تین دن قبل پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ضلع دیر سے تعلق رکھنے والا شریعہ اینڈ لاء میں ساتویں سمسٹر کے طالب علم ضیاء الدین، زندگی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے لگا۔ اس واقعے سے تعلیمی اداروں سمیت پورے کے پی کے میں سخت تشویش پھیل گئی۔ مذکورہ نوجوان خودکشی سے قبل ایک مختصر خط میں اپنے والد سے مخاطب ہوا تھا کہ "ابا جان میں ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ہوں جو کہ مزید میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اس دنیا سے میرا دل سیر ہو چکا ہے۔ میں کسی کے عشق میں مبتلا ہوں نہ ہی کسی اور علت میں پڑ چکا ہوں۔ ایسی کوئی بات نہیں لیکن اس کے باوجود میں مزید زندہ رہنا نہیں چاہتا میں اس معاشرے میں نہیں رہ سکتا”۔ واقعے کے بعد کے پی کے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے خصوصی تحقیقات کا حکم دیا تاکہ مذکورہ اندوہناک واقعے کے محرکات کا درست پتہ چل سکے۔
جوانی زندگی کی بہار ہوتی ہے۔ اس میں ذہانت ابھرتی ہے، حسن نکھرتا ہے، طاقت آتی ہے، امیدیں جاگ جاتی ہیں اور نوع بہ نوع جذبے اور عزائم وجود کے اندر انگڑائی لیتے ہوئے اظہار کے مختلف راستے ڈھونڈتے ہیں۔
جوانی زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کو تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونے کے لیے گویا قدرت کی جانب سے مختص کیا گیا ہے۔ یہ "پارٹ آف لائف” ذہنی، جسمانی، روحانی اور اخلاقی نشوونما کے لیے موزوں ترین نیز زندگی کے مقاصد متعین کرنے مزید برآں اپنے خاندان کے لیے امید بن کر چمکنے کا ہوتا ہے۔
جوانی کا دور مسلسل سیکھنے، خوش رہنے اور ذمہ داری سے کچھ نہ کچھ برتنے کا ہوتا ہے۔ نہ جانے ایک جوان کتنی آرزوں اور تمناؤں کا مرکز ہوتا ہے؟ ہر جوان سے اس بات کا احساس لازم ہے۔ ایک بچے کو جوانی تک پہنچانے میں کتنی محنتیں، محبتیں، شفقتیں، آرزوئیں اور تمنائیں بروئے کار آتی ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان کا کوئی حساب کتاب نہیں۔
لیکن افسوس! کہ مملکت خدا داد پاکستان میں غربت، جہالت، خام تربیت، بے روزگاری اور غیر محفوظ سماجی اور پیچیدہ سرکاری ڈھانچے، اوپر سے جدید ترین اسلحے اور انٹرنیٹ تک اسان رسائی اور بے قید استعمال نے نوجوانوں کو ذہنی، اخلاقی، روحانی اور جذباتی بحران میں بری طرح مبتلا کر رکھا ہیں۔ حکومت اور معاشرہ دونوں نوجوانوں کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں نوجوان طرح طرح کے جرائم، شدّت پسندی اور منشیات جیسی علتوں میں بری طرح گرفتار ہو چکے ہیں۔
محسوس ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے اوقات، اذہان اور جذبات پر اب مزکورہ بالا خرابیوں نے مکمل طور پر قبضہ جما لیا ہیں۔ نسل نو کو اوقات کا احساس ہے نہ ہی اپنے جذبات پر قابو۔ اس کے ذہن، زبان، جسم، جذبات بلکہ حرکات و سکنات تک بے قابو ہو رہے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہم نے کرنا کیا ہے اور ہم سے ہو کیا رہا ہے؟؟؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک نئے انقلاب کی دستک دے گئی ہے لیکن ہمارے نوجوان اس سے محض "سستی تفریح” کے خاطر جڑ گئے ہیں۔ وہ اس طاقتور ذریعے سے اپنی تعلیم، پیشے، آگہی اور دنیا سے تعمیری ربط و ضبط بڑھانے میں مدد لینے کے بجائے اسے محض "شغل مشغلے” کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
نوجوان سماج سے کٹ رہے ہیں اور سماج کو گویا کاٹ رہے ہیں۔ روزانہ ہی نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ ملک بھر میں ایسے آندوہناک واقعات اور مظاہر سامنے آرہے ہیں جن سے پوری قوم صدمے اور اذیت سے دو چار ہوتی رہتی ہے۔
نوجوانوں کے بارے میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اب حکومت، اہل دانش، اداروں اور پوری قوم کو مل کر متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم چند تجاویز رکھتے ہیں ممکن ہے اس میں سوچنے سمجھنے کے لیے کچھ نہ کچھ سامان میسر آئے!
