادت کے جوہر سے بڑے پیمانے پر سرفراز کیا تھا۔ وہ بیٹھتے تو چمکتے، سوچتے تو بصیرت نمودار ہوتی، بولتے تو چھا جاتے، سامنے آتے تو احترام میں سر جھکتے، چلتے تو ایک زمانہ ہم قدم ہوتا، للکارتے تو جرآت سے، پکارتے تو غیرت سے، ملتے تو خلوص سے اور ساتھ چھوڑتے بھی تو اصول پہ۔ وہ مملکت خداداد پاکستان کی سیاست میں تہذیب، سنجیدگی، رواداری اور بنیادی اقدار کے عالمبردار رہنما تھے۔ انہوں نے سیاسی اختلافات میں تہذیب، رواداری اور باہمی احترام کے تقاضوں کو کبھی بھی پائمال نہیں کیا تھا۔

قاضی حسین احمد مرحوم چونکہ ایک مخلص، صاحب بصیرت، جرآت مند، شفاف اور وسیع الظرف رہنما تھے اس لیے وہ قومی، علاقائی اور اسلامی دنیا کے اعتبار سے سیاست کے میدان میں مرکزی شخصیت کے حامل رہنما ٹھہرے تھے۔ وہ تسلسل سے ایک خیال ظاہر کرتے تھے اور وہ محض خیال ہی نہیں بلکہ ان کی دلی آرزو تھی کہ امت "درد مشترک اور قدر مشترک” پر متحد ہو جائے۔ ان کا ایک مشہور جملہ جو وہ اکثر اوقات استعمال کرتے رہتے کہ "متحد ہونے کی ضرورت ہے، متفق ہونے کی ضرورت ہے، قدم سے قدم ملانے، آگے بڑھنے اور منزل (اسلامی نظام) تک پہنچنے کی ضرورت ہے”۔ وہ اکثر کہتے تھے "امت میں اتحاد کے اسباب اختلاف کی وجوہ سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں یہ اسباب تمام مسالک اور مکاتب اگر خلوص نیت سے قبول کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت یکجا ہو کر اپنے سامنے موجود تمام چیلنجز پر کامیابی سے قابو پا نہ لیں”۔

حال ہی میں سابق سفارتکار ایاز وزیر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا "میری پہلی ملاقات قاضی صاحب سے ایک مسجد میں اتفاقی طور پر ہوئی لیکن یقین کریں اس ایک ملاقات میں قاضی صاحب کا پختہ گرویدہ ہو گیا پھر جب بھی مجھے قاضی صاحب کی جانب سے یا قاضی صاحب کے حوالے سے کوئی دعوت موصول ہوئی تو میں بے اختیار اس طرف چل پڑتا اور پوری محبت اور عقیدت سے شریک ہوتا، بلا شبہ وہ شرافت، نفاست، بصیرت اور قیادت کے بلند درجے پر فائز رہنما تھے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ”میں ایک بار ایران کے دورے پر قاضی حسین احمد مرحوم کا شریک سفر تھا۔ وہاں انہوں نے ایک کانفرنس میں فارسی زبان میں خطاب کیا اور ایسا شاندار خطاب کیا کہ سارا مجمع زبردست خراجِ تحسین پیش کرنے لگا، خطاب کے بعد موجود دنیا بھر کے مندوبین جس عزت، احترام اور والہانہ انداز سے قاضی حسین احمد صاحب سے ملیں وہ دیکھ مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر بے حد خوشی، فخر اور اطمینان محسوس ہوا”۔ اسی تقریب سے مشاہد حسین سید نے بھی خطاب کیا اور نہایت محبت اور مسرت سے قاضی صاحب کے ساتھ گزرے احوال کا تذکرہ کیا۔ کہا "میں بے شمار اسفار اور مقامات میں قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ شریک رہا ہوں، میں نے ہر جگہ ان کو ممتاز، باوقار اور جاندار حیثیت میں ہی دیکھا۔ سعودی عرب، ایران اور ترکی سمیت اسلامی ممالک کے سربراہان سے ان کے ذاتی اور دوستانہ تعلقات قائم تھے اور وہ ان تعلقات کو امت کے مخلتف مسائل کے حل میں حکمت سے استعمال کرتے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ”میں ایک بار امریکا کے طویل دورے پر گیا تھا تو وہاں کافی اہم شخصیات اور اعلیٰ عہدے داران سے ملا سب قاضی صاحب کا احترام اور گرم جوشی سے ذکر کرتے اور کہتے کہ "وہ بڑا جاندار لیڈر ہیں اور یہ کہ فرینڈلی بنیاد پرست بھی”۔

