انسان جن بنیادی خوبیوں کی بدولت مخلوقات میں ممتاز ٹہرا ہے ان سب میں عقل خاص اہمیت کے حامل چیز ہے۔ انسانی وجود میں سب سے زیادہ قابل احترام اور مطلوب خصوصیات میں سے عقل صف اول میں ہے۔ حیات انسانی میں سب سے مفید، سب سے مطلوب، سب سے اشرف اور سب سے ضروری جوہر اگر کوئی ہے تو وہ بلاشبہ عقل ہی ہے۔
زندگی میں تحفظ کے لیے عقل ضروری ہے، ترقی کے لیے عقل ضروری ہے، تعلیم کے لیے عقل ضروری ہے، تعلق کے لیے عقل ضروری ہے، اس طرح صحت کے لیے عقل ضروری ہے، مسرت کے لیے عقل ضروری ہے، محبت کے لیے عقل ضروری ہے، عزت کے لیے عقل ضروری ہے، جیت کے لیے عقل ضروری ہے، اس طرح بقاء کے لیے عقل ضروری ہے، ارتقاء کے لیے عقل ضروری ہے، دفاع کے لیے عقل ضروری ہے، دراصل زندگی میں کوئی ایسا دائرہ ہے ہی نہیں جس میں عقل کی ضرورت انسان کو نہ ہو۔
عقل کی ایک سطح فرد کو حاصل ہے، ایک سطح قوم کو اور اسی طرح بحیثیت مجموعی ایک سطح پوری انسانیت کو۔ عقل نے اپنی تمام تر ممتاز حیثیتوں کے باوجود ابہام کی چادر اوڑھ لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی کوئی واضح اور دو ٹوک تعریف ممکن نہیں۔
جس طرح عقل بطور جوہر موجود ہونے کے باوجود مبہم ہے اور اس جوہر کو رسائی کے لیے دماغ پر اچھا خاصا زور ڈالنا پڑتا ہے اس کے بغیر عقل کی طاقت کو کام میں لانا ممکن نہیں اسی طرح اس کی شکلیں بھی مختلف مقامات پر مختلف نقشوں میں ڈھل کر ظاہر ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر زاہد شاہ ممتاز دانشور ہیں اور مختلف اہم موضوعات پر ان کی تحقیقی تحریروں اور تبصروں نے ہمیشہ ناظرین کو بہترین رہنمائی فراہم کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ تبصرے میں عقل کی حقیقت پر خوبصورت روشنی ڈال کر اس کی ایک جامع تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’عقل وجود اور شعور کے درمیان ہم آہنگی کا نام ہے‘۔
یہ ایک زبردست تعریف ہے اور کافی حد تک واضح بھی لیکن عقل کی اصلیت اب بھی ملفوف ہے اور شاید قیامت تک ملفوف ہی رہے گی۔ خدا اور انسان کے درمیان ازل سے جو راز پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک عقل بھی ہے۔
عقل اصل میں کیا ہے؟ اور یہ افراد اور معاشروں کے لیے اس قدر اہم کیوں؟ سردست ہم تعریف کی بجائے عقل کے فوائد اور ثمرات پر بحث کر کے زندگی کے لیے اس کی افادیت کا ادراک کرتے ہیں۔ عقل کا سب سے بڑا اور نقد فائدہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر بندہ درست فیصلے لینے اور سنجیدہ مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے۔
عقل اور انسان کے درمیان قریبی رشتے میں نہ صرف فکری ادراک شامل ہے بلکہ اس ادراک کا عملی اطلاق ان طریقوں سے ممکن بنانا بھی ہے کہ جن سے عمومی فلاح و بہبود، بنیادی سچائی اور راستبازی نیز وسیع تر بھلائی اور خیر کو فروغ مل جائے۔
عقل کے استعمال انسان کے لیے زندگی کے ہر میدان میں اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانے کا تصور محال ہے، انسان اپنی باتوں، کاموں، عقائد و نظریات، ضروریات و مقتضیات، اہداف و مقاصد، تہذیب و تمدن اور تحفظ و سلامتی سمیت ہر چھوٹے بڑے معاملے میں عقل کا ضرورت مند ہے۔ انسان کے سامنے وقتی ضروریات بھی ہیں اور بنیادی اہداف بھی، دیرپا مقاصد بھی ہیں اور ماوراء نظریات بھی ان سب کو ان کی اہمیت اور افادیت کے تناظر میں عقل کے حصے دار بنانا ازحد ضروری ہے ورنہ زندگی اور نظام کی شیرازہ بندی میں خلل پڑے گا۔
انسان زندگی میں کسی بھی چیز سے، کسی بھی حد تک بے اعتنائی تو برت سکتا ہے لیکن عقل سے پل بھر کے لیے بھی نہیں۔ تاریخ میں اس حقیقت کا ادراک عوام اور خواص نے یکساں احساس کے ساتھ کیا ہے مثلاً پوری تاریخ میں فلاسفہ، مذہبی شخصیات، سائنسدانوں اور سیاسی اکابرین نے اس کی جا بجا تعریف کی ہے۔ سقراط نے کہا تھا، ” حقیقی عقل سے یہ جاننا ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں جانتے۔” یہ بیان حقیقت میں دانشمندی، عاجزی اور وسیع النظری کا مظہر ہے اور حقیقت میں یہی عناصرِ ترکیبی ہی عقل کی بنیادیں ہیں۔
عقلمند افراد اپنی سمجھ بوجھ اور عمل درآمد کی حدوں کو پہچانتے ہیں نیز سیکھنے سکھانے، سمجھنے سمجھانے اور مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عقل کا ایک پہلو لچک اور اعتدال ہے۔ عقلمند سختی سے نمٹنے اور چمٹنے والے نہیں ہوتے بلکہ وہ نئی معلومات، بدلتے حالات اور ٹھوس حقائق کی قبولیت میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ ہم سب میں سے کوئی بھی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں ہم سب نیچے اور ارد گرد میں جا بجا موجود ہیں کسی ایک کو کچھ نظر آتا ہے تو کسی اور کو کچھ۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک ہی ذات فائز ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔
عقل کا تعلق اگر چہ بے شمار چیزوں سے ہے لیکن عقل کا سب سے قریبی اور دیرینہ "دوست” علم ہے۔ علم عقل سے اس قدر قریب ہے کہ علم کو باقاعدہ عقل کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے۔ عقل اور علم کی وحدت سے معلومات کے مختلف ٹکڑوں کو باہم ترکیب دینے، پھر اس تعامل سے بنیادی نمونوں اور اصولوں کو سمجھنے اور بالآخر اس سے برآمد ہونے والے نتائج اور ثمرات کو عظیم تر مقاصد کی خدمت میں بروئے کار لانے کی گہری صلاحیت شامل ہے۔
علم کے بعد عقل کا تعلق سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر بنیادی انسانی اقدار کے ساتھ ہوتا ہے یعنی عقل فیاضی، رحم دلی، وسیع الظرفی، مہربانی، خیرخواہی، انصاف پسندی، انسان دوستی، خوش اخلاقی، تہذیب پروری، اولالعزمی اور شرافت نفسی کے ساتھ زیادہ آسودہ حالت میں رہ کر زیادہ بہترین نتائج دینے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ ان تمام خوبیوں کا تقاضا ہوتا ہے کہ انسان صرف اپنے آپ کو نہ دیکھے بلکہ دوسروں کو بھی دیکھے، صرف آج کو نہ دیکھے کل کو بھی نظر میں رکھے، صرف مادے میں سرگرداں نہ ہو بلکہ اقدار کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھے۔ صرف موجودہ دور میں ہی نہ ڈوب کر رہے بلکہ آئندہ دور کی تحفظ کو بھی توجہ میں جگہ دے۔
عقل مند لوگ وسیع تناظر میں سوچنے والے، گہرائی سے سمجھنے والے، خیر خواہی سے دینے اور قبول کرنے والے اور ہاں مشترکہ مقاصد کی جانب متفقہ طور پر آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں، عقل مند جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے ہمیشہ اپنے اعمال اور ترجیحات دیرپا نتائج کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ایسے فیصلے لینے میں کامیاب رہتے ہیں جو دور رس نتائج کے حامل ہو۔ یاد رہے کہ حاملین عقل کا انتخاب ذاتی اغراض کے مطابق نہیں بلکہ وسیع تر فلاح و بہبود کے عزم سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
عقل ایک مطلق چیز نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت ہے یعنی اس کی فعالیت، نشوونما اور کارآمدی مختلف حال احوال کے اندر گھٹتی بڑھتی ہے۔ ہم علم اور اقدار سے عقل کے تعامل بڑھا کر اپنے وقت کے مشکل مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار بصیرت، دور اندیشی اور اخلاقی جرأت پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم بدلتے رجحانات اور مطلوب ترجیحات میں توازن پیدا کرنے، مختلف نقطہ ہائے نظر کو ملانے اور اہم مسائل کا ایک ایسا حل تلاش کر سکتے ہیں جو زندگی اور اس کے احوال میں زیادہ نتیجہ خیز ہو۔ ایسا کرنے سے، ہم ایک ایسے معاشرے کے قیام کو ممکن بنا سکتے ہیں جو زیادہ منصفانہ، مشفقانہ، برادرانہ، پُرامن، مستحکم، پائیدار اور سب کے لیے پھلنے پھولنے کے امکانات سے بھرا ہو۔
عقل کے بے شمار فوائد اور ثمرات ہوتے ہیں مثلاً انفرادی سطح پر، عقل زندگی کے نوع بہ نوع چیلنجوں کے مقابلے میں زیادہ خوشی، تحسین، تکمیل، تحفظ اور لچک پیدا کر سکتی ہے۔ عقلمند افراد عام طور پر اپنے آپ اور اپنے آس پاس کی دنیا کے ساتھ زیادہ منسلک، متعلق اور پرامن رہتے ہیں۔ وہ جذباتی کم متحمل زیادہ، خوش گوار مزاج کے حامل اور ضرر رساں طرز عمل کا کم ہی شکار ہوتے ہیں، اور مختلف حال احوال کو باریک بینی سے سمجھ کر زیادہ سمجھداری کے ساتھ مناسب فیصلے لے کر آگے بڑھتے ہیں۔
سماجی سطح پر، امن، خوشحالی اور ترقی کی خاطر دانشمند رہنماؤں، با اختیار پالیسی سازوں، طاقتور حکمرانوں اور عام عوام کے لیے عقل کی بنیاد پر اشتراک عمل زیادہ آسان ہوتا ہے۔ عقل مندانہ طرزِ انتخاب، منصفانہ طرز حکمرانی، خیر خواہانہ تعلقات کار اور دانشمندانہ پالیسی سازی وہ قابل قدر اقدامات ہیں جن کی بنیادوں میں دراصل عقل کار فرما ہے۔
ہم اگر مذکورہ بالا اہداف کے حصول میں ناکام ہیں تو اس کی جڑیں ہماری پسماندہ تاریخ، مخصوص حالات، علم سے دوری، جمود زدہ سوچ اور مشترکہ بھلائی کے حصول کے لیے درکار جذبے میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔
عقل کو کام کا موقع دے کر ہم ایک زیادہ روشن، ہم آہنگ اور خوشحال مستقبل کی طرف جا سکتے ہیں۔ طرح طرح کے پیچیدہ اور باہم خلط ملط چیلنجوں سے گھری ہوئی اس دنیا کو عقل اور انصاف کے ذرائع سے کام لے کر نکالنا نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہے۔
آج چاروں اطراف سے دنیا سنگین چیلنجوں میں پریشان کھڑی ہے لیکن انسان اکثر وقتی خواہشات کی تکمیل میں ایسے بدمست ہو چلے ہیں کہ انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ ہر طرف تباہ کن جنگیں یا ان سے متعلق خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں لیکن فکر نہ دارد، موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ اور سماجی عدم مساوات سے لے کر سیاسی تفریق و تناؤ اپنی انتہاؤں پر ہے لیکن حضرت انسان زندگی کو صرف انجوائے کر رہا ہے اور بس۔ عقل میں ڈوب کر اور ہمہ جہت انصاف سے ہم آہنگ ہو کر فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ صرف عقل و انصاف ہمیں اس قابل بنا سکتے ہیں کہ ہم اس ہنگامہ خیز دور سے بخیر و عافیت گزر جائیں۔
عصر حاضر میں، تیکنیکی اعتبار سے، معاشرے کے لیے عقل کی اہمیت کچھ زیادہ ہی اجاگر ہوئی ہے۔ عقل مند افراد سائنسی اور تکنیکی ترقیوں، طبی پیش رفتوں اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی پشت پر بنیادی طاقت ہیں۔ وہ رہنما ہیں، وہ ماہر ہیں، وہ حوصلہ مند ہیں اس لیے وہ مسائل حل کرنے والے، اور خلوص سے ارد گرد کی دنیا کو سنوارنے والے ہیں۔
عقل کی ضرورت اس وقت بھی ظاہر ہوتی ہے جب ہم اس کی عدم موجودگی کے نتائج پر غور کرتے ہیں۔ عقلی معذوری یا علمی خلل کے حامل افراد اور معاشروں کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں اکثر و بیشتر اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں تعلیمی، سماجی، تیکنیکی، سیاسی اور تربیتی دائروں میں مشکلات سے لے کر باہمی تعامل اور ذمہ دارانہ طرزِ زندگی اپنانے میں مشکلات شامل ہیں۔ اسی طرح، جن معاشروں میں ذہین اور تعلیم یافتہ شہریوں کی کمی ہوتی ہے ان میں غربت، جہالت، بیماریوں اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل کے ساتھ پھر رہنا پڑتا ہے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہمیں ایک منصفانہ، مشفقانہ، پُرامن، پُرسکون، خوشحال، مستحکم اور پائیدار سماجی ڈھانچے کو قائم کرنے کے لیے عقل سے اپنا ناتا جوڑنا ہوگا اور عقل سے ہی ہر میدان میں کما حقہ کام لینا ہوگا۔ جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی پر عقلی توجہ مرکوز کر کے اور بلند تر انسانی اور الہامی صداقتوں سے رشتہ مضبوط کر کے ایک اچھی دنیا بنانے میں ہم سب کامیاب ہو سکتے ہیں ان شاءاللہ۔
تبصرہ کریں