مجھے ہمیشہ اسلامی ممالک کے حوالے سے یہ شکایت لاحق ہوتی ہے کہ اسلامی ممالک شہریت نہ دے کر ایک بہت بڑی نفسیاتی بخیلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں مغربی ممالک کی فراخ دلانہ پالیسیاں ہمیشہ اچھی لگتی ہیں کہ وہاں کچھ عرصہ گزارنے پر لوگ شہریت کے حصول کے لیے اہل تصور ہوتے ہیں۔ صرف اسی پالیسی کے تحت ان ممالک نے انسانی برادری سے ذہانتوں اور مہارتوں سمیت سرمایہ و تنوع کا ایک لامحدود ذخیرہ اپنی جانب موڑ دیا ہے۔ آج مغرب ہر اعتبار سے آسودہ، طاقتور، خوشحال اور ترقی یافتہ ہے جبکہ ہمارے ہاں الٹ حال احوال زمانوں سے رقصاں ہیں جہاں لوگوں کو آپس کی لڑائیوں سے ہی پل بھر کی فرصت میسر نہیں۔
مجھے خوشی ہے کہ مملکت سعودی عرب نے حال ہی میں، موجودہ دنیا کے ضروری تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے، دنیا کے لائق اور ذہین افراد کو شہریت عطا کرنے کا نہایت انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ یہ قدم بہت پہلے اٹھانا چاہیے تھا لیکن ہر ملک کے اپنے حالات اور مصالح ہوتے ہیں جیسے کوئی اور زیادہ بہتر انداز میں نہیں سمجھ سکتا۔ اسی پالیسی کے حق میں شاید سب سے پہلے عالم اسلام کے مایہ ناز عالم مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے شاہ فیصل مرحوم کو مشورہ دیا تھا کہ عالم اسلام کے لائق فائق لوگوں کو شہریت دے کر ایک علمی اور سائنسی ماحول بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، یہ حکمت عملی عالم اسلام کے وسیع مفاد اور خود سعودی عرب کی طاقت اور عزت میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنے گی لیکن اس موقع پر شاہ فیصل مرحوم نے بوجوہ مذکورہ بالا تجویز پر عمل درآمد سے معذرت کیا تھا۔
سعودی خبر رساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق مختلف شعبوں میں ممتاز شخصیات کو سعودی شہریت دینے سے متعلق شاہی فرمان جاری ہوا ہے کہ ممتاز مذہبی، طبی، سائنسی، ثقافتی، تفریحی اور تکنیکی مہارتوں اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کو سعودی شہریت عطا کی جائے گی۔
ایس پی اے کے مطابق یہ اقدام سعودی عرب کے وژن 2030 کے مقصد میں مددگار ثابت ہوگا جس کے تحت عالمی سطح کا ایک ایسا پرکشش ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ جس سے غیر معمولی تخلیقی ذہانتوں اور مہارتوں کو راغب کرنے میں مدد مل سکے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ مملکت سعودیہ کے اس عظیم منصوبے کی توسیع ہے جس میں غیر معمولی مہارتوں کے حامل نمایاں اہلیت رکھنے والوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے جو کہ مملکت میں سائنسی، اقتصادی، طبی، ثقافتی، تفریحی اور تجارتی ترقی کی کوششوں میں معیاری اضافہ ثابت ہو سکے۔
’الشرق الاوسط‘اخبار نے کئی قابل ذکر افراد کے بارے میں بتایا ہے جنہیں حالیہ شاہی فرمان کے ذریعے سعودی شہریت دی گئی ہے۔ ان افراد میں سے ایک محمود خان بھی شامل ہیں، جو کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں اور ہیوولوشن فاؤنڈیشن کے سی ای او ہیں، انہیں ہیلتھ سائنسز میں ان کی قابلِ ذکر خدمات کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس طرح سنگاپور نژاد امریکی سائنسدان جیکی یی رو ینگ کو بھی سعودی شہریت دے دی گئی ہے۔ ینگ سنگاپور میں انسٹی ٹیوٹ آف بائیو انجینئرنگ اینڈ نینو ٹیکنالوجی کے بانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھی اور فی الحال نینو بائیو لیب کی قیادت کر رہی ہیں۔ اس طرح لبنانی سائنسدان نوین خشاب کو ان کی جدید سائنسی مہارتوں اور بائیو انجینئرنگ اور نینو میٹریلز میں قابلِ قدر شراکت کے لیے سعودی شہریت سے نوازا گیا ہے۔ خشاب کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (KAUST) کے بانی رکن ہیں اور 2009 سے وہاں کیمیکل سائنسز اور انجینئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اس طرح فرانسیسی سائنسدان نورالدین غفور کو ماحولیاتی سائنسز اور انجینئرنگ، خاص طور پر ڈی سیلینیشن ٹیکنالوجیز میں ان کی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے سعودی شہریت دی گئی ہے۔ ممبرین (جھلیوں) کو الگ کرنے کی تکنیک میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری یافتہ غفور KAUST میں پروفیسر ہیں۔ اس سے قبل 2021 میں بھی سعودی عرب میں شاہی فرمان کے ذریعے ایسے ہی متعدد نمایاں اور غیر معمولی افراد کو سعودی شہریت دی گئی تھی۔
’عرب نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نومبر 2021 میں سعودی عرب کی شہریت حاصل کرنے والوں میں متعدد شعبوں سے تعلق رکھنے والے ستائیس افراد شامل تھے۔ ان ستائیس افراد میں نامور اسلامک اسکالرز، ڈاکٹرز اور تعلیم کے شعبے کے ماہرین شامل تھے۔
سعودی عرب نے سائنسی اور معاشی طور پر خود کو بدل کر آگے بڑھنے کا پختہ عزم کیا ہے۔ وہ ہر اس قدم اور پالیسی کے لیے تیار اور آمادہ نظر آتا ہے جو اس مقصد میں معاون و مددگار ثابت ہو۔ عالمی طور پر موثر، تاریخی اعتبار سے اہم جبکہ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں محوری ملک سعودی عرب، جو کہ ایک ٹھوس تاریخی اور نظریاتی شناخت کے لیے جانا جاتا ہے، حالیہ برسوں میں غیر معمولی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف اقتصادی شعبے میں ہو رہی ہیں بلکہ وسیع تناظر میں انسانی، علمی، سماجی اور تجارتی ترقی کے دائروں میں بھی بالکل واضح ہیں۔ مملکت سعودی عرب اپنے شہریوں کی زندگیوں میں مثبت اور مطلوب تبدیلیاں لانے کے مقصد سے مختلف اصلاحات اور اقدامات کو تسلسل سے نافذ کر رہی ہے۔
سعودی عرب میں تبدیلی کا ایک اہم پہلو انسانی ترقی پر توجہ دینا ہے۔ حکومت تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں مسلسل سرمایہ کاری کر رہی ہے، جس کا مقصد اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بڑھانا ہے۔ سعودی عرب میں انقلاب کے نقیب، ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے شروع کیے گئے ویژن 2030 جیسے اقدامات، سعودی نوجوانوں کو فعال اور بااختیار بنانے اور انہیں ترقی اور خوشحالی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مملکت اپنی معیشت کو متنوع بنانے، روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے اور خاص طور پر نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے دلجمعی سے کام کر رہی ہے۔
مملکت سعودی عرب خواتین کو بھی فعال بنانے میں پیش پیش ہے۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے اور انہیں باقاعدہ پیشہ وارانہ افرادی قوت میں شمولیت جیسی اصلاحات بھی کی جا رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے نہ صرف سعودی معاشرے میں خواتین کی حیثیت میں بہتری آئی گی بلکہ وہ ملک کی مجموعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں گی۔
سعودی عرب انسانی ترقی کے علاوہ، حالیہ برسوں میں نمایاں سماجی ترقی کے تجربات سے بھی گزر رہا ہے۔ مملکت ایک زیادہ جامع، متنوع اور روادار معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لیے کام کر رہی ہے، جہاں سب کو محبت اور احترام سے رہنے کا موقع میسر رہے۔ ’نیشنل ٹرانسفارمیشن پروگرام‘اور ’بلند معیار زندگی پروگرام‘جیسے اقدامات سعودی شہریوں کی فلاح و بہبود اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے لانچ کیے گئے ہیں۔ سعودی عرب اپنے شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور جدتوں کو فروغ دینے کے لیے ثقافتی اور تفریحی اقدامات میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ ملک مختلف ثقافتی تقریبات، موسیقی کے تہواروں اور آرٹ کی نمائشوں کی میزبانی بھی مسلسل کر رہا ہے، جو مقامی ہنرمندوں کو اپنے کام کی نمائش کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔ ان اقدامات نے نہ صرف سعودی عرب کے ثقافتی منظرنامے کو تقویت بخشی ہے بلکہ اس نے اپنے شہریوں کے درمیان گرم جوش تعلق کے احساس کو بھی فروغ دیا ہے۔
سعودی عرب میں اقتصادی ترقی کا حصول تبدیلی کا ایک اہم محرک رہا ہے۔ ملک اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور تیل کی آمدنی پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے جوش و خروش سے کام کر رہا ہے۔ سعودی ویژن 2030 جیسے اقدامات سے سیاحت، تجارت، تفریح، ماحولیات اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کو فروغ دے کر معیشت کو تبدیل کرنا چاہ رہا ہے۔ حکومت بنیادی ڈھانچے سے متعلق مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے، کاروبار کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی اور اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو موثر انداز میں راغب کر رہی ہے۔ سعودی عرب عالمی سطح پر اپنی مسابقت کو بھی بڑھانے پر خاص توجہ دے رہا ہے۔ ملک اپنے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، قواعد و ضوابط کو نرم اور ہموار کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے مختلف ضروری معاشی اصلاحات نافذ کر رہا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے ان کوششوں کے نتیجے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے جس نے سعودی عرب کو خطے میں تجارت اور جدت کے اعتبار سے ایک مرکزی مقام میں بدلا ہے۔
تبصرہ کریں