حالات کے نقش و نگار دیکھ کر تو یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ دو ہزار پچیس سائنسی اور تکنیکی اعتبار سے تو قابل ذکر صلاحیتوں، کامیابیوں بلکہ حیرتوں کا ایک پورا خزانہ دامن میں لے کر کھڑا انسانی رجحانات کا جائزہ لے رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ سال سیاسی، کہیں کہیں معاشی اور امن و امان کے حوالے سے مشکل چیلنجوں سے بھی بھرا دکھائی دے رہا ہے۔ دو ہزار پچیس اگر چہ دنیا کے اکثر و بیشتر حصوں بشمول پاکستان میں تکنیکی ترقی اور معاشی بحالی کے لیے امید افزا امکانات رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس وقت دنیا کو شدید سیاسی تنازعات، ماحولیاتی تغیرات، معاشی مشکلات اور سماجی عدم مساوات کے اعتبار سے پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔ "اڑان پاکستان پروگرام” جس کا افتتاح اکتیس دسمبر دو ہزار چوبیس کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے ہاتھوں ہوا ان شاءاللہ یہ پروگرام اگر کامیاب ہوا جس میں دو ہزار انتیس تک برآمدات سالانہ ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے تو یہ بلاشبہ پاکستان میں معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ان مثبت اور منفی دونوں قوتوں کے باہمی کشمکش کو سمجھنے کی کوشش ہم سب کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں۔
دو ہزار پچیس کے لیے سب سے اہم امکانات میں سے ایک تکنیکی جدت طرازی کی برق رفتار سرعت ہے۔ اس تسلسل میں سب سے اہم سطح مصنوعی ذہانت میں حیران کن پیش رفت ہے۔ مصنوعی ذہانت سے زندگی کا پورا منظر نامہ مجموعی طور پر تبدیل ہونے کو تیار ہے۔ تعلیم و تحقیق کا میدان ہو یا پھر صحت کی ضروری دیکھ بھال، عالمی نقل و حمل کا عمل ہو یا پھر مالیات کا حساب کتاب، اے آئی کی جادوئی طاقت سیر و تفریح سے لے کر صنعتوں کے فروغ میں ایک نیا انقلاب لانے کے لیے موجودہ دنیا کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے آلات سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے، مختلف تجربات کو کام میں لائیں گے، اور سائنسی دریافتوں کی نئی سطحوں کو آگے بڑھائیں گے۔ تاہم، مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی سے ملازمتوں کے ڈھانچے بدلنے، الگورتھمک نظام کا عقل اور اخلاق سے لاتعلقی، اور ان ٹیکنالوجیز کے ممکنہ غلط استعمال کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔
ایک اور مثبت رجحان وبائی امراض سے مرتب ہونے والے اثرات کے بعد جاری معاشی بحالی کا عمل ہے لیکن دوسری طرف عالمی معیشت کو افراط زر اور مختلف خطوں میں جنگوں کے سبب سپلائی چین میں خلل جیسی پریشانیوں کا سامنا بھی ہے، لیکن یہ بات اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ بہت سے ممالک کو مسلسل ترقی کی توقع کی جاتی ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ، ملازمتوں کی تخلیق، اور معیار زندگی میں بہتری آسکتی ہے۔ تاہم، اقتصادی بحالی کے فوائد کو یکساں طور پر تقسیم کرنا مشکل ہے جس سے دنیا بھر میں عدم مساوات بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوگا۔
امکان ہے کہ جغرافیائی سیاسی تناؤ دو ہزار پچیس کی ایک اہم خصوصیت رہی گی۔ یوکرائن میں جاری تنازعہ، مشرق وسطی میں ہر گزرتے دن کے پھیلتی تباہی، شام میں حزب اختلاف کے ہاتھوں رونما ہونے والے انقلاب نے صرف دس روز میں اسد خاندان کے پچاس سالہ اقتدار کو نگل لیا، جگہ جگہ قوم پرستی اور پاپولزم کا عروج، بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت اور کشمکش۔ یہ سب ایک پیچیدہ اور غیر یقینی عالمی منظر نامے کے مختلف اسباب ہیں۔ یہ کشیدگی مختلف تجارتی جنگوں، ہتھیاروں کی دوڑ، اور یہاں تک کہ مسلح تصادم کا باعث بن سکتی ہے، یہ صورت حال بلا شبہ بین الاقوامی امن، استحکام اور تعاون کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
ماحولیاتی چیلنجز بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی کرہ ارض پر گہرے، مہلک اور دیرپا اثرات مرتب کر رہی ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، موسمی تغیرات سے رونما ہونے والے قدرتی اور غیر قدرتی واقعات، اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے پورے ماحولیاتی نظام کے لیے ٹھیک ٹھاک خطرہ ہے۔ معیشت کی کم کاربن ڈائی آکسائیڈ حالت پہ منتقلی ایک پیچیدہ اور فوری کام ہے، جس کے لیے قابل تجدید توانائی، توانائی کے متبادل ذرائع، اور زرعی شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
سماجی عدم مساوات دنیا کے کئی حصوں میں ایک مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے۔ غربت، بھوک نیز تعلیم اور صحت کی مناسبت سہولیات تک عدم رسائی کروڑوں لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ یہ عدم مساوات سماجی تناؤ، سیاسی عدم استحکام اور یہاں تک کہ نوع بہ نوع تنازعات کو بڑھا سکتی ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع عالمی طرزِ عمل کی ضرورت ہے جس میں سماجی تحفظ کی سہولت، معیاری تعلیم اور بڑی تعداد میں اقتصادی مواقع کی تخلیق میں سرمایہ کاری شامل ہے۔
دو ہزار پچیس کے متوقع منظر نامے کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو مواقع اور چیلنجوں کے پیچیدہ امتزاج کا سامنا ہے۔ تکنیکی جدت طرازی اور معاشی آسودگی کے ممکنہ فوائد بلا شبہ اہم ہیں، لیکن اس امکان کو ملازمتوں کی نایابی، سماجی عدم مساوات اور ماحولیاتی انحطاط کے خطرات جیسے مسائل سے جوڑ کر دیکھنے اور ایک متوازن نظام ترتیب دینے کے مقامی، ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون اور اشتراک کی اشد ضرورت ہے۔ ایک پُرامن، مستحکم اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی اور جغرافیائی تناؤ کو دور کرنا اور ایک بین الاقوامی تعاون، بھائی چارے اور ہمدردی کو فروغ دینا بے حد اہم ترجیحات ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے کوئی قبول کرے یا نہ کرے حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے لئے ضروری مواقع اور امکانات کی دستیابی اور سامنے موجود تہہ در تہہ اور قطار اندر قطار موجود چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے کچھ اصول اور اقدار کے لیے انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونا پڑے گا اور آپس میں ضروری تعاون، اشتراک اور احترام کو فروغ دینا ہوگا بصورت دیگر ایک ایسی تباہی سر اٹھا لے گی جو کہ انسانیت کا سر کچل کر رکھ دے گی۔
ہم طلوع ہونے والے سال کے ایمان، یقین، امید اور محبت سے استقبال کرتے ہیں اور اس عزم کا اظہار بھی کہ ان شاءاللہ بطور ایک فرد، بطور ایک قوم اور بطور ایک نوع ہمارا وزن خیر، تعمیر، امن، سکون، اصلاح، انصاف، ترقی اور خوشحالی کے پلڑے میں پڑے گا۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ مستقبل پہلے سے متعین کوئی چیز نہیں بلکہ اس کو باقاعدہ ارادی، انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے بنانا پڑتا ہے اس عمل پر اثر انداز مختلف اسباب اور قوتوں کو خوب سمجھ کر، آپس میں ایک تعمیری مکالمے کو فروغ دے کر، اور ایک فیصلہ کن قدم اٹھا کر، ہم ایک زیادہ مثبت، محفوظ اور مساوی مستقبل کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
تبصرہ کریں