حالات کچھ ہو اور خیالات کچھ ہو، احوال کچھ ہو اور خواہشات کچھ ہو، توقعات کچھ ہو اور نتائج کچھ ہو، دل میں کچھ ہو اور زبان پہ کچھ ہو، باتوں میں کچھ ہو اور اخلاق میں کچھ ہو، رشتوں میں کچھ ہو اور جذبوں میں کچھ ہو، علاقائی مقامات پہ کچھ ہو اور بین الاقوام میں کچھ ہو، مشوروں میں کچھ ہو اور ارادوں میں کچھ ہو، پل پل پہلے کچھ ہو اور پل پل بعد میں کچھ ہو، شہروں میں کچھ ہو اور دیہاتوں میں کچھ ہو، نظریات میں کچھ ہو اور رویوں میں کچھ ہو، آن لائن کچھ ہو اور آن گراؤنڈ کچھ ہو تو زندگی میں اس طرح کے تضادات سے ذہنوں کے اندر جو کیفیت پیدا ہو رہی ہے اس کو اضطراب کہا جاتا ہے۔
اضطراب حد درجہ ذہنی پریشانی، مایوسی، تشویش، بیزاری اور بد دلی کو کہا جاتا ہے۔ بندہ بات کرنے کے لیے مناسب چینل نہ پا رہا ہو، کام کرنے کو موقع نہ پا رہا ہو، مسائل کا حل نہ پا رہا ہو، اختلاف کرنے کو گنجائش نہ پا رہا ہو، انصاف بالا اور اخلاق بلند و بالا نہ پا رہا ہو، دیانت امانت اور صداقت کے چل چلاؤ نہ پا رہا ہو، تہذیب و شائستگی سے ہم آہنگ عمومی قرینے نہ پا رہا ہو، جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم نہ پا رہا ہو، معاملات چلانے میں اختیار نہ پا رہا ہو، زندگی کے لیے ضروری وسائل اور تحفظ نہ پا رہا ہو، ہر طرف محرومی اور عیاشی کے مختلف تکلیف دہ اور باہم متصادم مناظر ہی صبح و شام دیکھ رَہا ہو، تو دل و دماغ کی دنیا میں جو کیفیت پیدا ہو رہی ہے اسے اضطراب کہا جاتا ہے۔
اضطراب بظاہر تو ذہنی صحت کی ایک تشویشناک حالت کا نام ہے لیکن حقیقت میں اس کی جڑیں ساری عملی اور حقیقی دنیا میں برپا تضادات کے ساتھ پیوست ہیں۔ اضطراب سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ متاثر ہیں اور نہایت برق رفتاری سے اس کے متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال اس عارضے سے متاثرہ افراد کی تعداد اور احوال سے متعلق رپورٹس شائع ہو رہی ہیں جو دل ڈبونے کو کافی ہوتی ہیں۔ کہیں پہ ہر پانچ میں سے ایک فرد، کہیں پہ ہر چار میں سے ایک فرد اور کہیں پہ ہر تین میں سے ایک فرد اضطراب کا شکار ہے۔ ایک مضطرب فرد خود تو اذیت میں ہوتا ہی ہے لیکن وہ اپنی پیچیدہ اور تکلیف دہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی حالت کی وجہ سے ٹھیک ٹھاک سماج کے لیے بھی چلتا پھرتا خطرہ ہوتا ہے۔ اضطراب بنیادی طور پر ناپسندیدہ ذہنی، سماجی، معاشی اور جذباتی حالات کا ایک فطری ردعمل ہے لیکن جب یہ حد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ طرح طرح کے ذہنی، جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی عوارض کا باعث بن رہا ہے۔
اضطراب میں مبتلا فرد اطمینان سے دور اور نوع بہ نوع موہوم سی لیکن گہری پریشانیوں کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ یہ عارضہ جسمانی طور پر جن علامات میں ظاہر ہو رہا ہے ان میں سے دل کی تیز دھڑکن، پسینہ آنا (موسمی پسینہ نہیں)، کانپنا اور پٹھوں میں شدید تناؤ جیسی کیفیتیں شامل ہیں۔ اس عارضے میں مبتلا افراد معدے کے مسائل، سر درد اور تھکاوٹ کا بھی بری شکار رہتے ہیں جبکہ نفسیاتی طور پر، اضطراب میں بے چینی، چڑچڑاپن، توجہ کو مرکوز کرنے میں دشواری سے دو چاری، اور آنے والے وقتوں کے بارے میں طرح طرح کے خدشات محسوس ہو رہا ہے۔