آئیے دو حوالوں سے یعنی ذاتی و سیاسی احوال اور ممتاز قائدانہ صلاحیتوں کے تناظر میں قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت اور کردار کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے سیاست و قیادت کے دائرے میں رہ کر تعمیری کردار ادا کر کے ایک بہت بڑی قومی، اسلامی اور انسانی خدمت انجام دی ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور (پیدائش: 12 جنوری 1938ء اور وفات 6 جنوری 2013ء) وطن عزیز کے ایک ممتاز عالم، منفرد قومی رہنما اور ہمہ گیر فکر و نظر کے حامل سیاست دان تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر عالمگیر شہرت پائی۔ آپ کے دور میں جماعت اسلامی محدود دائرہ اثر سے نکل کر سیاسی طور پر زیادہ عوامی مقبولیت کی طرف مائل ہوئی۔

قاضی حسین احمد میاں طفیل محمد مرحوم کے بعد اور سید منور حسن سے پہلے تیسرے امیر جماعت اسلامی پاکستان کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ آپ کی مدت امارت 7 اکتوبر 1987ء تا 29 مارچ 2009ء تک پر مشتمل ہے۔ قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن امارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ محترم قاضی حسین احمد مسلسل پانچ مرتبہ امیر جماعت کے منصب پر فائز رہے تھے۔

قاضی حسین احمد 1938ء کو ضلع نوشہرہ (صوبہ خیبر پختونخوا) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ والد محترم مولانا قاضی محمد عبد الرب صاحب خود ایک ممتاز عالم دین اور قابل احترام شخصیت کے حامل بزرگ تھے، موصوف اپنے علمی مقام و مرتبہ، سماجی اثر و رسوخ اور بہترین سیاسی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ قاضی صاحب اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے دو بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن اور قاضی عطاء الرحمٰن زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے تھے۔ قاضی حسین احمد بھی ان کے ہمراہ جمعیت کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے۔ لٹریچر کا مطالعہ کیا اور یوں اسلامی جمعیت طلبہ سے باقاعدہ وابستہ ہوئے۔

قاضی حسین احمد صاحب نے حسب دستور ابتدائی تعلیم زیادہ تر گھر پر ہی اپنے والد محترم سے حاصل کی پھر معروف تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی اور اس کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری لی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد جہانزیب کالج سیدو شریف سوات میں بحیثیت لیکچرار تعیناتی ہوئی اور وہاں پہ تقریباً تین برس تک پڑھاتے رہے لیکن جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث یہ ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ جہاں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، پھر جماعت اسلامی پشاور شہر اور ضلع پشاور کے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ 1978ء میں جب میاں طفیل محمد امیر جماعت تھے، کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اس ذمہ داری کو 1987ء تک نبھایا، 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے تیسرے امیر منتخب کر لیے گئے۔ وہ مسلسل پانچ مرتبہ امیر جماعت منتخب ہوئے۔

قاضی حسین احمد پہلی بار 1985ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں وہ دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے، تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دیر اور نوشہرہ کے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2004ء کو شاہ احمد نورانی صاحب کی وفات کے بعد دینی جماعتوں کے ملک گیر اتحاد متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔ قاضی حسین احمد صاحب کا نقطۂ نظر ہمیشہ قومی اور اصولی معاملات میں سخت رہتا۔ حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد استعفیٰ کی بات بھی ان کی طرف سے سامنے آئی تھی جبکہ بعض رہنماوں کا نقطہ نظر مختلف تھا قاضی صاحب نے اس سلسلے میں اتحاد کی قیادت پر کافی دباؤ بھی ڈالا لیکن جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان استعفی نہ دینے کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ قاضی حسین احمد نے جولائی 2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔

قاضی حسین احمد کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو سب کے سب جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔ سادہ زندگی گزارنے والے قاضی صاحب منصورہ میں دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے بہت بڑے خوشہ چین تھے، انہیں فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں ان کا اکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر اور گفتگو ہمیشہ کلام اقبال سے اراستہ رکھتے تھے۔

6 جنوری 2013ء کو دل کے عارضہ سے اسلام آباد میں انتقال ہوا، بعد ازاں اُن کو ان کے آبائی علاقے نوشہرہ میں دفن کر دیا گیا۔

اب آتے ہیں ان کے ممتاز فکری اور عملی کردار کی طرف

اتحاد امت قاضی حسین احمد مرحوم کی سب سے بڑی آرزو تھی انہوں نے ملک میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں میں اتحاد کے لیے انتھک جد وجہد کی ہے۔ ان کی نگاہیں ہمیشہ موافقت کے راستے تلاش کرتی رہی۔ انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کے قیام اور فعالیت میں موثر ترین کردار ادا کیا اور اس پلیٹ فارم کے ذریعے سے وہ مواقع پیدا کیے کہ جن سے اتحاد ملت کے حصول میں مدد ملی۔