1: سب سے پہلے روزگار کے معاملے کو لینا چاہیے۔ روزگار اطمینان کا سب سے بڑا ذریعہ جبکہ بے روزگاری بے چینی کا سب سے طاقتور سبب ہے۔ تعلیم یا ہنر اور پھر روزگار کی فراہمی وہ بنیادی فرض ہے جس سے حکومتیں کسی صورت عہدہ برآں نہیں ہو سکتی۔ عام شہری اگر صبح سویرے اٹھیں، نہا دھوئیں، صاف ستھرے کپڑے پہنیں، نماز پڑھیں، اللہ کا ذکر کریں، اس سے دعا مانگیں، سکون سے ناشتہ کریں، اخبار دیکھیں، بچوں سے پیار کریں، بچوں کی ماں کو سیلوٹ ماریں اور پورے اطمینان قلب سے دفتر یا کام کے کسی دوسرے مقام کا رخ کریں تو مجھے یقین ہے ایسے عالم میں پھر لوگ مسائل پیدا کریں گے اور نہ ہی کسی طرح کے مسائل میں پڑنا پسند کریں گے۔ ایسے شہری ہمیشہ پر امن، قانون پسند، خوش اخلاق، مہذب، نرم خو اور کارامد ثابت ہوتے ہیں۔
2: اس کے بعد حکومت کو چاہیے کہ سزا و جزا کا ایک مضبوط اور قابل اعتبار نظام لاگو کریں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مجموعی طور پر ایک تیز، شفاف، فعال اور انصاف کی روح سے مالا مال عدالتی نظام بھی لمحوں کی تاخیر کئے بغیر روبہ عمل لائے۔ انصاف میں تاخیر ایک طرف لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے تو دوسری طرف یہ ظالم میں مستی اور مظلوم میں مایوسی بھی پیدا کر رہی ہے یہ دونوں بے حد خطرناک انسانی کیفیات ہیں۔ انصاف ہمیشہ سستہ اور فوری ہونا چاہیے۔ عمومی فضاء ایسی ہونی چاہئے کہ کسی کے لیے بھی دوسرے کا حق کھانا یا دبانا ممکن ہی نہ ہو اور فرائض کی ادائیگی مکمل ایمانداری اور خلوص سے معمول بلکہ مزاج بن جائے۔ اس طرف اہل دانش، علماء، اساتذہ اور سیاسی پارٹیوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کی صحتمندانہ تربیت میں ایک ناقابل عبور خلا رہ گیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تربیت میں موجود خلا ہمیشہ اخلاقی اور سماجی جرائم اور سانحات کو جنم دیتا ہے۔ اس سلسلے میں خاندان کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے اسے بھی اب کڑی نظر رکھنا چاہیے۔ جوان بچوں کی نگرانی اور ان کے بروقت رشتوں کا اہتمام لازمی امور ہیں جن میں غفلت تباہی کا پیش خیمہ ہے۔
3: قصور واقعے نے (جس کے قصور وار کو چند روز قبل پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہے سزا کے عمل نے ثابت کیا کہ ملک میں ابھی انصاف مرا نہیں) ہر دل زخمی، ہر آنکھ آشکبار اور روح کو تڑپا دیا ہے لیکن یہ ایک واقعہ تو ہے نہیں منحوس واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے جس نے ملک بھر کا احاطہ کیا ہوا ہے ضروری ہے کہ اب معاشرہ اپنے نوجوانوں کو توجہ دیں۔ عمران علی یا اس جیسے دیگر افراد کو درندے قرار دیکر صرف عبرتناک سزا دینے کے مطالبات سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے اگر چہ سزا بھی ضروری ہے لیکن اصلاح احوال کے لیے اس سے زیادہ اور بڑے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ قصور واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں۔ اس واقعے میں ملوث فرد کے تعلیم، روزگار، ماحول، تربیت، سرگرمیوں، صحت، سماجی حیثیت، دینی تصور اور طرز زندگی پر تحقیق کرنی چاہیے۔ انسانی حالات اور نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہیں چیزیں انسان پر سب سے زیادہ اثر انداز رہی ہیں۔ میرا اندازہ ہے عمران علی اس ملک میں لاکھوں نوجوانوں کا نمائندہ تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس جیسی زندگی اور اخلاقیات کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کی زندگیوں، حالات اور رجحانات کو ٹھیک کرنا کیا معاشرے کی ذمہ داری نہیں؟ سیاسی زعماء کو بیانات کے مقابلے اور قوم کو چند وقتی شور شرابوں سے نکل کر اب حالات کا پورے اخلاص، گہرائی اور عقلمندی سے جائزہ لے کر اصلاح احوال کیلیے کمر بستہ ہونا چاہیے اس سے زیادہ دکھ کی بات اور کیا ہوگی کہ جرائم ہماری اجتماعی زندگی کا معمول بن گئے ہیں۔ کیا دیہات کیا شہر، کیا دن کیا رات، کیا سکول کیا یونیورسٹی، کیا بازار کیا گراونڈ، کیا ہجوم کیا تنہائی، کیا پیسہ کیا جنس، کیا سیاست کیا تجارت، کیا میڈیا، کیا شوسل میڈیا، غرض جرم نے ہر قام مقام کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ہر طرف ہوس ہے، ہر جانب اندھیرا ہے، ہر کوئی نشانے پر ہے۔
4: اجتماعی احساس، ادراک اور ذمہ داری کے ذرائع سے کام لے کر اور سب مل جل کر اپنے معاشرے کو جرائم کی لعنت سے پاک کرنے کے لیے ایک مشنری جذبے سے کام کی ضرورت ہے۔ آئیے معاشرے کو اصلاح، تعمیر، نیکی اور خیر کے ٹریک پر ڈھالیں۔ ہم میں سے ہر ایک خواہ وہ کسی بھی حیثیت، دائرہ کار اور مقام پر موجود ہے وہ خود کو ذمہ دار سمجھے اور اپنی ذمہ داری نبھائے۔ حکومت، اداروں، معاشرے اور نوجوان نسل کے درمیان لمبے فاصلے حائل ہوگئے ہیں۔ ایک نوجوان (عمران علی) برسوں غلیظ طرز عمل میں مبتلا رہا لیکن حکومت، اداروں اور معاشرے نے کوئی نوٹس نہیں لیا انہیں تب پتہ چلا جب انسانیت سوز جرم نے خود چیخ چیخ کر پکارنا شروع کر دیا۔ میرا پختہ خیال ہے قصور واقعہ "ارادتاً” نہیں بلکہ "اتفاقاً” منظر عام پر آیا اس کے سامنے لانے میں ہماری ارادی کوششوں کو کم اتفاقی حالات کو زیادہ عمل دخل حاصل ہیں اس طرح کے واقعات بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں وقت کے گرد اور حالات کی جبر میں روز گم ہو جاتے ہیں۔
ذرہ سوچیے تو سہی جب ایک آدمی حیوانیت کے سب سے نچلے درجے میں گر جاتا ہے تب ہم چیخ و پکار اور مار دھاڑ سے فضا میں وقتی طور پر ارتعاش پیدا کر کے مختصر وقفے کے بعد دوبارہ اپنے اپنے معمولات کی طرف لوٹ جاتے ہیں یہاں تک کہ دوسرا کوئی اندوہناک واقعہ ہمیں دوبارہ جنجھوڑ دیں۔
معاشرہ بزبان حال بھی اور بزبان قال بھی ہمیں چیخ چیخ کر یہ دہائی دے رہا ہے کہ ہم من حیث القوم غفلت اور بے حسی چھوڑ کر احساس، ذمہ داری اور اصلاح کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کی جانب رخ کریں۔ معاشرہ بہت تیزی سے اس حالت کی جانب گامزن ہے جس حالت میں یہ رہنے کا قابل نہیں رہے گا۔ اب وقت آیا ہے کہ حکومت، ادارے، معاشرہ، خاندان، سیاسی جماعتیں اور عوام و خواص سب مل کر اپنی انفرادی اور اجتماعی حالت کو درست کرنے کا بھاری پتھر اٹھا لیں ورنہ اس کے نیچے آکر ہم سب کچل جائیں گے ہمارے پاس کچلے ہڈیوں، جلے آرزوں اور سوختہ ارواح کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔
تبصرہ کریں