یہ کوئی 10، 12 سال پہلے کی بات ہے مجھے ایک صحافی دوست کا فون آیا کہ فلاں عالمی نشریاتی ادارہ سے منسلک رپورٹر آپ سے کالعدم تنظیموں کے حوالے سے انٹرویو کرنا چاہ رہے ہیں۔
ان دنوں میں عسکریت پسندی اور کالعدم تنظیموں وغیرہ پر باقاعدگی سے کالم لکھا کرتا تھا بلکہ پختونخوا میں طالبان عسکریت پسندی اور ان کے مختلف گروپوں وغیرہ پر اس قدر لکھا کہ میری بعض تحریروں کےبین الاقوامی ویب سائٹس میں حوالے بھی دیے گئے۔
میجر (ر) عامر کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ عسکریت پسندی اور طالبان گروپوں کے بارے میں کس قدر باخبر آدمی ہیں۔ ممتاز کالم نگار، اینکر جناب ہارون الرشید کے صآحبزادے کی شادی پر میں سینیئر صحافی سجاد میر، محمد طاہر اور بعض دیگر لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میجر (ر)عامر ادھر آئے، کھڑے کھڑے ہی سب سے سلام دعا لی اور پھر میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے، اٹک پل کے پار (یعنی پنجاب میں) اگر کسی صحافی نے افغانستان اور پختونخوا کی عسکریت پسندی کو سمجھا ہے تو وہ عامر خاکوانی ہے۔ ظاہر ہے اتنے تجربہ کار اور پختہ کار شخص کی تعریف سن کر اچھا لگا۔
مجھے جب دوست نے ان صاحب کے انٹرویو کرنے کا بتایا تو حامی بھر لی۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ افغانستان میں طالبان کی تحریک مزاحمت یا فاٹا میں ٹی ٹی پی کے گروپوں کے حوالے سے کچھ بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ایک ممتاز تجزیہ کار خاتون سے بھی میری پریس کلب لاہور میس اسی مقصد سے ملاقات ہوچکی تھی، انہیں پنجابی طالبان کے بارے میں جاننا تھا۔ ان تجزیہ نگار خاتون کے والد کا تعلق بہاولپور سے تھا تو اس حوالے سے ہمارا ان کے لیے سافٹ کارنر تھا۔ جتنا کچھ جانتا تھا، اپنی معلومات اور تجزیے سے انہیں آگاہ کیا۔
یہ اور بات کہ کچھ عرصے بعد انہی ڈاکٹر صاحبہ کی ایک معروف انگریزی میگزین میں اسپیشل رپورٹ چھپی جس میں 2 سنگین غلطیاں کرتے ہوئے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو پنجابی طالبان میں شمار کیا، حالانکہ یہ ہر اعتبار سے غلط تھا کیونکہ یہ دونوں کالعدم تنظیمیں افغانستان سے بالکل ہی لاتعلق ہو کر صرف مقبوضہ کشمیر کو اپنا محاذ بنائے ہوئے تھیں۔ ان کا طالبان سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔
مزے کی بات ہے کہ اسی رپورٹ پر ڈاکٹر صاحبہ کو بہترین فیچر ایوارڈ ملا۔ بعد میں انہوں نے پاکستانی ملٹری پر ایک کتاب بھی لکھی، مجھ سے تو وہ پڑھی نہیں گئی، جانے اس کے مندرجات کس حد تک درست ہیں؟
خیر بات پھر اسی انٹرویو کی طرف موڑتے ہیں۔ مقررہ وقت پر ان کا مجھے فون آیا، 3، 4 منٹ گپ شپ ہوئی، کالعدم تنظیموں کے بارے میں بات ہوئی اور پھر مجھے کہنے لگے کہ میں انٹرویو کے لیے موبائل فون کے بجائے لینڈ لائن فون سے کال کروں گا تاکہ ریکارڈنگ کر سکوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔
2 منٹ کے بعد ان کی کال آئی، چھوٹتے ہی پہلا سوال انہوں نے کیا کہ ہماری کالعدم جہادی تنظیمیں پھر سے انڈیا کے زیر انتظام (مقبوضہ) کشمیر میں ایکٹو ہوگئی ہیں، اس حوالے سے آپ کی کیا معلومات ہیں؟
یہ سوال سن کر میں ہکابکا رہ گیا۔ اس لیے کہ جنرل مشرف نے سابق جہادی تنظیموں پر سخت پابندی لگا دی تھی اور تب سے وہ بالکل بھی فعال نہیں تھیں۔ انڈیا کی طرف پورا فرنٹ خاموش تھا جو کچھ ایکٹوٹی ہو رہی تھی وہ افغانستان کے اندر یا پاک افغان سرحد سے ملحقہ فاٹا کی ایجنسیوں میں تھی۔
میں نے فوری ان کی تردید کر کے اپنا تجزیہ پیش کرنا شروع کیا۔ انہیں شایداس کی توقع نہیں تھی۔ ایک آدھ بار انہوں نے اختلاف کر کے پھر وہی سوال دہرایا، مگر میں نے دلیل اور اعدادوشمار کے ساتھ ان کی بات کا رد کیا تو بڑے تلملائے۔ اچانک کہنے لگے کہ سوری، آواز ٹھیک نہیں آ رہی، ریکارڈنگ میں دقت ہو رہی، آپ کو کچھ دیر کے بعد کسی اور فون سیٹ سے فون کروں گا۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ پچھلے 12 برس سے یہ خاکسار ان کے اس فون کا انتظار کر رہا ہے۔
مجھے پہلے ہی اندازہ تھا، مگر ایک بار پھر کنفرم ہوگیا کہ اکثر غیر ملکی نشریاتی ادارے اپنے ممالک کی خارجہ پالیسیوں کے تابع ہیں اور ان کا ایک خاص ایجنڈا ہے۔ جس نشریاتی ادارے کی بات کی، اس نے ایک زمانے میں انڈیا کو لاہور فتح کرا دیا تھا جبکہ اور بھی بہت سی اس کی اسٹوریز باؤنس ہوئیں یا غلط رپورٹ ہوئیں، مگر چونکہ نام بڑا ہے، اس لیے سب چل جاتا ہے۔
یہ سب مجھے پچھلے 2،3 دنوں سے بار بار یاد آ رہا ہے جب سے وائس آف امریکا میں بلوچستان کے حوالے سے ایک متنازع اور غلط رپورٹ پڑھی۔
بلوچستان میں کیچ کے علاقے میں ظریف بلوچ نامی ایک سیاسی کارکن کے اغوا کے حوالے سے احتجاج چل رہا ہے۔ وائس آف امریکا کی یہ رپورٹ اس حوالے سے ہے۔
بلوچستان کی صورتحال خاصی پیچیدہ اور ہے، اتنی آسانی سے اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ یہ درست کہ وہاں خاصے مسائل ہیں۔ پولیس وغیرہ کی مس ہینڈلنگ بھی رہی ہے۔ مسنگ پرسنز کے ایشوز سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی مگر سچ ہے کہ کئی بار پروپیگنڈہ بھی چلتا رہا اور کئی ایسےمبینہ مسنگ پرسنز تھے جو بعد میں ریاستی اداروں پر حملوں میں ملوث پائے گئے اور ان کی ویڈیوز سامنے آئیں تو پتا چلا کہ وہ مسنگ پرسن نہیں بلکہ شدت پسندوں کے ساتھی بن چکے تھے۔
ظریف بلوچ کے معاملے میں بھی پوری تحقیق وتفتیش ہونی چاہیے کہ اصل ماجرا کیا ہے اور اس حوالے سے جو کہا جا رہا ہے اس میں کس قدر صداقت ہے؟ وائس آف امریکا نے مگر اس پر ایک بالکل یک طرفہ، منفی اور شدید متنازع رپورٹ شائع کی جس میں سرکاری موقف لیے بغیر ہی یک رخا مواد شائع کیا۔
عام طور سے صحافی ایسے کسی واقعہ میں مبینہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی الزام عائد کرتا ہے کہ فلاں محکمے نے ہمارا عزیز اغوا کر لیا تو صحافتی روایات کے مطابق اسے یوں رپورٹ کیا جائے گا کہ مبینہ طور پر اغوا ہوگیا۔ اس کےساتھ ساتھ صحافتی ضابطوں کے مطابق اس پر دونوں اطراف کے موقف دینے لازمی ہوں گے۔ اگر حکومت پر کوئی الزام ہے تو حکومتی ترجمان کی جانب سے مؤقف بھی اسٹوری میں ڈالا جائے گا۔
یہ وہ روایات ہیں جو وائس آف امریکا، بی بی سی اور دیگر عالمی ادارے بخوبی جانتے ہیں۔ اپنے ملک میں رپورٹنگ کرتے ہوئے وہ اس امر کا پوری طرح خیال رکھتے ہیں۔ البتہ غیر ممالک اور خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں حکومتیں اور انتظامیہ گوروں سے مرعوب ہوجاتی ہیں، نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ ان کی غلط بیانیوں اور متنازع اسٹوریز پر احتجاج بھی نہیں کر سکتیں۔
وائس آف امریکا نے ایک اور افسوسناک اور قابل اعتراض کام یہ کیا کہ اپنی اس اسٹوری کو اسپانسر کر کے چلایا یعنی بطور ایڈ۔ اب یہ باقاعدہ تشویشناک امر ہے کیونکہ ایسی اسٹوری سپانسر کرنے کی تو کوئی تک نہیں۔ اپنی طرف سے ٹوئٹر، فیس بک وغیرہ پر پیسے کون لگاتا ہے؟ ایسا صرف تب ممکن ہوتا ہے جب کسی مذمو م ایجنڈے کے تحت کسی رپورٹ کو زیادہ سے زیادہ دور تک پھیلانا مقصود ہو۔
پاکستانی حکومت خاص کر وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو آئے روز ٹی وی چینل پر آ کر اپوزیشن کو لتاڑنے اور میڈیا کو لعن طعن کرنے کا بہت شوق ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراطلاعات، وزیراعظم اور دیگر حکومتی اہلکار اس پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا یہ ان کی ذمہ داری نہیں کہ وائس آف امریکا کی اس مس رپورٹنگ پر احتجاج کریں، انہیں جو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جو بے پناہ انتظامی سہولتیں ملی ہوئی ہیں، ان پر ہی نظرثانی کی جائے۔
بلوچستان کے مسائل حل ہونے چاہییں، مسنگ پرسنز کے ایشو کو بھی سلیقے سے حل کیا جائے۔ حکومتی اداروں کوایک طرف اپنی کریڈیبلٹی بڑھانی چاہیے، دوسری طرف حکومت اور و زرا کو گوروں کے نشریاتی اداروں سے مرعوب ہونے کے بجائے پاکستانی میڈیا ہاؤسز کو سپورٹ کرنا چاہیے، انہیں انفارمیشن میں شریک کریں ، یہ سوچ کر یہ بہرحال آخری تجزیے میں یہی پاکستانی ادارے ہی ملک وقوم کے خیر خواہ ہیں اور یہاں انارکی پھیلانے سے گریز کریں گے ۔ وائس آف امریکا کی اس متنازع رپورٹ کا باقاعدہ حکومتی سطح سے نوٹس لیا جانا اور اس پر احتجاج کرنا بہت ضروری ہے، اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
تبصرہ کریں