فلسطینی-خاتون-بچی-کو-اٹھائے-ہوئے

جی ہاں! جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قارئین! اردو ایک خوبصورت زبان ہے۔ ہماری قومی زبان ہے۔ اس کا سیکھنا اس کی نشرواشاعت ہمارا قومی فریضہ ہے۔ہر زبان کی کچھ کہاوتیں اور ضرب الامثال زبان زد عام ہوتی ہیں۔

اس وقت اردو کی کچھ کہاوتیں اور محاورے آپ کے لیے پیش خدمت ہیں۔

لیکن پہلے

 کہاوت اور ضرب المثل کی تعریف۔

 کسی واقعے کا نتیجہ جو لگے بندھے الفاظ میں بطور مثال بیان کیا جائے۔کوئی فقرہ شعر یا مصرع جو زندگی کے کسی خاص اصول یا حقیقت یا رویے کو خوبصورتی سے جامع انداز میں بیان کرے اور ہم آپ اسے ترجمانی کے لیے استعمال کرنے لگیں کہاوت کہلاتا ہے اور اسی کو عربی میں ضرب المثل کہتے ہیں۔

 کچھ ضرب الامثال:

 ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا،

،خوش آمد بری بلا ہے

،چور کی داڑھی میں تنکا

 جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ،

ایک انار سو بیمار وغیرہ

 محاورہ یہ ہے کہ کسی مصدر کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی میں استعمال کیا جائے مثلاً

بات کا بتنگڑ بنانا، اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، اپنا الو سیدھا کرنا وغیرہ۔

قارئین! اس وقت آپ کو اپنی ڈائری 2025 کا پہلا ورق دکھانا چاہتی ہوں جس کو میں نے ،آدھی مسکراہٹ، کا نام دیا ہے۔ اس ورق پہ بیتے برس کی کچھ کیفیات درج ہیں محاورات/ضرب الامثال کے پیرائے میں۔

یہ کیفیت چشم فلک کے حصے میں آئی گو کہ فلک کی نہ چشم ہے نہ دندان مگر بات ہی کچھ ایسی ہے اور وہ یہ ہے کہ غزہ کا چپہ چپہ چھان مارا اسرائیلی فوجیوں نے۔ سڑک میدان مارکیٹ سکول کالج ہسپتال رہائشی عمارات سبھی کچھ کو بھسم کر دیا۔۔۔مگر۔۔۔۔ وہ حقیقت جس پہ چشم فلک بیتے برس  سارا برس پلک جھپکے بغیر انگشت بدنداں رہی وہ یہ ہے کہ حماس آج بھی موجود ہے۔ اور غزہ سے اٹیک کر رہی ہے اسرائیل پہ۔

 یہ کیفیت اسی خطے کی مظلوم قوم کے حصے میں آئی۔ درندوں کے ایک گروہ نے انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار، اپنے باپ کے ایماء پر اس قوم کا لہو پیا اور خوب چسکے لے کے پیا۔ چشم فلک نے پہلی بار دیکھا کہ ورثاء اپنے بچوں کا گوشت شاپروں میں ڈال کر لے جا رہے ہیں یعنی خون تو درندے پی گئے لیکن گوشت کے ٹکڑے ورثاء کے حوالے کر دیے۔

کی کیفیت سے دو چار رہے پی ٹی آئی ورکرز  کہ کال ہوتی ہے دھرنے کی اور خود لیڈرز بھاگ اٹھتے ہیں۔ بیانیہ ہوتا ہے امریکا دشمنی کا اور رہائی پانا چاہتے ہیں اسی کا کندھا استعمال کر کے۔

 اور ۔۔۔۔۔ مندی کا رجحان رہا  اخلاقیات، تہذیب اور ثقافت کی سٹاک ایکسچینج میں۔ شوبز کے شو پیسز ۔۔۔۔میرا مطلب ہے، ستاروں نے شیئرز بھی خوب خریدے، بولی بھی لگائی۔ بولی (غیروں کی) سیکھی بھی خوب مگر رجحان تھا کہ مندی ہی کا رہا۔۔۔  اور  سرمایہ تھا کہ ڈوبتا ہی گیا

 2024 میں سب سے زیادہ بدنامی جس شخصیت کے حصے آئی۔۔۔۔ جس کا نام ہر کسی کو پتہ چل گیا،  کون ہے بھلا؟  ہمارے سروے کے مطابق جواب ہے: نیتن یاہو۔ پوری دنیا میں موصوف کو ہر خاص و عام پہچاننے لگا ہے۔ ابھی ایک دیہاتی خاتون ہمارے پاس بیٹھی تھی۔ ٹی وی پر نیتن یاہو کو دیکھا، برجستہ کہ اٹھیں لخ دی لعنت ای۔۔۔

   جوں(lice)  ایک چھوٹا سا کیڑا ہے کسی کے سر میں بسیرا کر لے تو اس کیڑے کے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ہاں مگر جس کا سر ہوتا ہے اس بیچارے کے ناخن مستقل مصروف رہتے ہیں۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ مغربی و یورپی فرعونوں کے گرد و پیش میں جوؤں کی خاصی قلت رہی جبھی تو دنیا بھر کے عوام کی صدائے احتجاج اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سن سنا کر بھی ان کے کان پر نہیں رینگی۔۔۔ کون۔۔۔ یہی اپنی جوں۔۔۔۔ اور کون۔۔

ہم دعا گو ہیں وہاں اس علاقے میں جوؤں کی کثرت ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔ پھر شاید وہ موقع آئے کہ مظلوم و مجبور اقوام کی بھی سنی جائے۔

کچھ محاورے گزرے برس عملی طور پہ غلط ثابت ہوئے مثال کے طور پہ

بڑی بڑی شوز کمپنیاں اور خاص طور پہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چیخ اٹھیں کہ اس ضرب المثل کے عملی ظہور کے باعث ہماری سیل متاثر ہوتی ہے۔لہذا اب جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں وہ بڑے بڑے شوز۔۔۔۔ مہنگے۔۔۔ اعلیٰ برانڈ کے جوتے پہنتا ہے۔۔۔۔ بڑی جرات سے سفر کرتا ہے۔ اور دوسروں کوsufferکراتا ہے۔۔

تو اب یوں پڑھا جائے، جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں۔۔۔

ایک اور ضرب المثل ہے

اس کا مطلب بھی قارئین جانتے ہیں کہ چیز کم ہو اور ضرورتمند زیادہ ہوں تب یہ محاورہ بولتے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں نا کہ مہنگائی نے اگلے پچھلے سارے ریکارڈز توڑ ڈالے ہیں۔ لہذا اب 2025 میں یہ ضرب المثل کچھ یوں پڑھی جائے گی،ایک انار دو سو بیمار

اس کا مطلب بھی آپ جانتے ہیں بالیقین۔ مگر ہوا یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کہتے ہیں کہ ہمارے دانت ریوڑیاں نہیں چبا سکتے، یوں بھی ہمیں چپس شوارما برگر پسند ہے اس لیے اندھے سے درخواست کی جائے کہ بانٹنے کے لیے نئی نسل کی پسندیدہ چیز کا انتخاب کرے۔ تو قارئین! مستقبل کے معماروں کی خاطر  اب یوں پڑھا جائے گا ،اندھا بانٹے برگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،

ڈائری کے کسی اور ورق کو آپ کے سامنے  پیش کیا جائے گا پھر کبھی۔ امید ہے فی الحال انہی محاورات/ضرب الامثال کو یاد  کریں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ایک تبصرہ برائے “جی ہاں! جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں”

  1. Madiha Avatar
    Madiha

    Bat to sach Hy mager
    Bat Hy ruswai ki🙁

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے