حافظ-منتھر-الاسد

بشار الاسد نے ہمیں بھی اندھیرے میں رکھا، کزن منتھر الاسد کا انٹرویو

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رواں ماہ جب شام میں باغیوں نے سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹا تو اسد خاندان کو ایک ایسی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے وہ تیار نہ تھا۔ برسوں تک اسد خاندان کا نام طاقت، اثر و رسوخ اور ظلم و بربریت کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔

بشارالاسد کی معزولی کے تین روز بعد دیے گئے ایک انٹرویو میں بشارالاسد کے کزن حافظ منتھر الاسد نے انکشاف کیا کہ ان کے خاندان کو بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

’بشار نے دنیا کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کو بھی دھوکہ دیا اور ہمیں سب کے سامنے شرمندہ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہر لحاظ سے غداری ہے۔ (بشار کو) ہمیں بتانا چاہیے تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ہمیں اس کے فرار کی خبر میڈیا سے ملی۔‘

منتھر الاسد کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کو اپنے معاملات سنبھالنے کا موقع بھی نہیں ملا۔

دمشق سے فرار کے بعد ماسکو پہنچنے پر روس نے بشار الاسد کو سیاسی پناہ دے دی۔ ’اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا، اپنے بھائی مہرالاسد کو بھی نہیں۔‘

حافظ منتھر الاسد دعویٰ کرتے ہیں کہ مہر الاسد پہلے لبنان، پھر عراق، پھر حمیمیم ہوائی اڈے سے روس چلے گئے۔ ’جب کہ میں، وسیم اور خاندان کے دیگر افراد پہاڑوں میں چھپے ہوئے تھے۔‘

شام کے صوبہ لتاکیہ کے گورنر حافظ منتھر الاسد 1987 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مرحوم شامی صدر حافظ الاسد کے بھائی اور سابق صدر بشار الاسد کے چچا جمیل الاسد کے پوتے ہیں۔ اسد خاندان کا فرد ہونے کے ناتے انھوں نے بھی ملک پر اسد خاندان کی حکمرانی سے فائدہ اٹھایا۔

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حافظ منتھر الاسد بشارالاسد کی غیر قانونی تجارت کے اہم تاجروں میں سے ایک تھے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کیسے اسد خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس تجارت سے معاشی فائدہ اٹھایا۔

تاہم انٹرویو میں حافظ منتھر الاسد کا اصرار تھا کہ وہ ان سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے۔ تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مہر الاسد کی سربراہی میں فورتھ ڈویژن نشہ آور مواد کیپٹاگون کی تجارت منظم انداز میں پھیلا رہی تھی۔

بشارالاسد اور ان کے بھائی مہر الاسد

کیا حافظ منتھر الاسد اب بھی معزول صدر سے رابطے میں ہیں؟ جس دن باغیوں نے بشار الاسد کی حکومت گرائی اس روز کے بارے میں ان کا کیا کہنا ہے؟

انٹرویو کے دوران حافظ منتھرلاسد نے انکشاف کیا کہ جس رات حماہ پر باغیوں نے قبضہ کیا اس رات صدر بشار الاسد کے اقتصادی مشیر یاسر ابراہیم نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں لتاکیہ میں لوگوں کو بھرتی کرنے اور انھیں ہتھیار فراہم کرنے کو کہا۔

حافظ کے مطابق انھیں ان نئی بھرتیوں کو جلد سے جلد شہر میں فوج کی سکیورٹی برانچ بھجوانے کا کہا گیا تھا تاکہ انھیں حماہ میں فوج کی مدد کے لیے بھیجا جا سکے۔

’جلد سے جلد لوگوں کو بھرتی کرو، اور ہم تمہیں ہتھیار بھیج دیں گے۔‘

تاہم، حافظ منتھرالاسد کہتے ہیں فنڈز کی کمی کے باعث وہ اس درخواست پر عمل درآمد کرنے سے قاصر تھے۔ ’بھرتی ہونے والے افراد کی فی کس تنخواہ تقریباً 60 لاکھ شامی پاؤنڈ تھی۔ فنڈز ان حالات میں حاصل کرنا مشکل تھے۔ اس طرح حماہ اور دمشق باغیوں کے قبضے میں چلے گئے۔‘

اسد حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل شائع ہونے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شامی اپوزیشن کی جانب سے فوجی مہم میں تیزی کے بعد کئی علاقوں میں مزید افراد کو بھرتی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

حافظ منتھرالاسد کا مزید کہنا تھا کہ انھیں بھرتی کے عمل کے لیے مالی اعانت حاصل کرنے کی غرض سے علاقے کے تاجروں سے رابطہ کرنے کو بھی کہا گیا تھا لیکن وہ ایسا کر نہیں سکے۔

تاہم وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ حکومت فوجی کارروائیوں کی مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی تاجر کے ساتھ کام کرنے کو تیار تھی۔ ان کے لیے سب سے اہم ایسے تاجر تلاش کرنے تھے جو اس کام کے لیے راضی ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کی فکر نہیں تھی کہ تاجر کون ہے۔ ’اہم بات یہ تھی کہ وہ سپاہیوں کی تنخواہیں دے۔‘

اس دوران اسد خاندان کو درپیش صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں بشار یا خاندان کے کسی فرد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

حافظ منتھرالاسد کہتے ہیں کہ اس وقت اسد خاندان کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے، اور نہ ہی خاندان ایوان صدر یا ریاست کے کسی بھی فیصلے میں شامل تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس وقت قردہہ میں تھا جب میں نے سنا کہ فوج پسپا ہو گئی ہے اور باغیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا ہے اور لتاکیہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تب میں نے محسوس کیا کہ حکومت گر چکی ہے۔‘

حافظ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے حکومت کے گرنے سے قبل متعدد انتباہی پیغامات بھیجے تھے، جو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سقوط سے پہلے صورتحال کافی ’واضح‘ تھی۔

’میں شامی فوج کے فورتھ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل غسان بلال سے بات کر رہا تھا اور میں نے ان سے کہا کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ ایک بڑی غلطی ہے۔‘

حافظ منتھرالاسد کہتے ہیں کہ انھوں نے جنرل بلال سے کہا آپ نے لوگوں کو بھوک میں مبتلا کیا، ان سے ان کا پیسہ اور کام کاج چھینا جس کی وجہ سے لوگوں کا حکومت سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔

’اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو 80 فیصد لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے۔‘

وہ 2017 سے 2024 کے درمیان حکومت کی طرف سے رائلٹی کے نفاذ، استحصال اور شہریوں کی املاک کی ضبطی میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سب عوامل نے بحران کو مزید بڑھاوا دیا جو بالآخر اسد حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔ لیکن مقامی افراد کے مطابق حافظ منتھر الاسد خود بھی اس عرصے کے دوران ان تمام سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

اسد حکومت سے وابستہ لوگوں کو پھانسی دیے جانے کے امکان کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وہ اپنے کزن سلیمان ہلال لاسد سمیت متعدد لوگوں کو سزائے موت دیے جانے کی اطلاعات کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم وہ خود بھی اس بارے میں تصدیق سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا سلیمان ہلال الاسد واقعی میں مارے گئے ہیں یا نہیں۔

’مجھے سچ میں اس بارے میں کچھ نہیں پتا، مجھے بتایا گیا کہ وہ مجھے بھی پھانسی دے دیں گے۔ تاہم اب تک ہم میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔‘

حافظ منتھرالاسد کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی قصوروار نہیں کیونکہ وہ ایک ریاست کے نیچے کام کر رہے تھے۔

حافظ منتھر الاسد کہتے ہیں کہ وہ ’انصاف‘  کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔ شامی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے امکان کے بارے میں ان کا کہنا ہے وہ کسی ’باقاعدہ ریاست‘ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

رامی مخلوف

وہ بشارالاسد کے کزن اور شامی کاروباری شخصیت رامی مخلوف کی مثال پیش کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی عام شہری کے مقابلے میں اسد خاندان کو کہیں زیادہ چیلنجز درپیش تھے۔ بشار الاسد کے دورِ حکومت میں رامی مخلوف کو گھر میں نظر بند رکھا گیا اور حکومت نے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی جائیداد بھی ضبط کر لی تھی۔

’میں کوئی سیاستدان نہیں ہوں اور میرا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے صرف اپنے خاندان کے نام کا استعمال کرتے ہوئے حکومت سے فائدہ اٹھایا۔‘

حافظ منتھر الاسد کہتے ہیں کہ انھوں ’اسد‘ نام کا فائدہ اپنی مشکلات حل کرنے یا سمگلنگ کے معاملات میں معاشی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا۔

جب حافظ منتھر الاسد سے خفیہ جیلوں اور قیدیوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اسد حکومت کی جیلوں کو سفاکانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی جیل میں داخل نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ ان جگہوں کی تفصیلات جانتے ہیں۔

صیدنا جیل

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسی کوئی بھی معلومات یا شواہد نہیں جن سے شام میں زیر حراست افراد یا جبری طور پر لاپتہ کیے گئے لوگوں کے بارے میں کچھ پتا چل سکے۔

’میں اس کے بارے میں نہیں جانتا اور نا ہی مجھے پتا ہے کہ ہمارے پاس اس طرح کے کوئی قیدی ہیں۔‘

’آپ مجھ سے کسی سپاہی کے طور پر بات نہ کریں، میں ایک عام شہری ہوں، اور مجھے صیدنایا جیل یا کسی اور چیز کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہے جتنا ٹی وی پر نشر ہوا۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے ساتھ ان کا فوجی کردار صرف محض لوگوں کو بھرتی کر کے انھیں ’ملٹری سکیورٹی‘ یا ’فورتھ ڈویژن‘ جیسی سکیورٹی برانچوں میں بھیجنے تک محدود تھا۔ وہ کہتے ہیں یہ سب کام انھوں نے ریاست کے کہنے پر اس کی چھت تلے کیے ہیں۔

’میں بھی باقی سب کی طرح ہوں۔ میرا سیاست یا مذہبی معاملات میں کوئی کردار نہیں رہا اور مجھے گرفتار کیے جانے والوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔‘

حافظ منتھر الاسد انٹرویو کے دوران اپنے ان دعوؤں کی بھی نفی کرتے نظر آئے کہ وہ شام کی جیلوں میں داخل نہیں ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ حکام نے انھیں تین ماہ اور 17 دن تک قیدِ تنہائی میں رکھا تھا۔

وہ اپنے اوپر ہونے والے جبر اور سنسرشپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم دوسروں سے بہتر نہیں تھے، لیکن ہم بول نہیں سکتے تھے۔‘

حافظ منتھر الاسد کے مطابق انھیں دو مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا۔ آخری بار انھیں تقریباً دو سال پہلے ’بشار الاسد پر لعنت بھیجنے کی ایک آڈیو ریکارڈنگ لیک ہونے کے بعد‘ 30 دن کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق انھیں رہائی کے لیے صدارتی امور کے سابق وزیر منصور عزام کو ایک لاکھ ڈالر دینا پڑے۔

اپنے جیل کے پہلے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں سترہ سال کی عمر میں جیل 215 میں نظر بند کیا گیا تھا۔

حافظ منتھر الاسد کا کہنا تھا کہ انھیں جیل میں ڈالنے کا مقصد ان کے والد پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ انھیں شامی حکومت کے خلاف آن لائن لکھنے سے روکیں۔

حافظ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ انھوں نے لتاکیہ شہر کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نہ کسی عورت کا ریپ ہوا نہ ہی کسی کو بلیک میل کیا گیا۔‘

حافظ منتھر الاسد کہتے ہیں کہ 2011 میں شام میں ساحلی علاقوں میں شروع ہونے والے مظاہروں کو دبانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

’2011 میں ہم بیوقوف تھے۔ ہم فریب میں مبتلا تھے اور یہ سوچ کر ہم اپنے آپ کو بچانے فکر میں لگے ہوئے تھے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دہشت گردی ہے، اور یہ کہ وہ ہمیں ذبح کر کے ہمارا فرقہ تباہ کر دیں گے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خطرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ شام کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ان کے مطابق بہت سے لوگوں نے بغیر جانچ کے اس کہانی کو سچ مان لیا۔

مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال کے الزامات کے بارے میں کا کہنا تھا ان کے خلاف لگائے گئے الزامات سچ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا سکیورٹی کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

’میں ریاست کی چھت کے نیچے کام کرنے والے تاجر اور مالیاتی امور دیکھتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھوں کسی کو قید یا تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔ حافظ منتھر الاسد کا کہنا تھا اگر ان کا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی مسئلہ ہوتا تو وہ اسے بلوا کر دو تھپڑ مار کر واپس بھیج دیتے لیکن اس پر تشدد نہیں کرتے تھے۔

لوگوں کی جانب سے ان کے جانے پر خوشیاں منائے جانے پر ان کا کہنا تھا ’یہ میرا شہر ہے، اور وہ لوگ اسے فرقہ وارانہ بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کی ایک بہن کا شوہر سنی ہے جبکہ دوسری بہن کا منگیتر بھی سنی ہے ۔ ان مزید کہنا تھا کہ ان کے والد نے بھی ایک سنی عورت سے شادی کی ہے۔

حافظ منتھر الاسد خود کو لتاکیہ میں ’دہشت کی علامت‘ سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے ان اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔

جب حافظ منتھر الاسد سے ان ویڈیوز کے بارے میں سوال کیا گیا جن میں ان کے کار شو روم میں مبینہ طور پر منشیات کی گولیوں کے تھیلے دیکھے جا سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تھیلے سوئمنگ پول کی صفائی میں استعمال ہونے والی گولیوں کے تھیلے ہیں۔

’میرے پاس ان کے نمونے موجود ہیں۔ جانچ پڑتال کے لیے انھیں آپ کو بھجوا سکتا ہوں۔‘

بی بی سی نے حافظ منتھر الاسد کے آبائی شہر لتاکیہ اور قردہہ گاؤں کے متعدد رہائشیوں کے ساتھ بات چیت کی۔ کئی افراد نے گواہی دی کہ حافظ منتھر الاسد نے تشدد، دھمکیوں اور غنڈہ گردی کا استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاروں اور تاجروں کو اپنے ساتھ شراکت داری پر مجبور کیا۔ بعد ازاں وہ ان افراد کی جائیدادوں پر مکمل قبضہ کر لیتے تھے۔

مقامی افراد کی جانب سے اس بات کی جانب بھی نشاندہی کی گئی وہ علاقے کے افراد کو اغوا کروا کر زبردستی فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور کرتے تھے۔ انکار کی صورت میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور کئی مواقع پر قتل تک کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ انکار کرنے والے شخص کے خاندان کے افراد کو بھی نقصان پہنچایا جاتا۔

مقامی افراد کا کہنا ہے حافظ کی دہشت کا عالم یہ تھا کہ ان کے آنے پر لوگ بھاگ جایا کرتے تھے۔ وہ اکثر لوگوں کو اس جملے کے ساتھ ڈرایا کرتے تھے، ’حافظ گلی میں آگیا ہے۔‘

لتاکیہ شہر کے ایک مستند ذریعے کے مطابق، حافظ خود خواتین کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرتے تھے اور وہ ریپ کے کئی واقعات سے واقف تھے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ بدنامی کے ڈر سے اپنے ناموں کو خفیہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے۔

حافظ کسی بھی خاتون کا ریپ یا بلیک میل کرنے کے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ (بی بی سی)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے