اموی-مسجد-دمشق-شام

75مؤذنوں کی اجتماعی اذان، دمشق کی ایک قدیم روایت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جامع اموی حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ کے بعد مسلمانوں کا چوتھا اہم ترین مقام ہے۔ یہاں ہونے والی اجتماعی اذان دمشق کی ایک خوبصورت روایت ہے، جو جامع اموی کو دنیا کی دیگر تمام مساجد سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کا شام کے اجتماعی شعور میں خاص مقام ہے، خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں، کیونکہ عشروں سے شام کے لوگ افطار کے وقت اس اذان سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہ روایت آج بھی قائم ہے۔

کئی محققین اور مصنفین جامع بنی امیہ میں اجتماعی اذان کی ابتدا کا سہرا اپنے وقت کے شیخ شام، عبد الغنی نابلسیؒ (1731ء میں وفات) کے سر باندھتے ہیں۔ تاہم اجتماعی اذان کو شیخ عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ کے آغاز سے منسوب کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اجتماعی اذان ان سے پہلے بھی موجود تھی۔ البتہ شیخ نابلسی نے اس اذان میں ایک انتظامی نظم و ضبط اور فنی ضوابط کا اضافہ کیا۔

شیخ نابلسی نے مؤذنوں کو اس بات کا پابند کیا کہ اجتماعی اذان ہر دن ایک مخصوص مقام (راگ) کے مطابق دی جائے۔ ہفتے کے ہر دن کے لیے ایک خاص مقام (راگ) مقرر کیا گیا، جس پر اجتماعی اذان دی جاتی ہے۔ شیخ نابلسی نے یہ خیال عثمانی اذان کے قانون سے اخذ کیا، جس کے تحت مؤذنوں کو پابند کیا جاتا تھا کہ پانچوں نمازوں کی اذانیں مختلف مقامات (راگ) پر دی جائیں، تاکہ نابینا افراد اذان کے وقت اور نماز کی نوعیت کو پہچان سکیں۔ یہ قانون آج بھی ترکی میں اذان کے لیے نافذ العمل ہے۔

تاہم، شیخ عبدالغنی نابلسی نے اس میں ایک نیا پہلو شامل کیا، جس کے تحت ہر دن کی اذان کے لیے ایک الگ مقام و راگ مقرر کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سننے والے اذان کے مقامات کے ذریعے ہفتے کے دنوں کے درمیان تمیز کر سکیں۔

بہت سے صحافی اور محققین ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں، جسے متعدد لکھاریوں نے اپنایا ہے اور یہ غلطی کئی ویب سائٹس پر بھی پائی جاتی ہے۔ جو کہ ’اجتماعی اذان‘ کو ’جوق اذان‘ کا نام دینے سے پیدا ہوتی ہے، جو دمشق کے جامع اموی میں ادا کی جاتی ہے۔ یہاں ان دونوں تصورات میں فرق کرنا ضروری ہے، کیونکہ ان کی خلط ملط کرنے کے تاریخی اور شرعی پہلو بھی ہیں۔

’جوق اذان‘ جسے بعد میں ’سلطانی اذان‘ کے نام سے بھی جانا گیا، اس کا آغاز اموی دور میں ہوا، جیسا کہ سیوطی، ابن عساکر اور دیگر نے ذکر کیا ہے۔ خاص طور پر یہ رسم ہشام بن عبد الملک کے دور سے شروع ہوئی۔

’جوق اذان‘ یا ’سلطانی اذان‘ اس تصور پر مبنی نہیں ہے کہ ایک مؤذن اذان کا کلمہ کہے اور ایک گروہ اس کے پیچھے اسے دہرائے، جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ جامع اموی میں دی جانے والی ’اجتماعی اذان‘ اور ’جوق اذان‘ ایک ہی ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت میں ’جوق اذان‘ اس تصور پر مبنی ہے کہ چار یا پانچ مؤذن مل کر ایک اذان دیتے ہیں اور ہر مؤذن اذان کا ایک حصہ ادا کرتا ہے۔ مثلاً پہلا مؤذن کہتا ہے: ’الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر‘، پھر دوسرا مؤذن کہتا ہے: ’أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله‘، اور اس کے بعد تیسرا مؤذن اگلا کلمہ ادا کرتا ہے، پھر چوتھا اور یوں آگے بڑھتا ہے۔ اس طریقے میں ہر مؤذن صرف اذان کا ایک حصہ ادا کرتا ہے، اور کوئی بھی مؤذن مکمل اذان اکیلے نہیں دیتا۔