اضطراب متاثرہ فرد کی دینی، اخلاقی، سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اضطراب اللہ کی عبادت میں خلل، سماجی سرگرمیوں میں عدم مشغولیت، صحت مند تعلقات کو برقرار رکھنے میں دشواری سمیت دفتری کاموں یا تعلیمی کارکردگی کو بھی مشکل بناتا ہے۔ اضطراب میں مبتلا افراد ضروری فیصلہ لینے اور کوئی بھی درپیش مسئلہ حل کرنے میں ناقابلِ عبور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسے افراد کے لیے عام طور پر ہنسنا مسکرانا، بات کرنا اور سننا، خود سمجھنا اور مخاطب کو سمجھانا بھی سخت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
میں نے سوچا ہے اور کسی حد تک اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اضطراب کے عارضے کو دو بنیادی پہلوؤں سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اس کا باقاعدہ علاج معالجہ اور دوسرا اس کے سدباب کے لیے ایک اطمینان بخش ماحول پروان چڑھانا تاکہ اضطراب کا سنگین مسئلہ پیدا ہی نہ ہو۔ نفسیاتی طریقہ علاج آج کے دور میں ایک وسیع پیمانے پر اختیار کردہ طریق علاج ہے اور مرض کی شدت میں اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ہوتا لیکن سردست ہم ان عمومی اقدامات اور مطلوبہ ماحول پر روشنی ڈالتے ہیں جو اضطراب کی روک تھام میں مددگار ہیں۔ اضطراب پر قابو پانے کے لیے کچھ اقدامات ذاتی، کچھ خاندانی، کچھ سماجی اور کچھ سرکاری طور پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام اقدامات آگے چل وہ ماحول بنا دیتا ہیں جس میں اضطراب کم اور اطمینان بڑھ رہا ہوتا ہے اور یوں زندگی ہموار انداز میں گزرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
ذاتی اقدامات
ہر فرد ممکنہ حد تک ایمان سے لبریز، یکسو، متحرک اور مشغول رہا کرے۔ زندگی میں بے شمار ایسی ناہمواریوں، اتار چڑھاؤ، تلخ و شیریں اور سرد و گرم کے سلسلے سر اٹھا کر صبح و شام ہل چل مچانے کو کھڑے ہوتے ہیں کہ اگر ایمان سے دل خالی، یکسوئی سے دماغ محروم، تحرک سے زندگی دور اور مشغولیت سے معمولات بیگانہ رہیں تو کسی بھی فرد کے لیے اضطراب میں مبتلا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا میں صرف وہ کچھ نہیں ہیں جو نظر آتے ہیں بلکہ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو نظر تو نہیں آتا لیکن اثر میں آتا ہے۔ ان حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ اس کے بعد زندگی میں بے شمار چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن انسان کو سب سے زیادہ اہمیت اپنے مقاصد کو دے کر ان پر توجہ کو یکسو رکھنا چاہیے۔ انسان کو زندگی میں سب سے زیادہ اطمینان مقصد کے ذریعے میسر آتا ہے۔ اس طرح ایک جمود زدہ فرد متحرک فرد کی نسبت اضطرابی حملے کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مسلسل متحرک رہنا مفاد کے لیے بھی ضروری ہے اور اطمینان کے لیے بھی۔
خاندانی اقدامات
