کرسمس، دنیا بھر میں اربوں انسانوں کی عقیدت اور مسرت کا مرکز و محور ہے۔ یہ سرد موسم میں منایا جانے والا وہ فقید المثال تہوار ہے جس میں اربوں انسان عقیدت اور مسرت کے سبب متحرک ہوتے ہیں۔ یہ موقع ایک بھرپور تاریخ اور گہری ثقافتی اہمیت رکھتا ہے۔ مسیحی تاریخ سے جڑی ہوئی کرسمس نے آگے بڑھ کر مذہب، روایت، ثقافت، معاشرت، مسرت، تجارت اور بین الاقوامیت کا خوب احاطہ کیا۔
کرسمس کی تاریخی ابتدا عیسائی دور سے ہوئی ہے، یہ موقع 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی یاد میں منانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ کرسمس کی کہانی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے گرد گھومتی ہے، جس کے مطابق بیت اللحم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے لمحات اور حالات کا احاطہ ہوا ہے۔ ان روایات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، حضرت مریم علیہ السلام کے احوال، جوزف، چرواہے اور تین عقلمندوں جیسے مشہور کرداروں کے ساتھ، امید، محبت اور مصیبت کے وقت صبر و استقامت کی صلاحیت جیسے تذکرے جا بجا موجود ہیں۔
صدیوں کے دوران، کرسمس کا تہوار مختلف ثقافتوں کے متنوع رسم و رواج اور روایات کو شامل کرتے ہوئے موجودہ حالت تک پہنچا ہے۔ گھروں کی سجاوٹ سے لے کر تحائف کے تبادلے تک، کرسمس کی روح مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ کرسمس ٹری، جو اصل میں ایک جرمن روایت ہے، جو سرد مہینوں میں زندگی اور روشنی کی نمائندگی کرتا ہے اس طرح سانتا کلاز کی شخصیت، مہربان سینٹ نکولس سے متاثر ہو کر کرسمس کی لوک داستانوں کا مرکزی حصہ بن گئی ہے۔ سرخ سوٹ میں ملبوس بوڑھا آدمی سخاوت اور مہربانی کے جذبے کو مجسم کر رہا ہے، یہ اہتمام لوگوں کو اس غیر معمولی خوشی کی یاد دلاتا ہے جو دینے سے حاصل ہوتی ہے۔
اپنی مذہبی اور ثقافتی جہتوں سے ہٹ کر، کرسمس کا تہوار دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان اتحاد اور خیر سگالی کے احساس کو فروغ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ اکثر خاندانوں اور دوستوں کے اکٹھے ہونے، باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے اور دیرپا خوشگوار یادیں تخلیق کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ احسان اور خیرات کے اعمال، جیسا کہ ضرورت مندوں کو عطیہ کرنا، ہمدردی کے جذبے کی عکاسی کر رہے ہیں جو کرسمس کا بنیادی مقصد ہے۔
کرسمس کا حقیقی جوہر انفرادی رشتوں سے آگے بڑھ کر عالمی ہم آہنگی، مددگاری اور سلامتی کے وسیع تر وژن کو شامل رکھتا ہے۔ تنازعات اور تفرقوں سے بھری دنیا میں، کرسمس کا پیغام عالمی سطح پر اتحاد و اتفاق، محبت و مروت، افہام و تفہیم اور امن و خوشحالی کے حصول کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ دنیا میں امن اور سب کے ساتھ خیر سگالی کا تصور کرسمس کا بنیادی موضوع ہے۔ یہ ان مشترکہ اقدار کی عکاسی کرتا ہے جو انسانیت کو جوڑتی ہیں اور لوگوں کو زیادہ ہم آہنگی، احترام اور خیر خواہی والی دنیا کی خاطر اختلافات کو ایک طرف رکھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ امن کی یہ انفرادی آرزو آگے چل کر تشدد، تعصب اور ناانصافی سے پاک دنیا کے لیے عالمی سطح پر ایک خوبصورت انسانی خواہش میں بدلتی ہے۔
جدید تناظر میں، کرسمس بین الاقوامی تعاون، مہربانی اور افہام و تفہیم کے لیے ایک منفرد اور وسیع موقع کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں ہم بے شمار تنازعات میں گھری دنیا کے اندر امن اور استحکام کے خاطر مکالمے، تعاون اور تنازعات کے حل کو فروغ دینے کے لیے ایک مؤثر تحریک حاصل کر سکتے ہیں۔ کرسمس کی علامتی اہمیت سرحدوں سے ماورا ہے، جو کہ مختلف پس منظر کے لوگوں کو مشترکہ مقاصد کے حصول میں متحد ہونے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔
کرسمس کی روایت، اپنی بھرپور تاریخ اور عالمی جشن کے ساتھ، ایک پائیدار طاقت اور انسانی روح کی آبیاری کے طور پر قائم و دائم ہے۔ سجاوٹ سے لے کر تحائف کے تبادلے تک، کرسمس امید، محبت، تعاون، مہربانی اور امن کا گہرا پیغام دے کر گزرتا ہے۔ ذاتی اور اجتماعی سطح پر ان اقدار کو اپنانے سے، افراد اور اقوام ایک زیادہ ہم آہنگ اور موافق دنیا کی تشکیل میں اپنا اپنا حصہ بطریق احسن ڈال سکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے اور انسانی روح شاہد کہ دنیا بھر میں سچائی، خیر خواہی، خلوص اور مہربانی کا سب سے بڑا ذریعہ، پیغمبروں کی سیرت اور تعلیمات ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ان پاک باز اور برگزیدہ ہستیوں نے پوری پوری زندگیاں اس مقصد میں لگائی ہیں کہ کس طرح انسانوں کی زندگیاں ہدایت اور محبت سے ہم آہنگ ہو کر گزرنا ممکن ہو۔ اس سلسلے میں آئیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بنیادی تعلیمات پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کہ اسلام اور اہلِ اسلام میں بھی ایک حد درجہ قابل احترام شخصیت ہیں۔ اگرچہ عیسائیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو اکثر و بیشتر بائبل کی عینک سے دیکھا جاتا ہے، لیکن اسلامی روایت میں بھی ان کی زندگی اور تعلیمات کے بعض اصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب چند بنیادی تعلیمات یہ ہیں:
توحید:
اسلام میں دوسرے انبیاء کی طرح، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا کی وحدانیت پر زور دیا۔ اس نے توحید کا پیغام دیا، بغیر کسی شریک کے ایک حقیقی خدا کی عبادت پر زور دیا۔ خالص توحید میں ’باپ بیٹا‘ آخر کہاں سے شامل ہوا ؟ یہ انسان کے اس مزاج کی ستم ظریفی ہے جس کے تحت وہ خالص ہدایت پر کبھی قناعت نہیں کرتا۔
محبت اور ہمدردی:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی تعلیمات میں محبت اور ہمدردی پر از حد زور دیا۔ اس نے اپنے پیرو کاروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہمدردی اور مہربانی کے جذبے کو فروغ دیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ فیاضی اور رحم دلی کا مظاہرہ کریں۔
معافی و درگزر:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں معافی ایک مرکزی موضوع ہے۔ اس نے لوگوں کو دوسروں کو معاف کرنے اور اپنی کوتاہیوں کے لیے معافی مانگنے کی ترغیب دی۔ یہ تصور استغفار اور توبہ کی اسلامی قدر کے عین مطابق ہے۔
عاجزی و تواضع:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں عاجزی اور انکساری کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ انھوں نے اپنے پیرو کاروں کو عاجزی اور تواضع اختیار کرنے اور تکبر سے بہر صورت بچنے پر بے پناہ زور دیا ہے۔
سماجی انصاف:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں سماجی اور عمومی انصاف کا اہتمام اصولی طور پر شامل تھا۔ انہوں نے ظلم کے خلاف بات کی اور تمام لوگوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کی پرزور وکالت کی، چاہے ان کی سماجی حیثیت کچھ بھی ہو۔
دعا اور عقیدت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا اور خدا سے گہری عقیدت میں منسلک ہونے پر زور دیا ہے۔ دوسرے انبیاء کی طرح، اس نے عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہنے کی ترغیب دی ہے۔
صدقہ اور سخاوت:
سخاوت اور خیر و خیرات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے ایک بنیادی پہلو تھا۔ انھوں نے اپنے پیرو کاروں پر زور دیا کہ وہ عطا کرنے والے بنیں، ضرورت مندوں کی مدد کریں اور اپنی برکات و عنایات دوسروں کے ساتھ باقاعدہ بانٹیں۔
خدا پر ایمان اور بھروسہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا کے منصوبہ بندی پر اٹل ایمان اور بھروسے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انھوں نے اپنے پیرو کاروں کو سکھایا کہ مشکل کے وقت خدا پر بھروسہ کریں اور اس کی حکمت پر بھرپور اعتماد بھی۔
توبہ و استغفار:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گناہوں سے توبہ کی اہمیت بتائی۔ انھوں نے اپنے پیرو کاروں کو غلط کاموں سے باز آنے، معافی مانگنے اور روحانی تزکیہ کے لیے کوشش کرنے کی ترغیب دی ہے۔
روحانی بیداری:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا مقصد روحانی بیداری ہے۔ انھوں نے اپنے پیرو کاروں سے کہا کہ وہ اپنی زندگیوں پر مسلسل غور کریں، خدا کے ساتھ گہرا تعلق قائم کریں اور روحانی ترقی اور آسودگی کے لیے لگاتار کوشش کریں۔
یہ تعلیمات بہت سے دوسرے انبیاء کے آفاقی اصولوں کی عکاسی کر رہی ہیں، یہ تعلیمات اخلاقی طرز عمل، سچائی، ایمان، انصاف، تعاون اور ہمدردی کے حصول پر زور دیتی ہیں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی اور رسول مانتی ہیں اور ان کی تعلیمات اسلام میں پائے جانے والے توحید اور ایک اخلاقی طرزِ زندگی کے وسیع تر پیغام سے مطابقت رکھتی ہیں۔
اب آئیے کرسمس کی کچھ علامتوں کی جانب مختصر اشارے کرتے ہیں۔
سانتا کلاز:
سانتا کلاز چوتھی صدی کے عیسائی بشپ سینٹ نکولس کی افسانوی شخصیت پر مبنی ہے جو اپنی سخاوت کے لیے جانا جاتا تھا۔ سفید کیپ کے ساتھ سرخ سوٹ میں سانتا کلاز کی جدید تصویر کو کوکا کولا نے 1930 کی دہائی میں عالمگیر مقبولیت دی۔
کرسمس ٹری:
موسم سرما کے تہواروں کے دوران درختوں کو سجانے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آتی ہے۔ 16ویں صدی میں جرمنوں نے اپنے گھروں میں سجے ہوئے درختوں کو لانا شروع کیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے شوہر شہزادہ البرٹ نے 19ویں صدی میں کرسمس ٹری کو انگلستان میں متعارف کرایا اور اس رواج کو مقبول بنایا۔
کرسمس جرابیں:
چمنی کے ذریعہ جرابیں لٹکانے کی روایت سینٹ نکولس کی کہانی سے شروع ہوتی ہے، جنھوں نے چپکے سے ایک ضرورت مند خاندان کو سونے کے سکے چمنی میں پھینک کر دیئے تھے۔
کینڈی کین:
ایک مشہور روایت میں ذکر ہے کہ جرمنی میں ایک کوئر ماسٹر نے بچوں کو کرسمس کی خدمات کے دوران خاموش رہنے کے لیے دے دیا۔ سرخ اور سفید دھاریاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون اور پاکیزگی سے وابستہ علامتیں ہیں۔
کرسمس کی چادریں:
چادریں صدیوں سے سجاوٹ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں، جو ابدیت اور زندگی کی علامت ہیں۔ عیسائیوں نے چادر کو کرسمس کی علامت کے طور پر اپنایا، جس کی گول شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابدی محبت کی نمائندگی کرتی ہے۔
گزشتہ سال پوپ فرانسس نے کرسمس کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری دھڑکنیں بیت اللحم کے ساتھ ہیں۔ ویٹی کن سٹی میں کرسمس کی تقریب ہوئی جس میں پوپ فرانسس نے کرسمس کا تہوار سادگی سے منانے کی اپیل کی ہے۔ پوپ فرانسس نے اس موقع پر مزید کہا کہ انصاف طاقت سے نہیں بلکہ محبت سے آتا ہے۔
انسانی تاریخ اور نفسیات میں چھپی پیچیدگیوں کی ستم ظریفی دیکھیے کہ مثالی درجے میں ایک مہربان اور مشفق شخصیت کے نام لیواؤں نے آج قومی اور ریاستی مبہم اغراض و مقاصد کے تحت دنیا بھر میں ظلم و ستم کا ایسا بازار گرم کر رکھا ہے کہ سوچ کر قلب و روح تڑپ اٹھتے ہیں۔ جس انسان کو اٹھانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا پورا زور صرف کیا تھا آج ان کے پیروکار پورا ریاستی زور اور جبر اسے گرانے میں لگا رہے ہیں اور انسانی عظمت کو مسلسل داغدار کر رہے ہیں۔ صلح کرنا یا مظلوم کا ساتھ دینا تو دور کی بات ہر جگہ ظالم کی پشت پناہی کو اپنی اصولی پالیسی ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے۔
کرسمس سے ایک بات ہم مسلمانوں کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں خوشی اور تقدس کے ہر موقع پر بنیادی ضروریات کی قیمتوں کو عوامی استطاعت سے نکالنے اور ناجائز منافع خوری کے لیے گویا ایک موسم بہار سمجھ لیتے ہیں اور یوں عوام کی مشکلات اور بوجھ میں اصافہ کر رہے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ کرسمس میں ضروری اشیاء کی قیمتیں آدھے سے بھی کم بلکہ برائے نام قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں اور خوشی و راحت کے مواقع کو چار چاند لگا دئیے جاتے ہیں۔
تبصرہ کریں