ڈرائنگ روم میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی اور دونوں نوجوان چپ سادھے، سحرزدہ سے سنے جارہے تھے۔رواں گفتگو جیسے بہتے پانی پر کوئی خاموش ناؤپھسلتی جائے۔ دھیما لہجہ، ایک ایک لفظ الگ، شگفتہ لہجہ جس میں گاہے پنجابی کے لفظ در آتے، ریڈیو کے کلاسیکل براڈ کاسٹروں والا مخصوص زیروبم۔ تواضع کے لیے لائی کیک، پیٹیز، پیسٹریوں اور ڈرائی فروٹ سے لدی ٹرالی ساتھ رکھی تھی۔چند منٹ پہلے ہاسٹل میں مقیم دونوں لڑکوں نے ندیدی نظروں سے کیک اور پیٹیز کو تکا تھا، مگر پھر گفتگو کا جادو انہیں بہا کر لے گیا۔
پیالی میں ڈالی چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی، پلیٹ میں رکھے کیک پیس کو کھانے کا خیال تک نہ تھا۔ بس گفتگو کا جادو تھا جو چلے جا رہا تھا۔یہ اشفاق احمد کی ایک محفل تھی۔ ان کے ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن والے گھر کے ڈرائنگ روم میں دو پردیسی نوجوانوں کے لیے اپنی دوپہر کی نیند قربان کر کے نکالا گیا وقت۔یہ نشست آج اٹھائیس سال گزر جانے کے بعد دل پر نقش ہے۔ اپنے زمانے کے لیجنڈ اشفاق احمد کی ہم بہاولپور سے آئے دو نوجوانوں کے لیے اتنی تواضح، مہمان نواز ی اور شفقت ناقابل فراموش ہے۔
اشفاق صاحب ایک حیران کن آدمی تھے۔ ہماری نسل اور ہمارے بعد کے نوجوانوں پر اشفاق صاحب نے بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ ان کی تحریروں کی تاثیر اپنی جگہ، مگر ان کے ٹی وی پروگرام ’زاویہ‘ نے لاکھوں بلکہ کئی ملین افراد کو متاثر کیا۔ آج کل بھی فیس بک پر زاویہ اور اشفاق احمد کی آخری کتاب ’بابا صاحبا‘ کے اقتباسات پوسٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی پران کا ڈرامہ‘من چلے کا سودا‘ چلا، اس نے ہم دوستوں کو مسحور کر کے رکھ دیا۔ نوجوان قارئین کو میں اشفاق احمد کے افسانے پڑھنے کا مشور ہ ضرور دوں گا۔ ان کا اپنا ایک سٹائل اور خاص قسم کا ذائقہ ہے، جو کہیں اور نہیں مل سکتا۔
ان دنوں لاہور میں تازہ تازہ وارد ہوا تھا۔ صحافت کا آغاز تھا، وقت خاصا میسر تھا۔ہم نے سوچا کہ مختلف ادیبوں، دانشوروں سے ملاقاتیں کی جائیں۔اشفاق احمد کی تحریر اور گفتگو نے ہم سب پر گہرے اثرات مرتب کر رکھے تھے۔ بابے اور صوفیوں سے دلچسپی تھی، روحانیت‘سیکھنا‘چاہتے تھے، سیکھنا کا لفظ دانستہ استعمال کیا کہ آج بھی بہت سے نوجوانوں سے بات ہوتی ہے تو وہ روحانیت سیکھنے کے طلبگار ہیں، گویا کہ یہ کوئی ٹیکنیکل ڈپلومہ یا کمپیوٹر پروگرامنگ کورس ہے۔
خیر سردیوں کی ایک خنک دوپہر ہم اشفاق احمد سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ وقت میرے دوست نے لیا تھا جو بہاولپور سے چند دنوں کے لیے لاہور آیا ہوا تھا۔ فون پر ان سے درخواست کی کہ ایسا وقت دیں، جب رش کم ہو۔ انہوں نے مہربانی کی اور اپنے مصروف شیڈول میں سے تین چار گھنٹے نکالے۔
احمد پورشرقیہ جیسے پسماندہ شہر سے اٹھ کر لاہور آنے والے میرے جیسے نوجوانوں کو اشفاق احمد جیسی سیلبریٹی سے اتنی توقیر اور عزت افزائی کی توقع نہیں تھی۔
اشفاق احمد سے اسی طرح کی دو چار نشستیں بعد میں بھی رہیں، ہر بار کئی الجھنیں حل ہوئیں، نئے نکتے پیدا ہوئے اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی ملاقات میں میرے دوست نے پوچھا کہ کسی بابے کا پتہ بتائیں؟ اشفاق صاحب کی آنکھوں میں چمک آگئی، ترنت بولے،‘بچو،کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ بی اے کرنے کے لیے چودہ سال محنت کی، بابا ڈھونڈے کے لیے ایک مہینہ تو محنت کرو۔‘
