سارہ خان
زندگی بہت خوبصورت ہے اور تیزی سے گزررہی ہے۔ زندگی کی قدر کریں۔ زندگی اس دنیا میں رہنے کا صرف ایک موقع ہی نہیں، بلکہ قدرت کا سب سے خوبصورت ترین اور عظیم ترین تحفہ ہے جو کسی بھی جاندار کو عطا کیا جاتا ہے۔ انسان کو تمام جانداروں میں اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا ہے کہ اسے صرف زندگی ہی عطا نہیں کی گئی بلکہ اسے احسن طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے شعور جیسی نعمت سے بھی نوازا گیا ہے۔
زندگی صرف سانس لینے، کھانے پینے، سونے جاگنے کا نام نہیں۔ سانس تو ہم سب لیتے ہیں لیکن حقیقت میں زندگی صرف انہی کو ملتی ہے جنہیں زندگی جیسی انمول نعمت کو سلیقے اور قرینے سے بسر کرنے کا شعور بھی میسر آتا ہے۔ یہ زندگی کا شعور ہی ہے جو انسانوں کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم مادہ پرستی میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ ہم زندگی جیسی عظیم نعمت کو کس قدر بے فکری اور کس قدر ناشکری سے اپنے ہاتھوں سے ضائع کیے جارہے ہیں۔ آج مال و دولت اور مادّی اشیاء ہماری زندگی کا محور و مرکز ہیں اور ہم اپنے عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کے بجائے انسانیت کی تخریب پر استعمال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
اپنی زندگی کو کیسے گزارنا چاہیے اور کیسے گزار رہے ہیں، یہ سراسر آپ کا ذاتی اختیار ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیے کہ قدرت کا یہ خوبصورت اور عظیم ترین تحفہ ہمیں اس لیے عطا ہوا کہ ہم اپنے آپ کو ایک اچھا اور بہتر انسان بنا کر اس نعمت کے اہل ہونے کا ثبوت دے سکیں۔زندگی زندہ دلی کا نام ہے، اسے زندہ اور باشعور انسانوں کی طرح بسر کیجئے۔ اس کے لیے ضروری ہے ہم اللہ تعالیٰ کی اس لازوال اور بے مثال نعمت کو محبتوں، چاہتوں اور انسانیت کے نام کریں۔
دسمبر کی آخری شام، پہاڑوں کی اوٹ میں ڈوبتا سورج، سال بھر سورج کے طلوع و غروب کی طرح زندگی بھی نشیب و فراز میں گزری۔نشیب کچھ زیادہ رہے۔مگر سبق پکے یاد ہوئے۔ پھر بھی چھٹی نہ ملی۔ وجود کی بخیہ گری ہوئی مگر حوصلے کو متزلزل نہ ہونے دیا۔مانا کہ اس میں اپنی قوت ارادی اور ہمت کا عمل دخل ہے مگر ان سبھی پیاروں کا بھی شکریہ جنہوں نے بتایا کہ زہر کا تریاق بھی زہر ہی ہوتا ہے۔ سو زندگی کی تلخی کو گھونٹ گھونٹ پیا۔اس پہ اپنوں کی محبت کے گل قند ذائقے۔
اس سال کا پہلا سورج طلوع ہوا تھا تب بھی علم کے رستے پہ تھی۔آخری بھی طلوع ہوا تو فرائض کی پکار پہ رستے ميں تھی۔مطمئن بالکل مطمئن ڈوبتے سورج کے ہمراہ گھر کو رواں ہوں۔عمر رواں کا ایک اور کار آمد سال ماضی کے حوالے کرنے جارہی ہوں۔سال کے بقایا گھنٹے زندگی کے کندھے پہ سر رکھ کے سوچنا چاہتی ہوں۔
سود و زیاں کیا ہے؟ خسارے کیوں ہوئے؟ ان کی بھرائی ممکن ہے۔۔؟ اور کیا پایا۔۔۔؟ کون اپنا ہے کون پرایا؟
نئے سال کی آمد پر بہت سے ارادے باندھے جاتے ہیں لیکن کیا سال میں ایک یا دو دن جوش وخروش سے منصوبے بنانا،کاميابی تک پہنچا سکتا ہے؟
بالکل نہیں، رات دن محنت کرنا ہوگی، نئے طریقے اپنانا ہوں گے اور ایسے کاموں سے بچنا ہوگا کہ جن سے بوریت ہو،کيونکہ اکثر کسی کام کو مکمل نہ کرنے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کام میں دل نہیں لگتا۔
تبصرہ کریں