خوشی اور اطمینان سے مالا مال زندگی کے لیے شرط اول خاندان ہے۔ یہ خاندان ہی ہوتا ہے جہاں سب اخلاص اور اہتمام سے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور خاندان کی چار دیواری میں تمام حقوق، مراعات اور سہولیات غیر مشروط طور پر میسر آتے ہیں۔ موجودہ حال احوال نے خاندانی نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی نظام کو پھر سے مضبوط اور محفوظ کیا جائے۔ کئی چیزوں نے درمیان میں آ کر قریبی لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہیں۔ خلوص اور حوصلے سے اگر کام لیا تو یہ نوبت نہیں آئی گی۔کھانوں، باتوں، کاموں، جذبوں اور ارادوں میں باہم خوب مشغول رہنے چاہیں۔ تنہائی پسندی نے سماج کے ساتھ ساتھ گھروں کا بھی رخ کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے بے قید استعمال نے خاندانوں میں ٹھیک ٹھاک مسائل پیدا کیے ہیں، قریب ترین لوگ بے گانہ ہوتے جا رہے ہیں اور دور دراز کے "شائقین” ایسے بغلگیر ہو رہے ہیں کہ وقت اور توجہ کا بڑا حصہ وہاں کھپ رہا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔
سماجی اقدامات
بڑی تعداد میں انسانوں کا مختلف رشتوں اور تعلقات میں باہم منسلک ہو کر رہنے کو سماجی زندگی کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا خوشیوں میں شریک ہونا، پریشانیوں میں قریب ہونا، مسائل اور چیلنجوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کھڑا ہونا، خیر اور بھلائی کے کاموں میں باہم حمایت کرنا، خوف اور تشویش کے عالم میں تسلی اور اطمینان کا باعث بننا اور ظلم و تخریب ایسے عزائم میں سمجھنا سمجھانا اور ہر ضروری موقع پر مدد و نصرت جاری رکھنا سماجی زندگی کے بنیادی ستون ہیں لیکن عصر حاضر میں پیشہ ورانہ مشغولیتوں اور ذاتی اغراض کے دوڑ دھوپ کے سبب سماج کے تقاضوں سے حضرت انسان غفلت میں ایسا چلا ہے جہاں اسے یہ بالکل پتہ نہیں لگ رہا کہ سماجی زندگی میں ان کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟۔ رابطوں میں کمی آئی ہے، گرم جوشی میں کمی آئی ہے، مشوروں میں کمی آئی ہے، اعتماد میں کمی آئی ہے، باہمی ہمدردی اور خیر خواہی میں ٹھیک ٹھاک کمی آئی ہے۔ لوگ مفادات کے چکروں میں ایسے پڑیں ہیں کہ انہیں اخلاق و اقدار کے تقاضے یاد نہیں۔ یہ ذہنیت اور رجحان بدلنے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اقدامات
حکومت کا کام معاشروں کو تھامنا ہوتا ہے۔ تعلیم کے وقت تعلیم دلانا، روزگار کے وقت روزگار دلانا، تحفظ کا احساس، حب الوطنی کی تربیت اور کار آمد شہری بننے کے تمام ضروری سہولیات کی فراہمی بھی ذمہ داری ہے۔ قوم میں نظم و ضبط، اخلاق و کردار اور شرافت و نفاست کے اوصاف کو پختہ کرنا بھی ضروری ہے۔ حکومت میڈیا، تعلیمی اداروں اور تربیتی مراکز کے لوگوں کو اچھے سچے میٹھے اور کھرے شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حکومتوں کی غفلتوں سے بڑی تعداد میں لوگ ضروری تعلیم، روزگار، امن اور صحت کی سہولیات سے محرومی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور اس عمومی صورت حال نے ملک میں ٹھیک ٹھاک اضطراب میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے قوم کے وسائل قوم پر لگا کر اس کے مسائل حل کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھیں تاکہ قوم نہ صرف ترقی و خوشحالی کی نعمتوں سے سرفراز ہو بلکہ دنیا بھر میں ملک پاکستان کا بھی روشن کرے۔
تبصرہ کریں