بعد کی ملاقاتوں میں مختلف زاویوں سے یہ سوال دہرایا جاتا۔ ہر بار ان کا جواب ہوتا، ’ہر ایک کو اپنا بابا خود ڈھونڈنا ہوتا ہے، یہ بتانے سے نہیں ملتا، تھوڑی کوشش کرو، خواہش پیدا کرو تو رہنمائی ازخود مل جائے گی۔‘ یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آتی۔ ایک دن وہ کہنے لگے،’ تم لوگ بابا کیوں ڈھونڈنا چاہتے ہو؟ کیا اس لیے کہ اس سے دعا کرا کے اپنے کام نکلوا سکو، اچھی ملازمت، پسند کی شادی، جاب میں ترقی، باہر جانے میں کامیابی وغیرہ؟……۔بابے اس لیے نہیں ہوتے، ویسے بھی محنت اپنی ہوتی ہے، استاد تو صرف کسی حد تک رہنمائی ہی کر سکتا ہے۔“
پھر کہنے لگے،‘یہ جو باہر سڑک پر جھاڑو لگا رہا ہے، اسے اپنا بابا بنا لو تو یہ تمہارا بابا بن جائے گا۔‘یہ بات سن کر ہکابکا رہ گیا۔ ایک سوئپر کس طرح ہمارا بابا بن سکتا ہے۔ ان سے سوال کیا تو بولے، ‘جسے بھی اپنا بابا بنا لو، کام ہوجائے گا۔‘ بہت بعد میں ان کی یہ بات سمجھ آئی کہ اصل چیز اطاعت کا جذبہ ہے اور کس طرح صوفیا تصور شیخ سے تصور رب تک کی منازل طے کراتے ہیں۔
اشفاق صاحب کی باتیں سمجھ سے بالاتر تھیں، ہم جھنجھلا کر ایک اور سوال داغ دیتے، وہ کھل کر مسکراتے اور پھر اپنے مخصوص نرم، شفیق انداز میں پہلے سے ٹیڑھا جواب دے دیتے۔ زیادہ زور دیتے تو کہتے،کچھ ذکر کیا کرو، اللہ کو یاد کرو گے تو تمہاری بالائی منزل(دماغ)میں لگے جالے، جھاڑ جھنکار صاف ہونے لگے گا، اندر کی سیاہی کم ہوگی اور من کی پیاس بھی بجھے گی۔
انہی دنوں لاہور کے معروف صوفی دانشور اور صاحب عرفان بزرگ قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے پاس جاناہوا،ان کی گفتگو سنی اور بعد میں ان کی کتب پڑھیں تو بہت سے مسائل حل ہوگئے۔ ویسے اشفاق احمدبھی ان کے مداح تھے اوران سے ملنے جایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ شاہ صاحب کے پاس جب میں شروع میں گیا تو چھوٹتے ہی فرمائش کر دی کہ شاہ صاحب روحانیت سیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ مسکرا کر بولے، کیوں؟یہ سن کر چکرا گیا، کچھ سمجھ نہ آیا کیا جواب دوں، بے اختیار منہ سے نکلا، تاکہ نیک بن سکوں۔ شاہ صاحب نے بڑی نرمی سے کہا، بھائی اس کا بہت آسان نسخہ بتا دیتا ہوں۔ آپ ﷺکی سیرت مبارکہ کا مطالعہ شروع کردیں، کوئی سی اچھی کتاب پڑھیں، باربار پڑھیں، اسے سمجھیں اور پھر اس کی پیروی کی کوشش شروع کر دیں۔ہر مرحلے پر یہ سوچیں کہ ہمارے آقا ﷺکیا کیا کرتے تھے؟، ایسا کرنے سے خود بخود نیک ہوجائیں گے۔‘ بہت عمدہ نصیحت تھی، مگر سچی بات ہے، تسلی نہ ہوئی۔
دراصل ہم لوگ روحانیت سے مراد وظائف، عملیات اور نادیدہ قوتوں تک رسائی مراد لیتے ہیں۔ ہمیں تکوینی نظام میں دلچسپی ہوتی ہے، ابدال، اوتاد، قیوم، قطب،غوث وغیرہ کے قصے مسحور کردیتے اورصاحب کشف بننا مقصود ہوتا ہے۔
دنیاوی تقاضوں اور صحافتی مصروفیات نے ہمارے ذہن سے تو روحانیت کا سودا نکال دیا، پھر یہ بھی ہوا کہ جب اس موضوع پر کچھ مطالعہ کیا اور شاہ صاحب جیسے بزرگوں کی گفتگو سنی تو اندازہ ہوا کہ روحانیت کے پورے سکول آف تھاٹ کا مقصد طالب علم یا سالک کو شریعت پر پابندی کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہی واحد مقصد ہے، اس کے سوا روحانیت کچھ بھی نہیں۔ جو بھی ریاضت کرائی جاتی، تصوف کے تمام سلسلوں کے تمام اسباق کو مقصد باطنی صفائی، تزکیہ نفس اور ایثار کی عادت ڈالنا ہے۔ سنت محمدیﷺ پر عمل کرنے کے لیے تیار کرنا، جسمانی اور ذہنی طور پر اتنا مضبوط بنا دینا کہ اپنی اندرونی الائش سے پاک ہو کرآدمی بے غرض ہوسکے۔قرآن کا مطلوب انسان بن سکے۔
روحانیت کی جو گلیمرائزڈ شکل دور سے نظر آتی ہے، قریب سے قطعاً ایسا نہیں۔ کسی شخص کو اگر رب تعالیٰ نے کچھ علم عطا کیا بھی ہے تو اس پر پابندیاں اس قدر سخت ہیں کہ وہ اس سے اپنے لیے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی روحانیت آدمی کو راضی بہ رضا ہونا سکھاتی ہے۔ یہ سمجھاتی ہے کہ رب تعالیٰ ہماری ماؤں سے کئی سو گنا زیادہ شفیق اور مہربان ہے، اس کے ہر کام میں کچھ مصلحت ہے، رزق میں تنگی ہو یا کشادگی سب اسی کی طرف سے ہے، مصائب بھی اسی کی طرف سے ہیں اور پھر بدلے ہوئے پر مسرت دن بھی اسی نے لانے ہیں۔ اس لیے اللہ کی مرضی میں خوش رہیں۔
مجھے اکثر فیس بک پر نوجوانوں کی طرف سے دو فرمائشیں آتی ہیں، کسی بابے کا پتہ بتائیں اور روحانیت پر کون سی کتاب پڑھی جائے۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً دنیاوی آلائش میں لتھڑے ہوئے اخبارنویس سے یہ حسن ظن جانے کیوں ان کے دلوں میں آ گیا۔جی چاہتا ہے کہ اشفاق احمد کا جواب دہرا دیا جائے۔
صوفی وہ ہے جو اپنی ذات کے گرد لوگوں کو کھینچنے کے بجائے اللہ کی طرف متوجہ کرے، اپنے آپ کو نفی کرے اور مرید بنانے کے بجائے لوگوں کی اصل بنیاد(قرآن وسنت) کی طرف رہنمائی کر دے۔یہ جان لینا چاہیے کہ صوفی کا عملیات، پراسرار علوم اور موکلات وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ کرامات نہیں دکھاتا، بلکہ اپنی پوری زندگی سنت محمدی ﷺکے مطابق گزارتا ہے، یہی سب سے بڑی کرامت ہے۔صوفی نصیحت کرنے کے بجائے عملی طور پر رول ماڈل بنتا ہے۔
اشفاق صاحب اور دیگر صوفیا کے پاس حاضری دینے سے چند باتوں کی سمجھ آگئی:
ہر ایک کو اپنا بابا خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ٹِپس نہیں دیے جا سکتے۔ اصل بات کیمسٹری ملنے اورایک ہی فریکوئنسی پر ہونے کی ہے۔
دوسرا یہ کہ اگر کسی کو بابا نہیں ملا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نیک اور اچھا انسان بننے کے لیے کسی پیرومرشد یا بابے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا پیغام کتابی صورت میں موجود ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی صورت میں عملی تشریح بھی۔ اصل کلید یعنی کنجی یہی ہے۔
تیسرا یہ کہ حقیقی صوفی لینے والا نہیں، دینے والا ہے۔ جہاں پر نذرانوں کی ضرورت پڑے اور اس کی حوصلہ افزائی ہو، سمجھ لیں کہ آپ کسی ‘رانگ نمبر‘ سے ملے ہیں۔
چوتھا یہ کہ صوفی اپنے گرد مجمع اکھٹا کرنے اور اپنی شخصیت پرستی کی تلقین کے بجائے لوگوں کو رب کے ساتھ جوڑتا ہے، وہ خود بیچ میں سے نکل جاتا ہے۔ اس کا یہی کام ہے۔ اگر کوئی ڈگڈگی بجا کر اپنے گرد مجمع اکھٹا کر رہا ہے تو پھر وہ مداری ہے، صوفی نہیں۔
آخری بات یہ کہ تصوف یا روحانیت کی طرف دلچسپی اپنی باطنی اصلاح، تزکیہ نفس کے لیے کی جائے، کسی پراسرار دنیا کی طرف جانے،کمالات حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ یہی اصل کام ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔
تبصرہ کریں