قاضی حسین احمد مرحوم عملی جد وجہد پر یقین رکھتے تھے۔ وہ محض ایک نظریاتی اور فکری نہیں بلکہ سو فیصد عملی لیڈر تھے۔ وہ ذہنی جمود اور بے عملی کو موت سمجھتے تھے۔ انہوں نے بلخصوص نوجوانوں کو اور بالعموم پوری قوم کو جدوجہد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ کلام اقبال کا سہارا لے کر ہمیشہ لوگوں میں جد وجہد کا جذبہ ابھارا کرتے تھے۔

 دنیا، دین سے بے گانہ ہو یا دین، دنیا سے لاتعلق ہو اس عمل کو قاضی صاحب گمراہی کا سب سے بڑا سبب سمجھتے تھے وہ دنیا کے معاملات کو دین کے اصولی تناظر میں سدھارنے اور سنوارنے کو اصلاح کا واحد ذریعہ گردانتے تھے۔ تواتر سے اپنے خطابات میں فرماتے کہ "نبی کریم ﷺ نے دین کی چابی سے دنیا کا تالہ کھول دیا ہے”۔

قاضی حسین احمد دنیا بھر کے مظلوم اقوام کے زبردست حامی تھے جب اور جہاں بھی طاقتور اقوام اور ممالک کمزوروں کو جارحیت کا نشانہ بناتے تو قاضی مرحوم نہ صرف صدائے احتجاج بلند کرتے بلکہ ہر ممکن داد رسی اور مدد کے لیے فوراً پہنچتے مزید برآں جارح قوتوں کی مزمت اور مزاحمت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ وہ افغانستان پر روسی اور امریکی جارحیت، کشمیر پر بھارت کے ناجائز تسلط، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی بربریت، بوسنیا ہرزیگوینا کے مسلمانوں پر سرب افواج کے غیر انسانی مظالم کے خلاف ایک آواز تھی مزید برآں افغان مہاجرین اور مجاہدین، کشمیر کے مظلومین اور مجاہدین، فلسطین کے مجبور و مقہور مسلمانوں، اراکان کے تباہ حال اور بے سروسامان شہریوں کے پاکستان میں سب سے بڑے پشتباں قاضی حسین احمد مرحوم ہی تھے۔

قاضی حسین احمد کو میں نے خواتین کے احترام اور توقیر میں سب سے آگے اور سب سے بہتر پایا ہے۔ وہ خواتین کی عزت اور احترام کا تذکرہ اور اہتمام اس معیار پہ کرتے کہ جس سے حاضرین و ناظرین کے قلب و نظر خواتین کے احترام میں جھک جاتے۔ وہ یقین دلاتے کہ اسلام نے ہی حقیقت میں خواتین کی عزت اور حقوق بحال کر دئیے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ خواتین کے لیے اسلام کا دامن رحمت ہی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ وہ بے حیائی اور بے باکی کے مظاہروں پر شدید افسوس کا اظہار کرتے اور کہتے کہ عورت کو اپنے مقام اور ذمہ داریوں سے ہٹانا اس کو غیر محفوظ اور غیر معتبر کرنے والا شیطانی ایجنڈا اور طرزِ عمل ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم کے صلاحیتوں، معمولات، کردار اور خدمات کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اس نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ ان کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ کلام اقبال کا ٹھیک ٹھاک حافظ تھا۔ وہ قومی، علاقائی اور عالمی ایشوز سے نہ صرف کما حقہ واقف تھے بلکہ وہ قومی آگاہی کا بھی ایک معتبر اور تسلیم شدہ ذریعہ قرار پائے تھے۔ وہ کاروبار بھی کرتے رہے اور دوسری تمام تر سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے تھے۔ وہ محیط اور وسیع مطالعے کے حامل بھی تھے حیرت ہوتی تھی کہ موجودہ دور میں کہ جس میں نہ صرف وقت بے حد تیز رفتار ہوچکا ہے بلکہ ضیاع وقت کی بھی بے شمار صورتیں پیدا ہو گئی ہیں میں ایسا کیسے ممکن ہے؟ میرے پاس اس کے دو توجیح ممکن ہیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی اور اوقات میں اپنی خاص رحمت سے برکت شامل کی اور دوم یہ کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت نظم و ضبط، محنت و انہماک اور احساس و ادراک کے گزارا ہے، کوئی غفلت اور لاپرواہی کو اس معاملے میں در آنے نہیں دیا۔

قاضی صاحب کے لہجے میں اللہ تعالیٰ کی ذات نے ایک مخصوص قسم کی شیرینی، حلاوت، اپنائیت، شفقت اور محبوبیت بھر دی تھی۔ ان کی باتیں نہ صرف فوراً سمجھ آتی تھی بلکہ انسان دل ہی دل میں ان کے قائل بھی ہوتا تھا۔ ان کا ماتھا روشن اور چہرہ منور رہتا اور ایک ملکوتی قسم کی مسکراہٹ سے ہمیشہ ان کا رخ انور آراستہ رہتا۔

قاضی صاحب کا لباس و پوشاک، انداز و اطوار، نشست و برخاست، قیام و طعام اور کلام و بیاں نفاست کا جاذب ترین نمونہ تشکیل دیتے۔ ان کی شخصیت خاص قسم کی ٹھنڈک، ٹھہراؤ، تاثیر، وقار اور جاذبیت کے حصار میں رہتی تھی اور کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان کا چہرہ صدا بہار طور پر تر و تازہ رہتا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین مقامات اور درجات کا وارث بنا دیں اور اپنے راستے میں ان کی جد وجہد شرف قبولیت بخشیں۔

2000ء سے 2004ء تک میں مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد پشاور میں زیر تعلیم رہا ہوں۔ یہ مدرسہ پشاور یونیورسٹی کے بلکل قریب واقع ہے جبکہ قاضی حسین احمد مرحوم کے رہائش گاہ بھی مدرسے سے زیادہ دور نہیں۔ محترم قاضی صاحب کا معمول تھا کہ وہ مہینے میں ایک آدھ بار ضرور مرکز علوم تشریف لاتے یوں ہمیں تواتر سے ملنے کا شرف حاصل ہوتا، کبھی کبھی خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرماتے ایسے ہر موقع پر ان سے ملنے کے لیے بڑا مجمع اکٹھا ہوتا جس میں ہر عمر اور احوال کے لوگ شامل ہوتے۔ قاضی صاحب سب کے ساتھ جس خلوص، شفقت، محبت اور خاص توجہ سے ملتے وہ انداز اور منظر دلوں پر نقش ہوتا وہ ہمیشہ نورانیت، جاذبیت اور محبوبیت کے ایک خاص مومنانہ ہالے میں نظر آتے جو گرد و پیش میں موجود سب کو محسوس ہوتا۔

قاضی حسین احمد اے ٹو زیڈ ایک عملی انسان تھا۔ وہ عمل پر یقین رکھتے تھے، وہ نوجوانوں کو عمل کے دائرے میں متحرک کرنے دل و جان سے خواہاں تھے۔ کلام اقبال کا سہارا لے کر عمل پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مگن نظر آتے۔ وہ محض واعظ نہیں بلکہ خود عمل کا پیکر بن کر میدان جد وجہد میں مصروف نظر آتے۔ مایوسی، سرد مہری، جمود، نفرت اور تعطل ایسے عیوب سے وہ کوسوں دور تھے۔

قاضی حسین احمد حقیقی معنوں میں ایک سچے عاشق رسول تھے۔ وہ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت کو انسانیت کے لیے کامل اور متوازن نمونہ قرار دیتے تھے۔ وہ حضور نبی کریم ﷺ تاریخ کے بہترین لیڈر یقین کرتے تھے۔ وہ مکمل شرح صدر سے یہ حقیقت واضح کرتے کہ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے ہدایت اور انصاف سے سرفراز ہوئی۔

01 ایک لیڈر کے بیانات اس کی سوچ اور مدعا کے آئینہ دار ہوتے ہیں آئیے قاضی صاحب کے چند ایک بیانات کا تذکرہ کرتے ہیں!

02 ہم امریکا کے دشمن نہیں بلکہ اس کی دوغلی پالیسی کے خلاف ہیں۔

03 ہم ہندوستان کی بربادی نہیں بس کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں۔

04 افغانستان ہر دور میں جارح قوتوں کے لیے شکست کا مقام ثابت ہوا ہے۔ جذبہ جہاد اور مزاحمت افغانوں کی اصل طاقت ہے۔

05 امت کو درد مشترک اور قدر مشترک پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔

06 پاکستان میں حقیقی جمہوریت کبھی نہیں آئی۔

07 ملکی سیاست میں ایک بار پھر بوٹوں کی چھاپ سنائی دے رہی ہے۔

08 مجلس عمل کی کامیابی غلط پالیسیوں پر عمل کا ردعمل ہے۔

09 پاکستان کو خوشحال اور مضبوط بنانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے اسلامی نظام۔

10 امت میں اختلافات کی وجوہ سے اتحاد کے اسباب کہیں زیادہ طاقتور ہیں بس انہیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

11 ملک میں حقیقی جمہوری جماعت، جماعت اسلامی ہے باقی اکثر و بیشتر جماعتیں بااثر اور دولت مند عناصر کے زیرِ اثر ہیں۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ قاضی حسین احمد مرحوم کی روح کو کمال درجے کی تسکین سے ہم کنار فرمائے اور یہ کہ انہیں جنت الفردوس کے بلند ترین مقامات عطا فرمائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے