راج محمد آفریدی، درہ آدم خیل
چھیڑا سحر نے پھر مجھے قاصر پکار کر
ورنہ تمام رات میرا نام درد تھا
قیام پاکستان کے بعد معروف ادبی جرائد کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ مختلف جرائد نے خاص نمبر شائع کیے جن میں شخصیات کے خاص نمبر بہت ’خاص‘ رہے ۔ ’رنگ ادب‘ کا شمار پاکستان کے معروف ادبی جریدوں میں ہوتا ہے۔ اس کا آغاز بیس سال قبل ہوا۔ مذکورہ جریدے نے اب تک بہت سے خاص کتابی سلسلے پیش کیے ہیں مگر کتابی سلسلہ نمبر 60 بہت ہی اعلیٰ ثابت ہوا کیونکہ یہ خاص نمبر پاکستان کے نامور اور منفرد لب و لہجے کے شاعر غلام محمد قاصر کے لیے مختص کیا گیا۔ ’رنگ ادب‘ کے مدیر اعزازی شاعر علی شاعر کے مطابق قاصر نمبر کا آئیڈیا عماد قاصر کا تھا۔
معیاری شاعری کے بدولت صرف پاکستان ہی میں نہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، غلام محمد قاصر کا نام نہایت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف مشاہیر اردو ادب نے ان کی حیات ہی میں کر دیا تھا۔ قاصر مرحوم کا شمار ان خوش نصیب تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کو پہلی کتاب ’تسلسل‘ کی اشاعت نے بام عروج تک پہنچایا۔ ان کی شعری تخلیقات میں زندگی بھرپور انداز میں ملتی ہے۔ ان تخلیقات میں غزل کے ساتھ مسحور کن نظمیں بھی ہیں۔ ان کی نظمیں بھی جذبے اور احساس کی شدت سے مالامال ہیں۔
غلام محمد قاصر نے شعر کہنے کے ساتھ نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے ادبی مضامین لکھے، مختلف کتابوں پر تبصرے کیے، کتابوں کے دیباچے لکھے، ٹیلی وژن ڈرامے لکھے۔ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ قاصر کی شاعرانہ صلاحیتوں نے ان کے مذکورہ اصناف کو دبا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا غلام محمد قاصر کو بطور شاعر جانتی ہے حالانکہ ان کی نثر بھی کئی حوالوں سے اہم ہے۔
غلام محمد قاصر سے محبت کرنے والی بعض شخصیات نے قاصر مرحوم کی نثری اصناف پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے محققین کے لیے نئے در وا کردیے۔ اس مد میں سب سے بڑا تحقیقی کام سہ ماہی ’رنگ ادب‘ (غلام محمد قاصر نمبر) نے کیا ہے ۔ ’رنگ ادب‘ کے مدیر اعزازی جناب شاعر علی شاعر نے قاصر مرحوم کے فرزند عماد قاصر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے 720 صفحات پر مبنی ضخیم شمارے کی صورت میں قاصر کی ادبی و غیر ادبی زندگی کو سب کے سامنے لا کر پیش کیا ہے۔ تفصیل میں جانے سے پہلے اتنا ہی کہوں گا کہ قاصر مرحوم کے متعلق کم وقت میں جاننے کے لیے یہ شمارہ انتہائی اہم ہے کیونکہ ’رنگ ادب‘ ٹیم نے کمال مہارت سے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔
’رنگ ادب‘ کے اس شمارے میں پہلا حصہ ’نثر قاصر‘ کے عنوان سے ہے جس میں غلام محمد قاصر کے لکھے گئے نثر پاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس حصے میں مضامین، دیباچے، فلیپس اور مختلف کتابوں پر قاصر کے لکھے گئے تبصرے شامل ہیں۔
غلام محمد قاصر نے معروف شعرا کی غزلوں پر بحث کی ہے جن میں احمد ندیم قاسمی اور مرتضیٰ برلاس اہم ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے متعلق قاصر کہتے ہیں:
‘انسان دوستی ندیم کا مسلک ہے اور اس میں اپنے پرائے کی کوئی قید نہیں ہے ’
قاصر مرحوم محسن احسان اور پروین شاکر سے بہت متاثر تھے۔ اسی طرح نذیر تبسم کے کلام کو پسند کرتے تھے۔ آپ نے تبسم کی شاعری کو جدید شاعری کہا ہے۔ آپ نے حسام حر کو نئے لب و لہجے کا شاعر کہا ہے اور فرمایا ہے کہ لوگ حسام حر کے اشعار کا حوالہ دیا کریں گے۔
غلام محمد قاصر نے بچوں اور بڑوں کے لیے متعدد ڈرامے لکھے ہیں ۔ انھوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ باقاعدہ ڈراما نگار نہیں تھے بلکہ ان سے ڈرامے لکھوائے گئے ہیں ۔ ’رنگ ادب‘ میں نمونے کے طور پر قاصر کے چار ڈرامے شامل کیے گئے ہیں تاکہ قاصر کے پڑھنے والے ان کی اس صنف سے بھی حظ اُٹھائیں۔
’رنگ ادب‘ میں غلام محمد قاصر سے لیے گئے پانچ انٹرویوز کا بھی ذکر ہے۔ قاصر کو سمجھنے اور ان پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ان انٹرویوز میں دل چسپ سوالات و جوابات موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ایک انٹرویو انگریزی میں ہے باقی اردو میں۔ ان انٹرویوز میں پوچھے گئے چند دل چسپ سوالات یہ ہیں:
1۔ پہلا شعر یاد ہے جو کہا؟ یا پہلی غزل جو کہی تھی؟
2۔ قاصر جی انسان شاعری کیوں کرتا ہے؟
3۔ ہمارا ٹیلی وژن ڈراما کہاں تک متوسط یا نچلے طبقے کی عکاسی کرسکا؟ وغیرہ وغیرہ
’رنگ ادب‘ کا اگلا حصہ ’قاصر اہل قلم کی نظر میں‘ کے عنوان سے ہے۔ اس حصے میں مشاہیر ادب کے لکھے ہوئے تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یہ حصہ قاصر کی شاعری، شخصیت اور زندگی کے متعلق معتبر ادبا کے مضامین کا گلدستہ ہے۔ ان مضمون نگاروں میں چند کے نام یہ ہیں:
احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، محسن احسان، مرزا ادیب، ایوب صابر، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، صبیح رحمانی وغیرہ۔
’رنگ ادب‘ کے اگلے حصے میں ’مختصر آراء‘ کے عنوان سے شاعر علی شاعر نے معروف ادبا کی مختصر آرا کو یکجا کیا ہے۔ ان میں چند اہم نام یہ ہیں:
صوفی تبسم، احمد فراز، ظفر اقبال، فارغ بخاری، ڈاکٹر سید عبداللہ، قتیل شفائی، رئیس امروہوی، شہزاد احمد وغیرہ۔
ظفر اقبال قاصر کی غزل کے حوالے کہتے ہیں:
تسلسل‘ کے مطالعہ سے ایسے لگتا ہے کہ غلام محمد قاصر کی غزل وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں میری غزل ختم ہوتی ہے۔‘
’رنگ ادب‘ کا اگلا حصہ ’تعارفی کالم‘ کے عنوان سے ہے۔ اس حصے میں معروف کالم نگاروں کے ان کالموں کو پیش کیا گیا ہے جن میں غلام محمد قاصر کا ذکر خیر شامل ہے۔ محققین کے لیے اس حصے میں کافی مواد مل سکتا ہے۔ ان کالم نگاروں میں مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، رضا ہمدانی، حسن نثار، وصی شاہ، نصرت زہرا کے نام اہم ہیں۔
اس کے بعد رپورتاژ نگاری کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے جن میں غلام محمد قاصر کے متعلق منعقد شدہ تقاریب کا ذکر کیا گیا ہے۔
’رنگ ادب‘ میں احباب کے محبت ناموں کا ذکر بعنوان ’خطوط بہ نام قاصر‘ شامل کیا گیا ہے۔ اس حصے میں قاصر کے نام مشاہیر علم و ادب کے لکھے گئے خطوط کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جن ادیبوں نے قاصر کے نام خطوط لکھے ہیں، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
مرزا ادیب، انور مسعود، جمیل جالبی، مستنصر حسین تارڑ، ہمایوں ہما، جوہر میر، زمان کنجاہی، شہاب صفدر، مقبول عامر وغیرہ۔
’بہ یاد قاصر‘ کے عنوان سے تعزیتی خبروں، اجلاسوں اور تعزیتی خطوط کا ذکر شامل رسالہ ہے۔ اس کے ساتھ تعزیتی کالموں کی تفصیل دی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ قاصر کی وفات پر پورا پاکستان خصوصاً ادبی حلقہ غم میں ڈوب گیا تھا۔
تعزیتی کالموں کے بعد معروف شخصیات کی طرف سے تعزیتی تاثرات شامل رسالہ ہیں۔ اس کے بعد معروف شعرا کی جانب سے غلام محمد قاصر کو منظوم خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
گل شگفتہ تھا قاصر کا دل مگر سوچوں
وہ کھلتے کس لیے ہیں گل اگر بکھرتے ہیں (صابر ظفر ، کراچی)
خون دل کو بھی اگر اپنا طرف دار کروں
پھر بھی قاصر ترے حالات نہیں لکھ سکتا (ناصر علی سید ، پشاور)
ہوا ماتم کناں ہے کون ہے جو اٹھ گیا ہے
مسلسل اک فغاں ہے کون ہے کو اٹھ گیا ہے (طارق ہاشمی ، فیصل آباد)
اس کے بعد ’رنگ ادب‘ کا سب سے اہم حصہ قاصر کے کلام پر مبنی ہے جس میں حمدیں، نعتیں، سلام، مناقب، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ نمونے کے طور پر یہاں قاصر کے کلام سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
آزمائش میں کوئی تجھ کو صدا دیتا ہے
اور تو آگ کو گلزار بنا دیتا ہے
تو ہی ہر لہر کو دیتا ہے ڈبونے کا شعور
تو ہی کشتی کو کنارے پہ لگا دیتا ہے (حمد)
دن کو دن رات کو جو رات نہیں لکھ سکتا
ایسا فن کار کبھی نعت نہیں لکھ سکتا (نعت)
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اس کے بعد غلام محمد قاصر کا مختصر تعارف کیا گیا ہے جو میرے خیال میں آغاز میں ہونا چاہیے تھا۔ سب سے آخر میں منتخب تصاویر ہیں جن میں غلام محمد قاصر کی زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
اللہ پاک مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔
بس اب تو اک نشانی رہ گئی ہے
یہیں قاصر تمھیں اکثر ملے گا
تبصرہ کریں