حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نے امریکا کے حوالے سے ایک تشویشناک رپورٹ شائع کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ
’سال 2023 کو امریکا میں 49500 افراد نے اپنی جانیں لے لیںٗ۔
اس طرح طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ تقریباً سات لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں 60 فیصد آبادی میں جو کہ 30 سال سے کم عمر کی ہے جس میں خودکشی موت کی چوتھی بڑی وجہ بن چکی ہے‘۔
کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ اس دور کا انسان ‘ڈی ریل‘ہو گیا ہے۔ بچاؤ اور بقاء کے لیے طرزِ فکر و عمل بدلنا پڑے گا ورنہ ایک ہمہ جہت تباہی ہر طرف جھاڑو پھیر دے گی اور ایک خوشحال انسان کے وجود کو قصہ پارینہ بنا دے گی‘۔
خود کشی پر آمادہ ہونا سادہ اور سطحی مسئلہ نہیں۔ بے شمار دیکھی اور ان دیکھی وجوہ مل کر ایک فرد کو اپنی زندگی ختم کرنے پر تیار کر رہی ہیں لیکن کچھ وجوہ اس سنگین اقدام تک لے جانے والی بہت واضح اور نمایاں ہیں۔ اگر زندگی مقصد سے عاری ہے، اطمینان سے محروم ہے، توازن اور تحریک سے خالی ہے، محبت، ذمہ داری اور جوش و خروش سے روشن نہیں ہے، سچائی پر ایمان کی نعمت میسر نہیں، انسانی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں مصروفیت نہیں، بس کھانے پینے، رہنے پہنے، چلنے پھرنے اور چند محدود مالی، جنسی اور ذوقی خواہشات سے آگے سوچ نہیں جاتی تو ایسے طرزِ زندگی میں زیادہ دیر تک اطمینان نصیب نہیں ہوتا اور یوں ایک فرد ایسا بے زار ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی کی عظیم ترین نعمت ختم کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔
آج کل دنیا بھر میں لوگوں نے اپنی زندگی حقیقی بنانے کی بجائے مصنوعی رنگوں سے مزین کرنے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ کہیں پہ دل خالی، کہیں پہ روح خالی، کہیں پہ زندگی خالی، کہیں پہ جیب خالی، کہیں پہ نظر خالی اور کہیں پہ صبح و شام خالی۔ اس ’خالی پن‘ نے آج کے انسان ایک کو بڑے تناؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ دنیا کا دیوانہ بھی ہے اور اس سے بے زار بھی، وہ صبح و شام خواہشات کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود سیر نہیں ہو رہا، وہ شہوانی میلان سے بھرا لیکن حقیقی سکون سے محروم ہے، وہ انسانیت کے نام پر شور زیادہ کرتاہے لیکن انسانی ہمدردی کا روادار کم ہی بچا ہے۔ عورت، طاقت، دولت اور شہرت کی بخار نے انسان کو اندھا کر دیا ہے۔ اس طرح کی علتوں نے آج کے انسان کو اطمینان سے یکسر محروم کرتے ہوئے اسے ایک ہمہ جہت بے چینی اور ڈپریشن میں مبتلا کر دیا ہے۔
آج کل ذہنی ڈپریشن، بے چینی، جذباتی توازن میں خرابی کی شکایت، اور شیزوفرینیا کو خودکشی کے لیے اہم خطرات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ عوارض کسی بھی شخص کی تناؤ سے نمٹنے، اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھنے اور روزانہ کے معمولات اور معاملات میں معقول روش اختیار کرنے کی صلاحیت کو خراب کرتے ہیں، جس سے ناامیدی اور مایوسی کے جذبات مسلسل جنم لے رہے ہیں مزید برآں، دماغی صحت کے عوارض کو اکثر لوگ نظر انداز کرتے ہیں اور ان کی درست تشخیص پر توجہ نہیں دیتے نتیجتاً ان کا کما حقہ علاج نہیں ہو پاتا۔
دنیا بھر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک اور بڑی وجہ سماجی تنہائی اور بے زاری ہے۔ آج کی تیز رفتار اور ڈیجیٹل ذرائع سے جڑی دنیا میں، بہت سارے لوگ آس پاس میں موجود لوگوں سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں جس سے بامعنی سماجی رابطوں میں شدید کمی محسوس ہو رہی ہے۔ سماجی زندگی میں تنہائی اور بے زاری، باہم بیگانگی اور بے وقعتی کے احساسات کا باعث بنتی ہیں، جس میں شدّت آنے سے خودکشی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے سائبر دھونس و دھاندلی اور آن لائن ہراسیت کے واقعات میں بھی بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔
دنیا بھر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان میں معاشی عوامل ایک اور اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ معاشی مشکلات جیسے بے روزگاری، غربت، اور مالی عدم استحکام جیسے مسائل میں بہت زیادہ اضافے، تناؤ اور مسلسل اضطراب کا باعث بنتا ہے، جس سے بڑی تعداد میں لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں نا امیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ معاشی طور پر کامیابی کے لیے سماجی دباؤ سے بھی لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، شدید بے چین لوگوں میں بھی خودکشی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ثقافتی اور اخلاقی اقدار سے روگردانی جیسے عوامل یعنی صنفی اصول اور سماجی توقعات بھی دنیا بھر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے وسیع ترین اور بے قید استعمال نے لوگوں کو دوسرے معاشروں اور افراد سے مانوس اور اپنے معاشروں اور لوگوں سے اجنبی بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے لوگوں کے اندر غیر محسوس انداز میں ایسی توقعات پرورش پا لیتی ہیں جن کے اپنے معاشرے متحمل نہیں ہوتے مزید برآں، یہ صورتحال مختلف ثقافتی رویوں اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیتوں کو متاثر کر رہی ہے۔
سچائی پانا، اپنی زندگی اور اعمال کو اس سے ہم آہنگ کرنا، اپنی توقعات اور احوال کو باہم قریب رکھنا، جمود کو توڑنا، محنت سے آگے بڑھنا، سماجی روابط بڑھانا اور اخلاقی اقدار کا کما حقہ لحاظ رکھنا ایک اطمینان بخش زندگی کے حصول میں اثر انداز محرکات ہیں انہیں ضرور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے بڑا اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف معاشرتی سرگرمیاں، مقصدی اہداف اور باہم پرخلوص تعلقات بھی ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف دینی، سماجی اور نفسیاتی ماہرین کو عوامی تربیت کے واسطے متحرک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بالعموم عام لوگوں میں زندگی کو کامیاب اور اطمینان بخش بنانے کے لیے امکانات بارے آگاہی نہیں ہوتی انہیں امید دلانے اور کامیابی کے امکانات بارے مشاورت دینے سے بھی کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔
معاشرے میں معاشی تفاوت کو دور کرنا اور مالی مشکلات کا سامنا کرنے والے لوگوں کو ٹھوس مدد فراہم کرنا خودکشی کو روکنے کے لیے بہت اہم اقدام ہے۔ اس ممکنہ سرکاری اور سماجی پروگرام میں معاشی مساوات کو فروغ دینے والی پالیسیوں کا نفاذ شامل ہونا چاہیے، جیسا کہ غریب آبادیوں کے لیے تعلیم و ہنر کا انتظام، ملازمت کی تربیت، اور ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔
یاد رکھیں ضرورت مند افراد کو مالی امداد اور وسائل فراہم کرنے سے دو طرفہ تناؤ کو کم کرنے اور مجموعی ذہنی اور جذباتی صحت کو بہتر بنانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن دنیا بھر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی پروگرام کو نافذ کرنا حد درجہ ضروری ہو گیا ہے جس میں خودکشی کی بنیادی وجوہات کی روک تھام کا سامان وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ مثلاً دماغی صحت کی خدمات تک رسائی، پریشان حال لوگوں کے لیے بروقت مالی امداد کو ممکن بنانا، اخلاقی تربیت اور جذباتی توازن کے لیے ایک سازگار ماحول کو فروغ دینا شامل ہیں۔
اس مقصد کے لیے اگر عقل مند، دولت مند، اختیار مند اور مطمئن لوگ پوری طرح مربوط انداز میں متحرک ہو جائیں تو نہ صرف بڑھتی ہوئی خود کشیوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے بلکہ ایک خوشحال اور صحت مند معاشرہ بھی وجود میں آ سکتا ہے جہاں سب ایک بامقصد اور باوقار زندگی کی نعمت سے سرفراز ہو۔
تبصرہ کریں