محمود الحسن
ماؤں کے دل محبت سے معمور ہوتے ہیں۔ ان کی اولاد سے محبت کے ہزار شیوے ہیں۔ ایک شیوہ خاص جس پر سالِ نو میں اپنی پہلی تحریر لکھنے کا خیال آیا وہ بچوں کے کھانے دانے کے بارے میں فکر کرنا ہے۔
اس پہلو پر غور کرنے سے ذاتی زندگی سے بہت سے واقعات ذہن کی لوح پر منور ہو جاتے ہیں، لیکن خاکسار انہیں رقم کرنے سے حذر کرتا ہے اور آپ کو مختلف سرزمینوں کی چند کہانیاں سناتا ہے۔
’سُوئے مادر آ کہ تیمارت کُند‘
ہمارے ہاں یہ بات معروف ہے کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یہ بات ان کی تکریم کے واسطے دہرائی جاتی ہے، لیکن ان کے بہت سے خصائل بھی مشترک ہوتے ہیں جن کی بنا پر یہ رشتہ سب رشتوں میں ممتاز ہے۔
ماں کی محبت کے تعلق سے بات عربی کے معروف شاعر نزار قبانی سے شروع کر لیتے ہیں۔ ان کی یادداشتوں، انٹرویوز اور نظموں کا ایک خوبصورت مجموع ابو عمش کے تراجم کے ساتھ 2017 میں شائع ہوا تھا، جس نے میرے دل کو موہ لیا تھا۔
آج اس کتاب کی طرف رجوع کرنے کا مقصد نزار کے اپنی ماں کی بارے میں خیالات ہیں۔ وہ ان کو چشمۂ عاطفہ کہتے ہیں۔ جن کی عطا بے حساب تھی۔ بیٹے کے برسرِ روزگار ہونے پر انہیں اس کے کھانے کی فکر کھائے جاتی تھی۔
نزار قبانی نے لکھا:
’ میں نے دنیا کے تمام براعظموں کا سفر کیا، لیکن انہیں ہمیشہ میرے کھانے پینے اور میرے بستر کی صفائی ستھرائی کی فکر دامن گیر رہتی۔ دمشق میں جب گھر کے افراد دسترخوان پر بیٹھتے تو وہ مجھے یاد کرتے ہوئے کہتیں: ’پتا نہیں دیارِ غیر میں اس کے کھانے پینے کا کوئی خیال بھی رکھ رہا ہوگا یا نہیں؟‘۔ فطری طور پر میں وہی بچہ ہوں۔ طویل عرصے تک وہ دمشقی کھانوں کے پارسل اُن سفارت خانوں کو بھیجتی رہیں جہاں میں کام کرتا تھا، کیونکہ انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا تھا کہ شہر دمشق سے باہر بھی ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جنہیں انسان کھا سکے‘۔
نوبل انعام یافتہ مصنف آئزک باشیوس سنگر کے سوانحی ناول ’اے ینگ مین ان سرچ آف لو‘ کا ترجمہ مشیر انور نے ’محبت کا متلاشی ایک نوجوان‘ کے عنوان سے کیا تھا۔
گھر سے دوری پر نوجوان کے بارے میں ماں باپ کی فکر کی مختلف سمت کا اندازہ ناول کے اس ٹکڑے سے ہو سکتا ہے:
’اپنے خطوط میں میرے والد متواتر مجھے ایک یہودی کی طرح زندگی بسر کرنے کی تلقین اور تنبیہ کرتے کہ خدا نہ کرے میں کبھی اپنے ورثے کو فراموش کروں یا عزتِ میراث سے کھیلوں۔ اس کے برعکس میری والدہ بار بار کہتیں کہ میں اپنی صحت کا خیال رکھوں، زکام سے بچوں، وقت پر کھاؤں، جلدی سوؤں اور حد سے زیادہ کام سے اجتناب کروں‘۔
اب کچھ ذکر ملیالم زبان کے منفرد کہانی کار ویکوم محمد بشیر کی لاجواب کہانیوں کا جنہیں مسعود الحق نے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا تھا۔ ان میں سے بعض تو میری یادداشت کا مستقل حصہ بن گئیں جن میں ’فاطمہ کی بکری‘، ’بچپن کی دوست‘ اور ’ماں‘ شامل ہیں۔ مؤخر الذکر کہانی ہمارے آج کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے۔
’ماں‘ میں گاندھی جی کی محبت میں گرفتار اور آزادی کا تمنائی نوجوان جیل میں ہے اور ماں اس کی راہ دیکھتی ہے۔
رہائی کے بعد بیٹے کے گھر پہنچنے کا منظر، ویکوم محمد بشیر نے کچھ یوں بیان کیا ہے :
۔۔۔یہ نصف شب کے بعد تقریباً 3 بجے کا وقت تھا۔ گھر پر جب احاطے میں داخل ہوا تو ماں نے کہا ،’کون ہے؟‘، میں برآمدے میں داخل ہو گیا۔ ماں نے لالٹین جلائی اور یوں سوال کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، ’بیٹے تم نے کچھ کھایا ہے؟‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں بے انتہا تھکا ہوا تھا اور بالکل پست ہو چکا تھا۔ سانس لینا بھی دشوار معلوم ہوتا تھا۔ ساری دنیا محو خواب تھی، صرف میری ماں جاگ رہی تھی۔ ماں جلدی سے جاکر میرے لیے ایک لوٹے میں پانی لائی اور بولی، ’بیٹے! تم ہاتھ پیر دھو لو‘، اس کے بعد اس نے میرے سامنے ایک پلیٹ میں چاول رکھ دیے۔
اس نے مجھ سے کچھ کہا نہیں۔
مجھے حیرانی تھی۔’ماں! تمھیں کیسے معلوم تھا کہ میں آج آ رہا ہوں؟‘
ماں نے جواب دیا ،’ارے۔۔۔ میں روز چاول پکاتی ہوں اور ہر رات تیرا انتظار کرتی ہوں‘۔
یہ ایک سیدھا سادا معصوم سا بیان تھا۔ ہر رات میں نہیں آیا مگر ماں میرے انتظار میں جاگتی رہی۔
30 سال گزر چکے ہیں۔ بہت کچھ ہوا ہے۔
مگر مائیں ابھی تک اپنے بیٹوں کا انتظار کرتی ہیں۔
’بیٹے! میں تمھیں بس دیکھنا چاہتی ہوں‘۔
بیٹوں کو کھانا دینے کے لیے رت جگے کی ایک روایت اشفاق احمد نے بھی بیان کی ہے۔ وہ ادبی مجلسوں سے رات گئے گھر واپس لوٹتے کیونکہ ان کے خیال میں وہ ادیب بن رہے تھے اور ادیب لوگ رات کو دیر سے ہی گھر آتے ہیں۔ جب تک نورِنظر نہ آتا ان کی اماں جی تشویش میں مبتلا بیدار ہی رہتیں۔
اشفاق احمد کے بقول ’جب تک میں نہ آتا وہ چارپائی پر جھوٹ موٹ سوئی ہوئی کچھ پڑھتی رہتیں۔ جب میں آتا تو وہی اٹھ کر دروازہ کھولتیں اور وہی جلدی سے توا ڈال کر میرے لیے گرم گرم روٹی پکاتیں۔ میں نے ٹی ہاؤس سے اور کافی ہاؤس سے بہت کچھ کھایا ہوتا، لیکن اماں کی خوشنودی کے لیے مجھے ان کے پاس چوکی پر بیٹھ کر باقاعدہ کھانا کھانا پڑتا‘۔
ادب کے حوالوں کی بیچ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بشن سنگھ بیدی کی سوانح عمری ’بشن، پورٹریٹ آف اے کرکٹر‘ کا خیال آرہا ہے جسے معروف کرکٹ رائٹر سریش مینن نے لکھا ہے۔ ماں کے مرنے سے پہلے ان کے جو آخری الفاظ بیدی کے کان میں پڑے وہ یہ تھے کہ ’تم نے کھانا کھا لیا ہے؟‘۔
ہم نے اپنی بات نزار قبانی سے شروع کی تھی اور اسے ختم بھی عربی کے ممتاز شاعر محمود درویش کی ’والدہ کے لیے نظم‘ پر کر رہے ہیں، جس کا ترجمہ فاروق حسن نے کیا ہے:
میں ماں کے ہاتھ کی روٹی کے لیے ترستا ہوں
اور اس کی بنائی ہوئی کافی کے لیے
اور اس کے ہاتھ کے لمس کے لیے
اور بچپن میرے اندر پھلتا بڑھتا ہے اور
ہر دن دوسرے دنوں کی چھاتی پر پلتا ہے
اور میں زندہ رہنا چاہتا ہوں
اس لیے کہ اگر میں مر گیا
تو اپنی ماں کے آنسوؤں سے
مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا۔
اگر کسی روز میں واپس آجاؤں،
مجھے اپنی پلکوں کے لیے نقاب بنا لینا،
اور میری ہڈیوں کو گھاس کا لباس پہنا دینا
جسے تمھاری ایڑی کی تقدیس کا بپتسمہ دیا گیا ہو
اور میری بیڑیوں کو اپنی زلفوں میں
ایسے جکڑنا کہ تمھارے لباس میں سے ایک دھاگا
نظر آتا رہے ۔
ممکن ہے میں لافانی ہو جاؤں
یا دیوتا بن جاؤں
اگر تمھارے دل کی گہرائی کو چھو لوں۔
اگر میں واپس لوٹ آؤں، مجھے اپنے
چولھے کا ایندھن بنا لینا
یا اپنے گھر کی چھت پر کپڑے لٹکانے کی ڈوری
کیونکہ تمھاری روز کی دعا کے بغیر
میں اپنا مقصد بھول گیا ہوں
مجھ ناکارہ و ناتواں کو۔۔۔ آہ، اپنے بچپن کے
نجوم کے خاکے دوبارہ لادو
تاکہ میں جوان ابابیلوں کی رفاقت میں
واپسی کا راستہ ڈھونڈ لوں
تمھارے انتظار کے گھونسلے تک
پہنچنے کے لیے۔
تبصرہ کریں