گردش کا مقصد
دلوں میں احساس جگانے، ارواح میں محبت ابھارنے، موافقت پیدا کرنے، سماج میں نفرتیں مٹانے، تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے، طرزِ عمل مثبت بنانے نیز زاویہ نگاہ کو توسیع دینے، خیر سے جڑے رہنے، حقیقت پسند بننے اور اعتراف حقیقت کے لیے مطلوبہ حوصلہ متحرک رکھنے کے لیے مکالمانہ انداز کے تحت ایک مخلصانہ کوشش ہے۔
مشرق وسطیٰ ہو یا پھر یوکرین، کشمیر ہو یا پھر افریقہ کے مختلف ممالک، خود ہمارے وطن پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ہوں یا پھر پورا بلوچستان، بڑی طاقتوں کے درمیان جاری تہہ در تہہ کشمکش ہو یا پھر مختلف خطوں میں سر اٹھاتے جھگڑے حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا لاتعداد تنازعات کے نرغے میں ایسی جگہ چلی گئی ہے جہاں روز انسانی وجود کو گہرے زخم اور ناقابلِ برداشت تکلیفیں سہنا پڑ رہی ہیں جو کہ انسانیت کو تڑپا رہی ہیں، گرا رہی ہیں اور اپنے حقوق، حیثیت اور مقام سے مسلسل محروم کر رہی ہیں۔
کب طاقتور افراد اور اقوام کو عقل آئے گی؟ کب وہ انصاف کی ہمت دکھا سکیں گے؟ کب وہ دوسروں کے دکھ درد محسوس کرنے کے قابل ہوں گے؟ اور کب تک وہ جنگوں کی آگ سے انفرادی اور قومی ہوس کی آگ ٹھنڈی کرنے پر آمادہ رہیں گے۔ آگ میں ٹھنڈک کہاں؟ نفرت میں اطمینان کہاں؟ جنگوں میں بقاء کہاں؟ اور ظلم میں خوشحالی کہاں؟ لیکن بد قسمتی سے سمجھا یہی گیا ہے۔
امن آج کی دنیا کے سب سے اہم اور مطلوب مقاصد میں سے ایک ہے، کیونکہ مختلف خطوں میں شدید تنازعات اور جنگیں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے انسانی زندگی کے لیے امن ایک نمبر پر فائز ہے اور اس کو کسی بھی دوسری وجہ سے کم تر قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ انسانیت کی بقاء اور فلاح و بہبود کے لیے سب سے بڑھ کر لازمی تقاضا ہے۔ یاد رہے کہ امن صرف جنگ کی عدم موجودگی کا نام نہیں بلکہ یہ اقوام اور افراد کے درمیان ضروری ہم آہنگی، علاقائی سلامتی، خود مختاری کا احترام اور باہمی تعاون کی بھرپور حالت کو کہا جاتا ہے۔
انسانی ذہن کی یہ پیچیدگی کچھ کم حیران کن نہیں کہ وہ فطرتاً امن پسند لیکن عملاً جنگوں کو روا رکھتا ہے۔ جنگوں کے بے شمار اسباب گرد و پیش میں ہمہ وقت گردش کر رہے ہیں جن کی وجہ سے عالمی بدامنی کی موجودہ کربناک صورت حال بن گئی ہے۔ بنیادی وجوہات میں سے ایک سیاسی اور علاقائی تنازعات ہیں، جہاں مختلف ممالک زمین، وسائل یا طاقت کے حصول کے لیے بے دریغ لڑتے ہیں۔ مزید برآں نظریاتی اختلافات، جیسا کہ مذہبی عقائد یا سیاسی عزائم بھی تنازعات اور جنگوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اس طرح مختلف معاشی عوامل اور محرکات مثلاً وسائل کے لیے مسابقت یا معاشی عدم مساوات، قوموں کے درمیان تناؤ کو شدت سے بڑھاتے ہیں۔
جنگوں کی ایک اور بڑی وجہ جاری تنازعات کے حل کے لیے موثر طریقہ کار کی عدم موجودگی ہے۔ جب مختلف ممالک کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے ہیں، تو انہیں پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے اکثر اوقات سفارتی کوششوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یوں سفارتی ناکامی سے پیدا ہونے والا خلاء فوجی تصادم کا آپشن بھر دیتا ہے، جو کہ پرتشدد کارروائیوں اور جنگوں میں مزید شدت کا باعث بنتا ہے۔
بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے تاجرانہ پھیلاؤ نے بھی جنگوں اور تنازعات کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کی موجودگی عالمی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ یہ خطرہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا ہے حالانکہ ایٹمی ہتھیار دنیا کے لیے زہر قاتل کی مانند ہے کیونکہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال انسانیت کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث ہے۔
جنگوں کے خاتمے کے لیے سب سے بڑی شرط، انصاف کے مسلمہ تقاضوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے اور اس عمل کے لیے کسی پیچیدہ طریق کار یا فلسفوں اور رنگ برنگ فارمولوں کی ضرورت قطعاً نہیں بلکہ یہ حقیقت مان لینا ہے کہ زمین کے ہر ٹکڑے پر موجود وسائل کے اوپر سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر حق وہاں کے اپنے باشندوں کا ہے۔ اس کے بعد یہ حقیقت تسلیم کرنا ہے کہ تمام اقوام اور افراد بلا امتیاز آزادی، احترام، تحفظ اور انتخاب کے مستحق ہیں اور کسی کو بھی یہ حق یا اختیار نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کو اس بنیادی استحقاق سے محروم کر دے۔
جنگوں اور تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے مختلف تدابیر پر عمل درآمد ضروری ہے۔ سب سے اہم علاج سفارت کاری کا فروغ اور تنازعات کا پُرامن حل ہے۔ اقوام عالم کو چاہیے کہ اپنے تنازعات کے حل کے لیے فوجی جارحیت پر بات چیت اور منصفانہ و مدبرانہ مذاکرات کو ترجیح دیں۔ اقوام متحدہ جیسی بین الاقوامی تنظیمیں تنازعات کے حل اور امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے بے شمار تنازعات کے حل میں یہ عملاً ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
امن کے جانب جانے والا ایک کھلا راستہ اقتصادی ترقی، تجارتی شراکت داری کے فروغ اور سماجی و معاشی تعلقات میں توسیع لانا ہے کیونکہ اس عمل سے نہ صرف تنازعات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ عالمی ہم آہنگی، اقتصادی ترقی، ثقافتی تنوع اور سماجی انصاف کو فروغ مل کر، مختلف ممالک باہمی تناؤ اور شکایات کے خدشات کو بھی کم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو کہ اکثر جنگوں کا باعث بنتی ہیں۔
مختلف ممالک تعلیم میں سرمایہ کاری، مذہبی سیاحت اور ثقافتی روابط کو فروغ دینے سے اقوام عالم کے درمیان پل بنانے اور عالمی اتحاد کے احساس کو توانا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مختلف قومیتوں میں رواداری اور نوع بہ نوع ثقافتوں اور عقائد کے احترام کو فروغ دے کر، ممالک نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر موجود تنازعات کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔
عالمی امن کے حصول کے لیے تمام اقوام اور افراد کی اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے بات چیت، سفارت کاری اور تنازعات کو حل کرنے اور اقوام عالم کے درمیان افہام و تفہیم کو بڑھانے کے لیے مخلصانہ تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جنگوں کی بنیادی وجوہات جیسے کہ سیاسی تنازعات، معاشی عدم مساوات اور نظریاتی اختلافات کو حل کرنے کے لیے بھی آمادگی کی ضرورت ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے امن ہی انسانیت کی بقا اور فلاح و بہبود کے لیے سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ دنیا میں کوئی بھی دوسری چیز امن کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ جنگوں اور تنازعات کے افراد، اقوام اور ملکوں پر تباہ کن نتائج پڑتے ہیں، اور ان کا حل انصاف پسندی، افہام و تفہیم، جاندار سفارت کاری، باہمی تعاون و شراکت داری اور پرامن مذاکرات کے حل کے ذریعے ہونا چاہیے۔ جنگوں کی بنیادی وجوہات کو حل کر کے اور ایک پرامن ماحول کو فروغ دے کر، ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک زیادہ منصفانہ، محفوظ، خوش گوار، خوشحال اور ہم آہنگ دنیا بنانے کے لیے موثر کام کر سکتے ہیں۔
تبصرہ کریں