عصر حاضر میں ایک طرف مختلف ذرائع اور امکانات کی بدولت علم و دانش کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے تو دوسری طرف زندگی کو بھی چاروں جانب پھیلنے کے مواقع فراوانی سے دستیاب آئے ہیں اور منطقی طور پر چاہیے تھا کہ علم اور زندگی میں کوئی فاصلہ اور رکاوٹ در نہ آئے لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے کے تناظر میں علم اور زندگی یا زندگی سے جڑے مسائل اور احوال کے درمیان کئی طرح کے ناقابلِ عبور فاصلے حائل ہوچکے ہیں۔
اکیسویں صدی میں پہنچ کر بھی ہم اپنے اہداف و مقاصد کے اعتبار سے بری طرح گومگو کا شکار ہیں، اس کے علاوہ مقدار، معیار اور ضروریات کے حوالے سے لاتعداد اور سنگین مسائل عشروں سے ہمارا منہ تک رہے ہیں جبکہ ہم ان کا۔ حالت یہ ہے کہ مسائل حل ہو رہے ہیں نہ وسائل استعمال۔ امن قائم ہو رہا ہے نہ بدامنی قابو، خوشحالی آ رہی ہے نہ سکون و اطمینان کا احساس ہے۔ ہر طرف بدنظمی ہے، بے ضابطگی ہے اور یہ کہ ہر جانب بے اصولی اور ناانصافی کا ایسا دور دورہ ہے کہ جس میں ہم سب بے ہنگم طور پر یہاں وہاں دوڑ تو رہے ہیں لیکن مسائل اور پریشانیوں کے بھنور سے نکل نہیں رہے۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں آدھے مدارس غیر رجسٹر شدہ ہیں۔ اسی طرح ایف بی آر کے مطابق بے شمار کاروبار رجسٹرڈ نہیں اور نہ کوئی انہیں رجسٹرڈ کروانا چاہتا ہے۔ یہی حال ملک کی طول و عرض میں گھومنے پھرنے والی گاڑیوں اور انسانوں کا بھی ہے۔ کیا اس دور میں یہ اتنا مشکل کام ہے کہ مدارس، کاروبار اور گاڑیوں یا افراد کی رجسٹریشن ناممکن ہو جائے؟
جدید ترین دور میں بھی ہمارے ہاں مہارتیں عنقا، بصیرتیں اپاہج، ذہانتیں پریشان، وحدتیں کمزور اور جذبے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ سیاست تناؤ اور تفریق، معیشت قرضوں اور سود، معاشرت غربت اور انتشار جبکہ تعلیمی نظام دھڑا دھڑ صرف ڈگریاں بانٹنے پر شفٹ ہو چکا ہے۔ پاکستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود شفافیت، نظم و ضبط، اخلاقی بلندی اور احساس ذمہ داری سے بالکل خالی لگ رہا ہے۔ اعتماد، استحقاق اور انصاف دوربین سے بھی دیکھنا مشکل ہے۔ معاشرے کا ڈھانچہ سانسیں لینے کی حد تک تو زندہ ہے لیکن بخدا اس میں حقیقی زندگی کب کی ختم ہوچکی ہے۔ احساس کہاں ہے؟ ادراک کہاں ہے؟ استحقاق کہاں ہے؟ اہتمام کہاں ہے؟ انتظام کہاں ہے؟ احتساب کہاں ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا دل، زندگی اور دماغ علم سے بہت دور چلے گئے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ان تمام بحرانوں کی اصل جڑ علم اور زندگی میں حائل بڑھتے ہوئے فاصلے ہی ہیں۔ دماغ پریشان، دل لاپرواہ اور زندگی کے تار و پود بکھر گئے ہیں۔ آئیے! انہیں پھر سے قریب لانے کے امکانات اور ذرائع پر ذرا غور کریں تاکہ معاشرہ علم کی طاقت سے دوبارا زندہ ہو سکے۔
زندگی اور علم کو ایک دوسرے سے قریب لانا عمومی فلاح و بہبود کے تناظر میں ایک بنیادی مقصد ہے جو معاشرے کی مجموعی ترقی و خوشحالی میں معاون و مددگار ہے۔ علم تاریخی عمل اور انسانی جستجو کا نچوڑ ہے، جو کہ زندگی میں ہماری درست رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں اپنے ارد گرد کے حقائق اور احوال سے بہتر طور پر سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔
زندگی مختلف تجربات، جذبات اور تعاملات کا ایک خوبصورت اور پیچیدہ امتزاج ہے جو کہ ہمارے وجود اور سماج کے تانے بانے باہم تشکیل دیتا ہے۔ علم اور زندگی کے درمیان در آنے والے خلیج کو ختم کر کے، ہم ایک ہم آہنگ توازن پیدا کر سکتے ہے جو کہ ہماری بصیرت کو اس دنیا کے بارے میں بڑھاتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
زندگی اور علم کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سب سے پہلا طریقہ معیاری سطح کی تعلیم و تحقیق ہے۔ تعلیم و تحقیق ہماری صلاحیتوں کو کھولنے اور دنیا کے بارے میں ہماری جان کاری کو بڑھانے کا ایک کلیدی ذریعہ ہے۔ لوگوں کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کر کے، ہم انہیں باشعور بنانے، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور معاشرے کی ترقی میں اپنا واضح حصہ ملانے کا موقع پیدا کر سکتے ہیں۔
معیاری تعلیم سے ہم نت نئے خیالات کو دریافت کرنے، پہلے سے موجود خام تصورات پر تنقید کرنے اور زندگی کے بارے میں اپنے مجموعی نقطہ نظر کو ضروری وسعت اور جدت دینے کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ زندگی بھر سیکھنے سکھانے کو فروغ دے کر اور لوگوں کو وہ تمام ضروری ذرائع مہیا کرنے سے جو انہیں کامیاب بنانے کے لیے درکار ہیں، ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں علم کی قدر کرے اور اس کے پیش کردہ مواقع سے کما حقہ فائدہ اٹھائے۔
