جب زندگی تنگ محسوس ہو رہی ہو، جب ہر طرف سے ایسا لگ رہا ہو کہ جیسے دنیا ختم ہو چکی ہے، اب ہمارا کوئی پرسان حال نہیں، تو انسان پر یہ کیفیت آتی ہے اور وپ خودکشی کرنے چل نکلتا ہے۔ زندگی کے اندر کچھ مشکلات انسان کو ایسے گھیر لیتی ہیں اور اس پر حالات اس طرح سے تنگ ہو جاتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ بس میری زندگی کا خاتمہ ہو گیا، میرے لیے اس دنیا میں کچھ نہیں۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے، جس میں جاکے لوگ خودکشی کرتے ہیں۔
انسان بہت کمزور واقع ہوا ہے، جب اس کے دل میں خوف اور مایوسی بیٹھ جاتی ہے تو وہ روحانی طور پر تو کمزور ہو ہی جاتا ہے، نفسیاتی اور جسمانی طور پر بھی بیمار پڑ جاتا ہے۔ پھر اس کا دل برے برے خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے، خودکشی کی طرف ذہن مائل ہونے لگتا ہے۔ یہ مایوسی کی وہ علامات ہیں جو شیطان انسان کے دل میں بیٹھ کر پیدا کرتا رہتا ہے۔
خودکشی حرام موت ہے۔ جو لوگ اپنی جان خود لے لیتے ہیں۔ کوئی ٹرین کے نیچے آکے، کوئی زہر پی کے، کوئی خود کو گولی مار کے، گلے میں پھندا ڈال کر اور پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرتا ہے۔ ایسی موت کی تمنا کرنا بھی گویا اللّٰہ تعالٰی کی رحمتوں سے مایوس ہو جانے کا عکاس ہے۔
اگر انسان پر ذلت یا غریب، بےبسی، لاچاری اور یا ظلم و ستم مسلط کیا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو لاچار اور بےبس شمار کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دے۔ کیا اس طرح مصیبت سے نکلا جاسکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیے
دنیا بھر میں خود کشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کے سدباب کے طریقے
جہانگیر ترین کے بھائی عالمگیر ترین نے خود کشی کیوں کی؟
اس طرح اللّٰہ تعالٰی سے انسان نے جو اچھا گمان رکھنا تھا، اسے ختم کر دیا۔ جب تک بندے کو خدا سے امید باقی رہتی ہے، وہ خودکشی نہیں کرتا، اس وقت تک وہ اس انتہائی اقدام کی طرف نہیں جاتا۔ اور جب وہ گمان اچھا رکھتا ہے تو رب العالمین اس کے ساتھ پھر معاملہ بھی ویسا ہی کرتا ہے۔ اس لیے اگر آپ غور کریں کہ جو لوگ خودکشی کرتے ہیں، آپ ان کی فہرست نکال لیں، اگر ان سب کا بائیو ڈیٹا چیک کریں تو یقین کیجیے کہ ان ہزاروں لوگوں میں سے کوئی دین کو اچھی طرح سے جاننے والا نہیں ملے گا، اللّٰہ تعالٰی کی معرفت رکھنے والا نہیں ملے گا۔ اس فہرست میں اللّٰہ تعالٰی سے حسن ظن رکھنے والا آپ کو نہیں ملے گا۔ کیوں؟ کیا دین کا اچھا علم رکھنے والوں کے حالات خراب نہیں ہوتے؟
یہ جو مہنگائی ہے، یہ جو گھر کی پریشانیاں ہیں اور جو بیوی بچوں کے مسائل ہیں، کیا یہ مشکلات دین داروں کے گھروں میں نہیں ہوتیں؟ ہوتی ہیں لیکن وہ خودکشی نہیں کرتے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس لیے کہ اللّٰہ تعالٰی سے انہیں اچھے کی امید ہوتی ہے، خدا سے اچھا گمان ہوتا ہے۔ اور یہ جو لوگ خودکشی کرنے والے ہیں، اگر دیکھا جائے تو ان کی ساری کی ساری تعداد دین سے دور لوگوں کی ہوگی، جو اللّٰہ تعالٰی سے دور ہوں گے، جن کا اللّٰہ تعالٰی سے تعلق بڑا کمزور ہو گا اور خدا کی رحمت پہ ویسا بھروسہ ہی نہیں ہوگا جیسا ایک بندہ مومن کو ہونا چاہیے۔
مزید برآں آج کل لوگوں کا رجحان خودکشی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بنیادی طور پر ایک انسان خودکشی کیوں کرتا ہے؟ خودکشی کر نے والا شخص کم ازکم دو غلط فہمیوں کا شکار ہو تا ہے۔ جن کی وجہ سے وہ خودکشی کی طرف جاتا ہے۔
اس کی پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ جونہی وہ خودکشی کرے گا یعنی جب اپنی جان لے گا، تو زندگی کے جو مسائل ہیں، اس پر جو مشکلات اور جو سختیاں ہے وہ ختم ہو جائیں گی۔ تاہم قرآن مجید اور معصومین کا یہ فرمان ہے کہ خودکشی کرنے والا شخص جب اپنی جان لیتا ہے تو اس کی عذاب کی ابتدا وہیں سے شروع ہو جاتی ہے اور وہ سخت عذاب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
دنیا کی مشکلات اور آخرت کے عذاب کا اگر موازنہ کیا جائے تو آخرت کی جو سختیاں ہیں وہ دنیا کی سختیوں سے بڑھ کر ہیں۔ انسان کی غلط فہمی ہے کہ مشکلات سے نکلنے کے لیے خودکشی کا انتخاب کرتا ہے۔ انسان دنیا کی مشکلات سے تو نکل جائے گا لیکن اس سے زیادہ بڑی مشکل اور اس سے زیادہ سخت عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔
تبصرہ کریں