شام کے مفرور صدر بشارالاسد کا ایک بیان منظر عام پر آیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتے تھے تاہم انھیں اپنی فوج کے پسپائی اختیار کرنے پر یہ قدم اٹھانا پڑا۔
بشار الاسد سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ جس وقت دمشق باغیوں کے کنٹرول میں گیا وہ اس وقت لاذقیہ میں ایک روسی فوجی اڈے پر موجود تھے تاکہ ’فوجی آپریشن کی نگرانی‘ کر سکیں لیکن اس وقت تک شام کی فوج اپنی پوزیشن چھوڑ کر پیچھے ہٹ چکی تھی۔
بشار الاسد کے مطابق روسی ہوائی اڈے حمیمیم پر بھی ’شدید ڈرون حملے‘ ہو رہے تھے اور اسی وقت روس نے انھیں ماسکو لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
بشار الاسد سے منسوب یہ بیان انگریزی اور عربی دونوں میں شیئر کیا گیا ہے اور اس میں 8 دسمبر کے واقعات کی تفصیل دی گئی ہے کہ کیسے وہ روسی اڈے پر پھنس گئے تھے۔
’جب ہوائی اڈے سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تو روس نے درخواست کی کہ 8 دسمبر، اتوار کی شام کو فوراً اسے خالی کیا جائے اور وہاں موجود لوگوں کو روس پہنچایا جائے۔‘
’یہ سب دمشق کے (باغیوں کے) کنٹرول میں آنے کے ایک دن بعد ہوا جب شامی فوج نے اپنے ٹھکانوں کو چھوڑ دیا ور اس کے نیتجے میں تمام ریاستی ادارے مفلوج ہو گئے۔‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ان واقعات کے دوران میں نے کسی بھی موقع پر صدارت چھوڑنے یا پناہ لینے پر غور نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی فرد یا فریق نے اس وقت تک مجھے ایسی پیشکش کی تھی۔‘
’لیکن جب ریاست دہشتگردوں کے ہاتھ میں آ گئی اور میری معنی خیز کردار ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تو پھر میری وہاں موجودگی بھی بےمعنی ہو گئی تھی۔‘
جب ہیئت تحریر شام کی قیادت میں انقلابیوں نے صرف 12 دنوں میں شامی شہروں اور صوبوں پر قبضہ کیا تو بشار الاسد کہیں نظر نہیں آئے تھے۔
تاہم اس وقت یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ بشار الاسد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ جب انقلابی دمشق میں داخل ہوئے تو اس وقت بشار الاسد کے اپنے وزیرِ اعظم ان سے رابطہ کرنے سے قاصر تھے۔
اتوار کو علی الصبح جب انقلابی بغیر کسی مزاحمت کے دمشق شہر میں داخل ہو رہے تھے تو عسکریت پسند گروہ ہیئت تحریر الشام اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کیا کہ ’ظالم بشار الاسد (شام) چھوڑ گئے ہیں۔‘
دوسری جانب روئٹرز نیوز ایجنسی نے اس دوران دو سینیئر شامی فوجی افسران کے حوالے سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ بشار الاسد سیریئن ایئر کے ایک طیارے میں سوار ہو کر دمشق ایئرپورٹ سے اتوار کی صبح روانہ ہو گئے تھے۔
ملک چھوڑنے سے پہلے بشارالاسد نے آخری چند گھنٹے کہاں اور کیسے گزارے؟
نومبر دو ہزار چوبیس کے دوسرے ہفتے کے پہلے ہی دن شام کے سابق صدر بشار الاسد کا 24 سالہ دور حکومت ختم ہوا، اس کے ساتھ ہی ان کے خاندان کی نصف صدی سے زائد عرصہ کی حکمرانی بھی اختتام کو پہنچی۔
ملک سے فرار ہونے سے بشارالاسد کی سرگرمیاں کیا تھیں؟ اور وہ کس طرح فرار ہوئے؟ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق بشارالاسد نے شام سے فرار ہونے کے اپنے منصوبے کی کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بشارالاسد حکومت کے آخری واقعات سے آگاہی رکھنے والے لوگوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی صدر نے اپنے معاونین، اہلکاروں اور رشتہ داروں کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا۔
دمشق سے فرار ہونے سے چند گھنٹے قبل، بشارالاسد نے فوج اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں کی ایک میٹنگ میں شرکت کی اور شرکا کو یقین دلایا کہ بس! روسی امداد اپہنچنے والی ہے۔
خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ 8 دسمبر کو، جس روز بشارالاسد ملک سے بھاگے، انہوں نے اپنے دفتر کے مینیجر کو بتایا کہ وہ گھر جا رہے ہیں، تاہم اس کے بجائے انہوں نے ہوائی اڈے کا رخ کیا۔
علاوہ ازیں بشارالاسد نے اپنی میڈیا ایڈوائزر کو تقریر لکھنے کے لیے اپنے گھر بلایا، لیکن جب وہ ان کی رہائش گاہ پر پہنچیں تو وہ ملک کی حدود سے باہر جا چکے تھے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بشارالاسد نے اپنے چھوٹے بھائی مہر، جو ایک آرمی کمانڈر تھے، کو بھی اپنے منصوبے سے آگاہ نہیں کیا۔
یوں بشار الاسد کسی کو الوداع کہے بغیر بھاگ نکلے، ریڈار کے نیچے اڑتے ہوئے انھیں لے جانے والے طیارے نے اپنا ٹرانسپونڈر بند کر دیا اور ٹریکنگ سے چھپ ہو گیا۔
ماسکو پہنچنے کے بعد سے، جہاں انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی، بشار الاسد کو نہ دیکھا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی خبر سننے کو مل رہی ہے۔ واضح رہے کہ ان کی اہلیہ اسماء اور 3 بچے پہلے ہی وہاں ان کے منتظر تھے۔
ماسکو میں پناہ لینے کی تیاریاں کب سے جاری تھیں؟
سنہ 2019 میں فنانشل ٹائمز کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک سے لاکھوں ڈالر باہر لے جانے کی غرض سے بشار الاسد کے خاندان نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں 18 انتہائی پرتعیش اپارٹمنٹس خریدے ہیں۔
گذشتہ ہفتے روس کے ایک مقامی اخبار کی خبر کے مطابق بشار الاسد کے 22 برس کے بڑے بیٹے حافظ الاسد ماسکو سے اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ دمشق میں افراتفری کے دوران روس کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ خبر دی کہ روسی حکام اس وقت شام میں مسلح اپوزیشن سے ملک میں موجود دو روسی فوجی اڈوں اور سفارتی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے سے متعلق رابطے میں ہیں۔
تبصرہ کریں