علم اور زندگی کے درمیان فرق کو ختم کرنے کا ایک اور طریقہ مختلف تجربات سے سیکھنا ہے۔ تجربات سے سیکھنے میں وہ سب کچھ شامل ہیں جو لوگوں کو اپنا علم حقیقی دنیا کے حالات میں لاگو کرنے کے دوران پیش آتے ہیں۔ نظریاتی تصورات کو عملی مشقوں سے جوڑ کر، پیش آنے والے تجربات سے سیکھنے کا عمل لوگوں میں بصیرت کو گہرا کرنے اور روزمرہ کی زندگی میں مطلوبہ مہارتوں کو فروغ دینے میں ایک مددگار عمل ہے چاہے یہ انٹرن شپس کی صورت میں ہو یا دوران سروس مختلف لرننگ پروجیکٹس کی صورت میں، یا پھر بیرون ممالک تعلیم کے مواقع سے فیض یاب ہونا وغیرہ، انہیں تجربات سے سیکھنا لوگوں کے لیے اپنے معاشرے پر اپنے علم کے براہ راست اثرات کو دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔
تجربات سے سیکھنے کے تناظر میں، ایک دو ہلکے پھلکے اشارے دلچسپی سے خالی نہ ہوں گے مثلاً بار بار کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرامز ملک میں معاشی مسائل کے حل میں مددگار نہیں لیکن اس کے باوجود حکومت بار بار آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے جبکہ متبادل راستے تلاش کرنے پر توجہ نہیں دے رہی۔ اس طرح یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ گزشتہ بیس، پچیس برسوں کے دوران، امن اور استحکام کے لیے بے شمار ناموں سے فوجی آپریشنیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کیے گئے۔ اگر چہ یہ امن اور استحکام لانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں لیکن پھر بھی ایسے جاری رکھنے پر اصرار ہے۔
جدید ٹیکنالوجی بھی زندگی اور علم کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، مواصلاتی ٹیکنالوجی نے ہمارے لیے معلومات تک رسائی اور اشتراک کے طریقوں میں گویا ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر، ہم زندگی کے تمام تر شعبوں سے متعلق لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کر کے علم کے ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ایسے منصوبوں میں بھی تعاون کر سکتے ہیں جن کے اثرات عالمی اور علاقائی دونوں سطحوں تک دراز ہو۔ آن لائن کورسز اور ورچوئل رئیلٹی شوز سے لے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک، ٹیکنالوجی قدم بہ قدم ہمیں نئے آئیڈیاز دریافت کرنے، دوسروں کے ساتھ جڑنے اور اپنی کمیونٹیز میں بہتر تبدیلی پیدا کرنے کے ذرائع فراہم کر رہی ہے۔
تجسس اور تخلیقی صلاحیتوں کی ذہنیت کو فروغ دینا بھی زندگی اور علم کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ضروری ہے۔ تجسس ہمیں نئے تجربات کرنے، سوالات پوچھنے، اپنا دماغ گھمانے اور تہہ در تہہ طاری جمود کو توڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یاد رکھیں تجسس کے احساس کو پروان چڑھانے سے، ہم سیکھنے سکھانے کے جذبے کو عمر بھر ابھار کر رکھ سکتے ہیں اور یہ کہ اپنی قوت تخلیق کے ذریعے ہم محدود دائروں سے باہر جا کر سوچنے، تازہ بہ تازہ تصورات پیش کرنے اور یہ کہ مختلف طریقوں سے اپنے علم کو بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کے تمام تر پہلوؤں میں تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی کر کے، ہم اپنے دل و دماغ کے بند دریچے کھول سکتے ہیں اور نوع بہ نوع تجربات کے وسیع و عریض میز پر نت نئے تناظرات اور امکانات لا سکتے ہیں۔
زندگی اور علم کو ایک دوسرے کے قریب لانا ایک ہمہ گیر عمل ہے جس کے لیے معیاری نظام تعلیم، لگاتار تجرباتی عمل، دماغی توجہ کی مرکوزیت، جدید ترین ٹیکنالوجی کی سہولت اور آزادانہ تخلیقی سوچ کا امتزاج چاہیے۔ زندگی بھر سیکھنے سکھانے کی ذہنیت کو فروغ دے کر، دماغ کو مرکوز رکھ کر، نت نئے تجربات کو اپنا کر، جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر، تجسس اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے کر، ہم ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں علم زندگیوں کو اور زندگیاں علم کو تقویت بخشیں۔
زندگی اور علم کے درمیان فاصلے ختم کر کے، ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو متحرک بھی ہو اور حساس بھی، مہذب بھی ہو اور باشعور بھی، منصفانہ بھی ہو اور شفاف بھی، صحت مند بھی ہو اور مطمئن بھی، سیکھنے سکھانے کے لیے ہر دم آمادہ بھی ہو اور متلاشی بھی اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ ترقی و خوشحالی کے بے شمار امکانات سے مالامال بھی ہو۔
آئیے! ہم سب مل کر اور قدم سے قدم ملا کر ایک ایسے مستقبل کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں زندگی اور علم بغیر کسی فاصلے یا رکاوٹ کے آپس میں جڑے رہیں اور آئیے ! ایک ایسا ملک بنانے میں ہاتھ بٹائیں جو بلا تفریق سب کے لیے امن، سکون، اطمینان، احترام اور مواقع سے بھرپور ہو۔
گردش، سید عنایت اللہ جان
تبصرہ کریں