خلیل-احمد-تھند، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی

خالقوں اور لے پالکوں کا کھیل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

چند دن پہلے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ موصوف مکمل طور پر غریقِ الفتِ عمران تھے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے وردی والے حافظ صاحب کو ’ظالم انسان‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آیتیں پڑھنے والے نے اسلام آباد میں خون کی ندیاں بہا دیں۔

خاکسار نے سوال اٹھایا کہ ان کے لیڈر گوہر خان نے اسلام آباد میں سینکڑوں اموات کے دعووں کو رد کرتے ہوئے صرف بارہ اموات کی تصدیق کی ہے جن میں رینجرز اور پولیس کے لوگ بھی شامل ہیں۔ حسب روایت نوجوان نے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

خاکسار نے نوجوان سے کہا کہ عمران خان دعووں کے برعکس عملی میدان میں اپنے مخالف سیاست دانوں سے مختلف نہیں ہیں۔ اس لیے وہ اپنی سوچ میں توازن پیدا کریں۔ ان کا جواب تھا کہ عمران خان نے انٹرنیشنل فورم پر رسول اللہ ﷺ کی شان بیان کی ہے اس لیے وہ امت مسلمہ کا عظیم لیڈر ہے۔ 

راقم نے سوال اٹھایا کہ امت مسلمہ کے اس عظیم عاشق رسول نے ہائیکورٹ تک سزا یافتہ گستاخ رسول آسیہ بی بی کو ثاقب کورٹ کے ذریعے ٹیکنیکل بنیادوں پر کیس ختم کروا کر بیرون ملک بھجوا دیا اور انٹرنیشنل میڈیا پر اسے اپنا کارنامہ بنا کر پیش کیا۔ یوروپی یونین نے عمران خان کی اس کارکردگی پر فنڈز کے اجراء کا بھی اعتراف کیا تھا۔ ہماری اس دلیل کا معقول جواب دینے کی بجائے نوجوان نے ہمیں پٹواری کا طعنہ دیتے ہوئے استغفار کرنے کی تلقین کی۔  

نوجوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان نے قوم کو شعور دیا ہے۔ ہم نے کہنے کی جسارت کی کہ شعور کا مطلب یک طرفہ ذہن سازی نہیں ہوتا بلکہ مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنوں کے غلط فیصلوں اور اقدامات کو بھی تسلیم نہ کرنا ہے۔ موصوف نے ہماری دلیل کو قابل اعتناء سمجھنے کی بجائے ہمیں گمراہ قرار دے کر بات سننے سے انکار کر دیا۔  

درج بالا کہانی صرف ایک نوجوان کی نہیں ہے بلکہ اندرون اور بیرون ملک ایک ان پڑھ شخص سے لے کر پی ایچ ڈی تک لاکھوں عمران فالورز کی یہی کہانی ہے۔ 

اہم بات یہ ہے کہ تعلیم، مراتب اور علاقوں میں فرق کے باوجود ہر عمران زدہ شخص کی گفتگو ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ گویا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جو عمران خان کے سوشل میڈیا ایکسپرٹس نے بڑی محنت کے بعد تیار کر کے اسے شعور سے موسوم کردیا ہے۔ 

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس ذہنیت کی پرورش میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ان ناخداؤں کا بھی بھرپور کردار ہے جو پروجیکٹ عمران خان کے خالق و مالک تھے۔ 

آج قوم کا یہ مائنڈ سیٹ اور فوج کا ادارہ آمنے سامنے کھڑے ہیں جبکہ قوم کا مخلص ایلیمنٹ اس صورت حال کی وجہ سے شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔ 

ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات اس قول زریں کی عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔

ملکی اقتدار پر مسلط سیاسی جماعتوں کی اخلاقی ساکھ اس قابل نہیں ہے کہ وہ قوم کو اس منجھدار سے باہر نکال سکیں۔ ملک کا کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے جو اس مشکل سے نکلنے کا راستہ دکھا سکے۔ 

سیاسی و دینی جماعتیں ملک بچانے کی بجائے اپنی واردات ڈالنے کے چکر میں ہیں۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کم عقل یا دیدہ دانستہ واردات کے مرتکب پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی کی غلطیوں کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھنگ کا تدارک افیون سے ممکن ہے؟

اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو ایک پروجیکٹ کے نقصانات کے ازالے کے لیے اسی نوعیت کے دوسرے پروجیکٹس مسلط کیے جاتے رہنے کی پریکٹس سے کیا حاصل ہو گا؟

کیا خالقوں اور لے پالکوں کا کھیل اسی طرح چلتا رہے گا یا حقیقی لیڈرشپ کی پرورش کا دروازہ بھی کھلنے دیا جائے گا؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ایک تبصرہ برائے “خالقوں اور لے پالکوں کا کھیل”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت مدلل اور جان دار تحریر ۔۔۔ المیہ ۔۔ اور اس سے جنم لینے والے مزید المیوں کو اُجاگر کرتی کہانی۔۔۔۔”عمران زدہ”خوب صورت ترکیب۔۔۔ جو اس خاص مائنڈ سیٹ کو پیش کرتی ہے

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے