آج امید اور خوف کے عین درمیان کھڑے ہو کر ایک سال کو الوداع، دوسرے کو خیر مقدم کرنے کا اہم دن ہے۔
آج کے دن ہم سب ایک ایسے مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں کہ جس میں ایک سال کو الوداع اور دوسرے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ لمحہ موجود میں ملک اور دنیا طرح طرح کے چیلنجوں، مشکلات اور مسائل سے بری طرح دو چار ہیں لیکن ہمارے پاس اگر یقین کی دولت، حوصلے کی طاقت اور خیر کے ساتھ جڑ کر چلنے کا جذبہ موجود ہے تو شکر ادا کریں کہ ایسے میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے موجودہ چیلنجوں اور مسائل کو بہترین مواقع اور امکانات میں بدل سکنے کے پوزیشن میں ہیں۔
آج پوری دنیا امن، معیشت، ذہنی و روحانی سکون اور انسانی فلاح و بہبود کے تناظر میں ایک سخت ترین دور سے گزر رہی ہے۔ کہیں پہ تباہ جنگیں جاری ہیں، کہیں پہ مہنگائی کے طوفان اٹھے ہیں، کہیں پہ اخلاقی بحران نے معاشروں کو ٹھیک ٹھاک پریشان کر رکھا ہیں، کہیں پہ پُرتشدد رویوں کا برملا اظہار ہو رہا ہے، کہیں پہ غربت اور امارت کے درمیان تقسیم مزید گہری ہوتی چلی جا رہی ہے، کہیں پہ مختلف طبقوں کو احساس محرومی کا سامنا ہے، کہیں پہ تہذیبی اور ثقافتی کشمکش نے بے چینی بڑھا دی ہے، کہیں پہ نفرت اور امتیازی سلوک نے انسانی بے توقیری کے احساسات کو ابھارا ہیں، کہیں پہ بیماریوں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور کہیں پہ حرص و ہوس کی بنیاد پر اٹھنے والی لڑائیوں نے قیامتیں برپا کیے ہیں۔ غرض انسان جس سکون، تحفظ، خیر اور تعمیر کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اسے وہ کہیں بھی نہیں مل پاتا۔
لیکن ذرا رکیے زندگی کا ایک اور پہلو بھی پوری طرح سرگرم ہے اور یہ کہ اس مشکل دور کے اندر بھی اربوں لوگ امن کے متمنی ہیں، خیر اور خدمت اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے مقدور بھر مخلصانہ انداز سے متحرک ہیں، انصاف احساس اور ادراک کی حرارت سے بہتر تبدیلی کے آرزو مند ہیں، ان کی زبانوں پر محبت اور دعائیں رقصاں ہیں، ان کے دل مصیبت زدہ لوگوں کے لیے تڑپ رہے ہیں، ان کے وسائل صلاحیتیں اور اوقات انسانی خدمت کے لیے گویا وقف ہیں۔ وہ دن کا آغاز خیر سے کرتے ہیں اور حد درجہ خلوص اور محنت سے اپنے فرائض منصبی بجا لا کر مخلوق خدا کے لیے آسانیاں اور راحتیں پیدا کر رہے ہیں اور ایک ایسے عالم میں شام کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں، زبانوں اور اختیارات سے کسی کو بھی صدمہ یا نقصان نہ پہنچا ہو یقین کریں ایسے لوگ ایک روشن انسانی مستقبل کی ضمانت ہے، ان کا وجود مخلوق خدا کے لیے سراسر رحمت ہے اور ان کا طرزِ عمل اس دنیا کی بقاء کا جواز بھی ہے جب تک ایسے لوگ دنیا میں موجود ہوں گے بخدا دنیا کی ویرانی کا خطرہ پیدا نہیں ہوگا۔
ہم سب انسان ہیں۔ فطری طور پر ہم سب کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ہم اور اس دنیا کے تمام انسان بہتر سے بہتر بن کر رہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم ایک سادہ اور ہموار دنیا میں نہیں رہ رہیں، ہمیں طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے بہتری کی منزل تک پہنچنے کا کڑا امتحان درپیش ہے۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہم انسان بوجوہ ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے میں غلطی کر جاتے ہیں اور نتیجتاً ایسے رویے اپنا اور سلوک اختیار کر بیٹھتے ہیں جو مناسب نہیں ہوتے بلکہ بسا اوقات تو ظالمانہ بن جاتے ہیں اور یوں پورا ماحول نفرت کے لپیٹ میں ایسا چلا جاتا ہے کہ باہمی محبت اور خیر خواہی سے پیش آنا مشکل ہو جاتا ہے حالانکہ ہم سب کی دیرپا خوشی اور بہتری محبت، خلوص اور خیر خواہی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
آج ہم سب کے لیے اجتماعی طور پر ایک سال ختم اور دوسرا شروع ہو رہا ہے لیکن انفرادی طور پر ہمارے حال احوال ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوں گے۔ کوئی ہم میں سے خوش ہوگا تو کوئی پریشان حال، کوئی صحت مند ہوگا تو کوئی بیمار، کوئی سال گزشتہ میں کامیابی کی جانب بڑھا ہوگا تو کسی کا واسطہ یقیناً ناکامی سے پڑا ہوگا، کسی نے زندگی سے گزرتے شب و روز میں مختلف نیکیاں اپنے نامہ اعمال میں درج کرائی ہوں گے اور کسی نے اعمال بد سے اپنا اعمال نامہ بھاری کیا ہوگا، کوئی خدا کی نظر میں ظالم کے طور پر آیا ہوگا اور کوئی مظلوم کے طور پر، ان سب فطری حالات میں ہم سب کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر شاہراہِ حیات پر کامیابی سے آگے بڑھیں۔ کوئی ظالم ہے تو ظالم نہ رہے کوئی مظلوم ہے تو مظلوم نہ رہے، کوئی مایوس ہے تو وہ مایوس نہ رہے، کوئی بدمست ہے تو وہ بدمست نہ رہے، کوئی نفرت میں مبتلا ہے تو وہ نفرت میں مبتلا نہ رہے کوئی جہالت کا شکار ہے تو وہ مزید جہالت کا شکار نہ رہے، ہمارے عزم میں یہ ارادہ بہر صورت شامل ہو کہ ہم نے بدتر حالت میں گھرے لوگوں کو بہتر حالت میں لاکر بسانا ہیں اور اسی راستے سے انسانی عظمت کی منزل کو پانا ہے۔
میرا خیال ہے نئے سال کا آغاز اصلاح، احتساب اور اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لیے سب سے بہترین موقع ہوتا ہے۔ یہ خالق سے اپنے احوال اور مخلوق سے اپنے معاملات درست کرنے کے حوالے سے بھی ایک نہایت اہم موقع ہوتا ہے اور اس تناظر میں بھی ایک اچھا لمحہ ہو سکتا ہے کہ بندہ اپنے اعمال و اخلاق کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور جہاں جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہو، وہ مقدور لے آئے اور یہ قطعاً نہ سوچیں کہ حالات تو بہت زیادہ خراب ہیں ان میں ہم کیا بہتری لا سکیں گے ؟ ہم نے اصل میں اپنی کوشش، نیت اور ارادے کو اپنے رب کو دکھانا ہیں جو چیزوں کی مقدار کو نہیں معیار کو دیکھتا ہے، جو کمزوریوں اور مجبوریوں کو بخوبی جانتا ہے اور جو کوششوں اور اعمال میں برکتیں شامل کر کے انہیں غیر معمولی اثرات سے ہم کنار کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔
ہم نے بہر صورت یہ ادراک کرنا ہے کہ اگر سال رواں میں کہیں محنت، کہیں محبت، کہیں عبادت، کہیں شفافیت اور کہیں فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہے تو صمیم قلب سے عزم کر لیں کہ نئے سال میں انہیں نہیں دہرائیں گے اور جہاں جہاں ہمارا کام اچھا ہے ہم اس میں مزید اچھائی کے لیے کوشاں رہیں گے۔ یاد رکھیں برائی کا مقابلہ صرف ایک عمل سے ممکن ہے اور وہ یہ کہ اچھائی کا معیار اور مقدار دونوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھائیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی رحمت کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دراز رکھے، ہمیں درست راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ایمان اور اطمینان والی زندگی عطا فرمائے، یا اللہ ملک میں امن و امان قائم فرما، انصاف کی روح سے معاشرے کو آراستہ فرما، تمام بیماروں کو صحت، تنگ دستوں کو آسودگی اور پریشان حال لوگوں کو سکون اور اطمینان کی دولت عطا فرما اور یہ کہ ہم سب کو اپنے فرائض منصبی ایمانداری اور تندہی سے انجام دینے کے قابل بنا اور پوری دنیا کو خیر اور بھلائی کے ساتھ بغلگیر کر کے ہدایت اور استحکام کی منزل سے پل پل قریب فرما۔
تبصرہ کریں