’جوق اذان‘ اسلامی دنیا کے کئی ممالک میں ایک طویل عرصے تک جاری رہی، لیکن بعض ممالک میں اسے ابتدائی ادوار میں روک دیا گیا۔ یہ روایت سب سے آخر میں مصر میں ختم کی گئی، جب اسے بادشاہ فاروق اول کے دور میں ممنوع قرار دیا گیا۔ اس کی ممانعت 1945ء میں جامع ازہر کے شیخ، محمد مصطفی المراغی رحمہ اللہ کے فتویٰ سے کی گئی۔

جہاں تک ’اجتماعی اذان‘ کا تعلق ہے، تو یہ اس طرح ہوتی ہے کہ مؤذن اذان کا کلمہ بلند کرے، اور اس کے پیچھے ایک گروہ اسی کلمے کو دہراتا اور مکمل اذان کو مل کر ادا کرتا ہے، اس طرح کہ ہر شخص اذان کا مکمل حصہ ادا کرے، نہ کہ اذان کا کوئی ایک ٹکڑا۔

یہ روایت عثمانی دور کے ابتدائی دنوں میں استنبول سے شروع ہوئی اور کئی بڑی مساجد تک پھیل گئی۔ یہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں بھی ادا کی جاتی تھی، جیسا کہ جامع اموی دمشق میں ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ، یہ روایت دیگر مساجد اور ممالک میں ختم ہو گئی، لیکن جامع بنی امیہ دمشق میں اب بھی جاری ہے۔

’اجتماعی اذان‘ کو ’جوق اذان‘ کا نام دینے سے فقہی حکم میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم فقہ کی کتب کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکثر فقہی مذاہب ’جوق اذان” کو، جس میں ہر مؤذن اذان کا صرف ایک حصہ ادا کرتا ہے، ناجائز سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف، اکثر فقہی مذاہب ’اجتماعی اذان‘ کو، جو جامع اموی میں ادا کی جاتی ہے، جائز قرار دیتے ہیں۔

آج کئی لوگ جامع اموی میں دی جانے والی اذان کو غیر مشروع سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ اسے ’جوق اذان‘ سے مشابہ سمجھتے ہیں، جیسا کہ فقہاء نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ تصور درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکم کو ایسی حالت پر لاگو کیا جا رہا ہے جو اس سے مختلف ہے اور یہ غلطی اس واقعے کی صحیح سمجھ اور اس کی درست تشریح کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

آج بھی جامع بنی امیہ کے میناروں سے اجتماعی اذان کی آواز گونجتی ہے، جو دلوں میں ان دیار کے لیے محبت اور یادیں تازہ کر دیتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں یہ اذان ان آوازوں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے لوگوں کی رمضان کی بہت سی یادوں کو تشکیل دیا۔ جامع اموی میں اجتماعی اذان رمضان کی ایک خاص علامت ہے، جس کے ذریعے وہ لوگ جو اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ لوٹ سکیں، رمضان کے دوران جامع اموی میں دی جانے والی اجتماعی اذان ان کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، جسے سن کر وہ خود کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی شام سے جڑے ہوئے ہیں اور شام ان کے دلوں میں موجود ہے۔ اس وقت 75 موذنین بیک وقت جامع اموی میں اذان دیتے ہیں۔ مسجد کے 4 مینار اور ہر مینار کے 25 موذن۔ یہ سب معمر افراد ہیں اور دمشق میں قائم اس پرانی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ ان کا ایک طرح آبائی پیشہ ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان کی آواز میں سرمو بھی تفاوت اور فرق نہیں ہے۔ جب یہ سب مل کر صدائے توحید بلند کرتے ہیں تو عجیب سا سماں بندھ جاتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “75مؤذنوں کی اجتماعی اذان، دمشق کی ایک قدیم روایت”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    منفرد موضوع ۔۔۔ اعلی تحریر ۔۔۔۔ معلومات سے آراستہ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے