اذہان جامد ہیں نہ حالات منجمد، مسائل یک رنگ ہیں نہ چیلنجز یکساں، معاملات سادہ ہیں نہ ہی تعلقات غیر تبدیل شدہ، حقوق کا ڈھانچہ مطلق ہے نہ فرائض کی ادائیگی ارادے کے بغیر۔ ایسے میں ہر بدلتے دور کی ضروریات مختلف ہوتی جا رہی ہیں جنہیں علم و بصیرت سے کام لے کر ایمان، الہام اور اخلاق کے مسلمہ اصول ملحوظ خاطر رکھ کر پیش آمدہ تبدیلیوں کو خرابیوں میں بدلنے سے روک کر انہیں بہتر امکانات اور مواقع بنانا، اجتہاد کہلاتا ہے۔
تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ ایک موقع پر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک علاقے (یمن) کا گورنر بنا کر بھیجنے لگے تو رخصت کرتے وقت پوچھا، اے معاذ! لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے وقت رہنمائی کہاں سے لیں گے؟ انہوں نے جواب دیا ’اے اللہ کے رسول! میں کلام الٰہی کو رجوع کروں گا‘، دوبارہ پوچھا کہ وہاں سے اگر مطلوبہ رہنمائی میسر نہ آئی تو پھر؟ جواب دیا ’پھر آپ کی سنت پیش نظر رکھوں گا‘، تیسری بار پوچھا اگر اس میں بھی مقصد پورا نہ ہوا تو پھر؟ آپ نے جواب دیا ’پھر میں خود اجتہاد سے کام لوں گا اور مناسب فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کروں گا‘، یہ سن کر اللہ کے رسول نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا
’ اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ اجتہادی بصیرت رکھتے ہیں‘۔
موجودہ عالمی منظر نامے میں اسلامی دنیا کی سیاست، معیشت، معاشرت، ثقافت، تعلیمی نظامت، مواصلاتی انقلاب اور سائنسی ترقی سے جنم لینے والے احوال، مختلف طبقوں، گروہوں اور ممالک میں بٹی امت کے آپسی روابط، بین الاقوامی تعلقات، غیر مسلموں کی اسلامی ممالک میں اجتماعی آمد، مسلمانوں کی غیر مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہجرت اور شہریت کا حصول، امن جنگوں اور تجارت کے نت نئے محاذوں، عوام کا اختیاری اور علمی اشرافیہ سے تعلق جبکہ اشرافیہ کی اختیار کردہ پالیسیوں، اقدامات اور رجحانات کا عوامی زندگی پر اثرات، سماجی اور ادارہ جاتی انصاف اور احتساب کی ہیئت، مرد و عورت کے تعلقات کار اور نوجوانوں کے رویوں میں بدلتی لہروں نے بہت بڑا خلا پیدا کیا ہے۔
اسلامی دنیا کے ڈھانچے کو ملاحظہ کریں تو فوراً سے پہلے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں عقل، انصاف، تحفظ، سچائی، آزادی، احساس ذمہ داری اور شراکت داری کو پنپنے کا ماحول نہیں مل رہا اور اس صورت حال نے عمومی فضاء میں ٹھیک ٹھاک گھٹن، جمود، منافقت، بدکرداری اور بے اعتمادی پیدا کی ہے۔ یہ صورت حال بڑے پیمانے پر اجتہادی عمل کی متقاضی ہے، ایک ایسا اجتہادی عمل جس کو تمام طبقات، خطوں، قومیتوں اور مسلکوں کی حمایت حاصل ہو۔ اسلامی دنیا نے، عصری تناظر میں اجتہاد کو خصوصی توجہ نہ دی تو خدشہ ہے کہ اسلام اہم معاملات میں غیر متعلق ہو کر رہ جائے گا اور یوں مسلمان اپنے اصول، مقصد، کردار اور شناخت کہیں کھو دیں گے۔ ہر انسانی گروہ اپنے بنیادی نظریات اور درپیش احوال کے درمیان توازن اور ربط و ضبط کا تقاضا کر رہا ہے اور جب تک یہ فطری ضرورت پوری نہ ہو تو کسی بھی ملی کردار و اعمال کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ جاتی ہے اور پھر اسی زمین پر نئے نظریات اور انقلابات کی عمارتیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے لوگوں کا دین اور سماج سے بڑھتے فاصلوں اور وسیع پیمانے پر الحاد، بے ایمانی، جھوٹ، بے قید آزادی، انتہا پسندی اور تنہائی پسندی کی جانب راغب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ عقل اور انصاف کے اعتبار سے ان کی طلب اور ضروریات نظر انداز ہو رہی ہیں۔ لوگ جب ہر طرف تضادات دیکھ رہے ہوں، ایک ہی ملک اور معاشرے میں رہ کر بھی محرومی اور عیاشی کے بدترین نمونے ہی نظر آ رہے ہوں، حقوق و فرائض کا کوئی متوازن ڈھانچہ نہ پا رہے ہوں، دولت، اختیار اور طاقت و جواب دہی کے دائروں میں گردش کا اہتمام نہ مل رہا ہو تو یقین کریں انہیں شدید عدم اطمینان محسوس ہوتا ہے اور یوں وہ نظام اور سماج کی نفرت سے بھر کر بار بار بغاوت کرنے پر آمادہ رہتے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نئے عمرانی معاہدے کے لیے ہمہ جہت اجتہاد سے کام لیا جائے۔
اجتہاد کا دروازہ خود تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اپنے ہاتھوں سے کھول دیا تھا اور اس کو قیامت تک کھلا چھوڑ دیا ہے۔ یہ طے ہے کہ اسلامی قانون میں بنیادی صداقتوں کو چھیڑے بغیر، آزادانہ استدلال کا عمل ایک لازمی ضرورت ہے جو کہ معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی مطابقت اور موافقت کو یقینی بناتا ہے۔ عصری تناظر میں اجتہاد کی ضرورت اور بھی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے کیونکہ مسلمانوں کو نت نئے چیلنجز اور پیچیدگیوں کا بڑے پیمانے پر سامنا ہے جو کہ پہلے ادوار میں موجود نہیں تھیں۔
قرآن اور سنت اسلامی قانون اور نظام کے لیے بنیادی اصول تو فراہم کرتے ہیں، لیکن وہ ہر دور کی مخصوص صورت حال یا مسائل اور ان سے جڑی باریکیوں کو حل نہیں کرتے جن کا مسلمانوں کو تاریخ کے مختلف ادوار اور اور دنیا کے متنوع احوال میں سامنا ہوتا رہتا ہے، بنیادی اصول فراہم کر کے خصوصی تفصیلات اہل ایمان پر چھوڑنے سے مقصد یہ ہے کہ ایمان اور عقل کا شمع مسلسل روشن رہے لہٰذا اجتہاد کا وسیلہ علماء، فقہاء، دانشوروں، حکمرانوں اور اہل ثروت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ موجود حقائق کی روشنی میں اسلامی اصولوں کی تشریح اور ان کا موثر اطلاق کرنے کے لیے بنیادی ماخذوں کو استعمال کریں۔ اجتہاد مختلف معاشروں اور حالات میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہے جو کہ تیزی سے سماجی، سیاسی، تہذیبی اور تکنیکی ترقی اور تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔
عصر حاضر میں اجتہاد کے اہم ہونے کی ایک اہم وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے اخلاقی، سماجی اور قانونی اثرات کو حل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ بائیو ایتھکس، مصنوعی ذہانت، مواصلاتی انقلاب اور جینیاتی انجینئرنگ جیسے وسائل نے نت نئے نظری اور اخلاقی مخمصے پیدا کیے ہیں جن پر اسلامی فریم ورک کے اندر محتاط غور و فکر کی اشد ضرورت ہے۔ جنگوں، خانہ جنگیوں، غربت اور امارت کی دو انتہاؤں میں گہری تقسیم، طبقاتی کشمکش نیز ریاستوں، مسلح گروہوں اور عوام کے درمیان جاری مخمصوں سے اٹھنے والے مسائل کو اجتہاد کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان ان پیچیدہ مسائل کو اجتہاد کے ذریعے ہی حل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو کہ ایمان اور بنیادی اقدار کے عین مطابق ہو۔
اسی طرح عالمی سیاسیات اور معاشیات کے دائروں میں بدلتی ہوئی عصری حرکیات کو اسلامی اصولوں کے مطابق باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح عالمگیریت کے عروج اور قوموں کے باہمی ربط و ضبط کے ساتھ، مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بین الاقوامی تعلقات کی شیرازہ بندی کرنی ہے۔ اس طرح عالمی تجارت اور بنیادی انسانی حقوق جیسے مسائل سے بھی نمٹنا ہیں۔ اجتہاد وہ موقع دیتا ہے کہ مسلمان اپنے دینی عقائد اور بنیادی نظریات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دنیا کے ساتھ کس طرح اپنے صحت مندانہ اشتراک عمل کو برقرار رکھ سکیں گے؟
مسلمان دنیا میں کہیں پہ اکثریت میں ہیں تو کہیں پہ اقلیت میں، کہیں پہ طاقت میں ہیں تو کہیں پہ مزاحمت میں، کہیں پہ حیران کن دولت کے ساتھ رہ رہے ہیں تو کہیں پہ قابلِ رحم غربت کے ساتھ، کہیں پہ دینی ایجنڈے کا جھنڈا اٹھا کر اسلامی نظام کی تحریک برپا کیے ہوئے ہیں تو کہیں پہ سیکولرزم کے علم بردار بنے بیٹھے ہیں، کہیں پہ صرف دینی تعلیم کا چل چلاؤ ہے اور کہیں پہ خالص سائنسی یا تکنیکی تعلیم کا رواج۔ ایک ہی امت مختلف علمی، عملی اور سماجی یا تہذیبی دھاروں میں بری طرح تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ باہم کوئی ہم آہنگی نہیں، کوئی موافقت نہیں، کوئی اشتراک کار نہیں۔ دنیا بھر میں پھیلی مسلم کمیونٹیز کے درمیان ضروری تنوع کو برقرار رکھتے ہوئے مطلوبہ ہم آہنگی اور موافقت پیدا کرنے میں اجتہاد کی اہمیت بالکل واضح ہے۔ جو چیز ایک معاشرے میں قابل قبول یا ممنوع قرار پائے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے معاشروں پر بھی ویسے ہی لاگو ہو۔ اجتہاد ان تمام متنوع سیاق و سباق کو مدنظر رکھنے کے قابل بناتا ہے جن میں مسلمان رہتے ہیں اور ایسی رہنمائی فراہم کرتا ہے جو کہ ان کے مخصوص حالات سے متعلق اور قابل اطلاق ہو۔
اسلامی معاشرے مختلف سنگین مسائل کا شکار بھی رہے ہیں مثلاً صنفی امتیاز، پیشہ وارانہ امتیاز اور سماجی انصاف کے راستے میں سنگین رکاوٹیں وغیرہ۔ نامطلوب امتیاز کو ختم کر کے مطلوبہ انصاف کو فروغ دینے میں بھی اجتہاد ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ لوگوں کے دل و دماغ کے دروازے مختلف وجوہ سے بند ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ مسلمان خواتین اپنے حقوق و تحفظ میں، ملازمین منصفانہ معاوضوں اور مراعات پانے میں اور مختلف طبقات کے درمیان معاشی اور سماجی عدم مساوات جیسے مسائل سے دوچار ہیں، اجتہاد کے ذریعے اسلامی نصوص کی روایتی تشریحات کا از سر نو جائزہ لینے اور اسلامی تعلیمات کی مزید جامع اور حکیمانہ تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اجتہاد کا یہ عمل ایک زیادہ منصفانہ، مخلصانہ، دیانت دارانہ، وفا دارانہ اور ہمدردانہ معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی معاشرہ اسلام کی بنیادی اقدار کو برقرار رکھ سکتا ہے بصورت دیگر امت باہمی اویزشوں اور کشمکش سے کبھی باہر نہیں آ سکی گی۔ ہم مختلف ناموں اور طریقوں سے ایک دوسرے کے استحصال میں مصروف رہیں گے جبکہ جدید دنیا تیزی سے آگے نکل جائے گی۔
عصر حاضر میں اجتہاد کی ضرورت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے اور کوئی اعتراف کرے یا نہ کرے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان جدید دنیا میں ناقابل تصور پیچیدگیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، ان پیچیدگیوں سے نکلنے کا راستہ علمی اعتبار سے اجتہاد اور عملی اعتبار سے انصاف ہے۔ جب تک ہم اپنے دل اور دماغ کے دروازے ان طاقتوں اور روشنیوں کے لیے نہیں کھولیں گے تو ہم جمود اور زوال کے گول دائروں سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اجتہاد سے، اسلامی احکام اور تعلیمات کی تازہ بہ تازہ تشریح اور ان کے عملی اطلاق کے لیے ایک زیادہ متحرک اور لچکدار ماحول میسر آئے گا۔ روح شریعت کا ادراک، احوال حاضرہ کا اعتراف، آزادانہ فکری استدلال اور منطقی سوچ و اپروچ جیسے وسائل سے کام لے کر، علماء، دانشور، حکمران اور اہل ثروت اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ اسلام ہمارے دور کے چیلنجوں سے متعلق رہ کر ان کا حل پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اجتہاد تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ضروری ہم آہنگی، لازمی انصاف اور ایک اخلاقی طرزِ زندگی کو فروغ دینے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔
تبصرہ کریں