خواجہ سعد رفیق منجھے ہوئے سیاسی لیڈر ہیں۔ ان کا تعارف صرف یہی نہیں ہے کہ وہ خواجہ رفیق شہید کے بیٹے ہیں۔ چالیس سال سے زائد سیاسی کیرئیر کے ساتھ وہ اپنی ذاتی شناخت اور قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے لاہور میں عمران خان کا اس وقت کامیاب مقابلہ کیا جب اسٹیبلشمنٹ کی تمام اکائیاں عمران خان کی پشت پر کھڑی تھیں۔
لاہور کی سیاست میں خواجہ سعد رفیق اور جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ دو ایسے نام ہیں جنہیں ان کی سیاسی جماعتوں نے بار بار تجربات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس کے باوجود دونوں نے کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔ دونوں ہی طلباء سیاست کی بھٹی سے نکل کر عملی سیاست میں نکھر کر سامنے آئے تھے۔
ہمارا مطالعہ یہ ہے کہ سعد رفیق اور سلمان بٹ مرحوم کو اگر قومی افق پر پرواز کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے تو یہ قدرتی اور باصلاحیت لیڈر بڑے بڑوں کی سیاست کا بوریا بستر گول کر دیتے۔ بدقسمتی سے ان کے ٹیلنٹ سے خوفزدہ اپنوں نے ہی ان کے پر تراش کر رکھے۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے المیوں سے بھری پڑی ہے۔
گزشتہ دنوں اپنے والد خواجہ رفیق شہید کی برسی میں خواجہ سعد رفیق نے لگی لپٹی کے بغیر گفتگو کی۔ انہوں نے وہ باتیں کہیں جو ہم عرصہ سے کہتے آ رہے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں ’ ملک میں جمہوریت آزاد نہیں بلکہ کنٹرولڈ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کنٹرولڈ سے فوری طور پر مراد فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول لے لیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت فوجی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی لیڈروں اور عدلیہ کی طرف سے کنٹرول کی جاتی ہے۔‘
فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا کنٹرول عام فہم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائد بھی اپنی سیاسی جماعت میں جمہوریت پروان نہیں چڑھنے دیتے۔ پارٹی میں ان کی بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم ہوتی ہے اور وہ اسے ذاتی جاگیر تصور کرتے ہیں۔ لیڈروں کی گرفتاری یا منظر سے غائب ہونے کے بعد فیصلہ سازی اور پارٹی لیڈ کرنے کا حقیقی اختیار بھی پارٹی کے دوسرے ذمہ داران کی طرف منتقل ہونے کی بجائے ان کے خاندان کے افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں میں جمہوریت اپنی روح کے مطابق موجود نہیں ہو گی تو ملک میں جمہوریت کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ اور جب سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لیڈروں کی باندی ہو گی تو پھر کسی غیر سیاسی قوت کو جمہوریت یرغمال بنانے یا ڈی ریل کرنے کا الزام کیسے دیا جا سکتا ہے؟
ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ورکرز کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی یا انہیں بولنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ’آزاد ذہن اور زبان دراز‘ ورکرز کو گستاخ تصور کرکے انہیں نشانے پر رکھا جاتا ہے اس رویے کی موجودگی میں وہ زبان کھولنے سے گریز کرتے ہیں اور خاموشی ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اس ماحول کی وجہ سے ممکن ہے لیڈروں کے مقاصد پورے ہو جاتے ہوں لیکن ایسی جماعتیں عوامی رہنمائی سے یکسر محروم ہو جاتی ہیں جس کا خمیازہ انہیں جلد یا بدیر بھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوریت موجود نہیں یا کنٹرولڈ ہے پپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم ، جمعیت علمائے اسلام ، ٹی ایل پی ، عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ میں جمہوریت کا گریبان انکے لیڈروں کے ہاتھ میں رہتا ہے
جماعت اسلامی میں مرکزی امیر اور شوراوں کی سطح پر جمہوری روایت موجود ہے لیکن صوبائی، ضلعی، زونل اور مقامی سطح پر جمہوری عمل بالائی امیروں کی صوابدید کا محتاج ہے۔
جماعت اسلامی کا انتخابی عمل بظاہر شفاف اور جمہوری نظر آتا ہے لیکن اس میں موجود نقائص کی وجہ سے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی مثالیں بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہیں جو شفاف جمہوریت کے ساتھ بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتیں لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت بھی حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں آزادانہ عام انتخابات کی بات کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں کے اندر آزاد انتخابی عمل بالکل موجود نہیں ہے۔
خواجہ سعد رفیق کی طرح حافظ سلمان بٹ مرحوم بھی دبنگ سیاسی لیڈر تھے۔ وہ جب پہلی مرتبہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر بنائے گئے تو انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جماعت اسلامی میں بھی اسٹیک ہولڈرز آ گئے ہیں۔
اپنی آزاد سوچ اور دبنگ طبعیت کی وجہ سے حافظ سلمان بٹ اور خواجہ سعد رفیق ہمیشہ معتوب رہے ہیں۔
پاکستان کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں قدرتی لیڈرشپ کی پرورش کے تمام دروازے بند رکھے جاتے ہیں۔ اپنے زور بازو پر کوئی اٹھنے کی غلطی کر بیٹھے تو اسے گرانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔
ہمارے نزدیک ملک کی خیر خواہی یہی ہے کہ جمہوریت کا گلا دبانے کی ہر روایت ختم کر دی جائے، تمام سیاسی فورمز میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو آزادی فراہم کی جائے تاکہ مصنوعی قیادتیں مسلط کرنے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے اور روٹ لیول سے ہی قدرتی لیڈرشپ پروان چڑھ کر قومی سیاست میں پرفارم کر سکے۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو کچھ تبدیل نہیں ہوگا، سیاست اور جمہوریت کا رونا دھونا یونہی چلتا رہے گا۔
تبصرہ کریں