سارہ-شریف

مظلوم سارہ شریف کی کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

یہ کہانی ایک دس برس کی ہنس مکھ، پر اعتماد اور معصوم بچی سارہ شریف کی ہے جسے اس کے سگے باپ نے مسلسل تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ جو بھی یہ سارہ کی کہانی سنتا ہے، وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر کوئی سگا باپ کیسے اپنی ہی چھوٹی سی معصوم بچی کو مسلسل اذیت دے کر ہلاک کرسکتا ہے! کوئی سگا باپ کسی کے بہکانے پر بھی ایسے نہیں کرسکتا۔ لیکن عرفان شریف اپنی سگی بیٹی سارہ کے ساتھ یہ ہولناک سلوک کر گزرا۔

 سارہ 11 جنوری 2013 کو برک شائر کے ایک چھوٹے شہر میں پیدا ہوئی۔ وہ بہت پر اعتماد بچی تھی، ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی۔

سارہ کی استانی بتاتی ہیں ’ ہمیں یاد ہے کہ وہ بہت باتیں کرتی تھی، ہمیشہ باتیں کرتی تھی اور وہ ہمیشہ گیت لکھتی تھی۔ اور اگر کوئی سننے کے لیے تیار ہوتا تو وہ گیت گانے لگتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے اس سے پوچھا: سارہ ! تم بڑی ہو کر کیا بننا چاہتی ہو؟ اس نے کہا ’میں گیت گانا چاہتی ہوں۔‘ اس نے کہا ’میں ایکس فیکٹر ( گائیکی کے ٹی وی مقابلہ) میں جانا چاہتی ہوں اور میں جیتنا چاہتی ہوں۔‘

 لیکن ان مسکراہٹوں کے پیچھے سارہ کی زندگی بہت پریشان کن تھی۔ اس کے خاندان میں شدید گھریلو تشدد کی شکایات ملتی تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سارے ہی معاملات سوشل کیئر تک پہنچ چکے تھے۔ اور اس کی مختصر سی زندگی تشدد سے بھر چکی تھی۔ سارہ تین سال کی عمر میں دو بار فاسٹر کیئر جا چکی تھی۔

سارہ کا والد عرفان شریف پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے برطانیہ آیا تھا۔ اس نے پہلے پاکستان کے شہر جہلم میں اپنی ماموں کی بیٹی سے شادی کی۔ اس کے بعد سٹڈی ویزے پہ  انگلینڈ پہنچ گیا۔ پھر اس نے اپنی کزن کو طلاق دے کے سارہ کی والدہ اولگا ڈومن سے 2009 میں شادی کی۔ وہ ایک پولش شہری تھی۔

سارہ کی پیدائش سے قبل ہی یہ خاندان پولیس کی نظروں میں آچکا تھا۔ اولگا اور عرفان شریف کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہوتے تھے۔  کچھ عرصہ بعد عرفان شریف کو اولگا پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا اور پھر اولگا نے گھر چھوڑ دیا۔ یوں سارہ فاسٹر کیئر میں پہنچ گئی۔ والدین میں علیحدگی کے بعد سارہ چھ سال کی عمر تک اپنی پولش والدہ کے ساتھ رہی۔

عرفان کی اولگا سے علیحدگی سے قبل بینش سے ملاقات ہو چکی تھی۔ بینش کی پیدائش جہلم میں ہوئی تھی۔ وہ بھی برطانوی شہری تھی۔ عرفان شریف سے قبل اس نے پہلے علی نامی ایک شخص سے شادی کی تھی اور وہ بھی جہلم ہی کا رہائشی تھا۔ علی سے طلاق کے بعد بینش بتول نے عرفان شریف سے دوسری شادی کرلی۔ لگ رہا تھا کہ اب سارہ کی زندگی میں آخرکار سکون آ جائے گا لیکن 2019 میں عرفان کے مطابق سارہ نے اس کو بتایا کہ اولگا یعنی سارہ کی سگی ماں اس پر تشدد کرنے لگی ہے۔

فیملی کورٹ کی دستاویزات کے مطابق سارہ نے بتایا کہ اولگا نے اس کو لائٹر سے جلانے اور ڈوب کر مارنے کی بھی کوشش کی۔ سارہ نے یہ بھی بتایا کہ اس کی والدہ نے اسے تھپڑ مارے اور اس کے بال کھینچے۔ اکتوبر 2019 میں گلفورڈ کی فیملی عدالت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سارہ کو اپنے والد اور سوتیلی والدہ بینش بتول کے ہاں منتقل ہو جانا چاہیے۔

لیکن جب محافظ ہی قاتل بن جائے  تو کوئی کیا کہے، جب آپ کی جائے پناہ ہی مقتل بن جائے تو کوئی کیا کہے۔ جب کھلونے آلہ قتل بن جائیں تو ننھی  کلیاں کہاں جائیں۔ فیصلہ سنانے والے جج ماضی کے معاملات  سے بھی واقف تھے۔ اولگا نے اس معاہدے سے اتفاق کیا اور اسے ہفتے کے دن دو گھنٹے کے لیے ملاقات کی اجازت دیدی گئی جبکہ سارہ کی سرپرستی بینش بتول کو سونپی گئی۔ بعد میں سارہ کا اپنی والدہ سے رابطہ ختم ہو گیا۔

عرفان شریف اس کا بھائی اور بینش بتول ویسٹ بائیفلیٹ کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔ سارہ کو مقامی سینٹ میری پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ تاہم اس دوران میں ہمسائیوں پر واضح ہوچکا تھا کہ اس گھر میں سب اچھا نہیں ہے۔ ننھی سارہ کے والد کے  گھر میں ہر وقت خوفناک جھگڑے اور مار پیٹ ہوتی رہتی تھی۔

 سارہ کی سوتیلی ماں بینش بتول نے ایک بار اپنی بہن کو میسج کیا کہ عرفان نے سارہ کو بری طرح مارا۔ میرا دماغ بکھر گیا ہے۔ اس کا جسم مکمل طور پر نیلوں سے ڈھکا ہوا ہے، اس کی آکسیجن کم ہو گئی اور اسے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔

اگلے دو سال تک بینش بتول اپنی بہنوں کو اکثر بتایا کرتی تھی کہ عرفان سارہ کو بہت مارتا ہے، وہ اس پر اس قدر تشدد کرتا ہے کہ وہ پھر چل نہیں پاتی۔ یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ بینش یا اس کی بہنوں میں سے کسی نے بھی پولیس کو یا سوشل سروس والوں کو اطلاع نہیں دی۔

پچھلے سال مارچ میں سارہ شریف کے سکول والوں نے اس کے چہرے پر چوٹوں کے نشان دیکھے۔ اس پر  چلڈرن سروسز والوں نے مداخلت کی تاہم ان کی طرف سے چند دن کی تحقیق کے بعد کہہ دیا گیا کہ سکول مزید کوئی قدم نہ اٹھائے، بس نگرانی جاری رکھے۔

ایک ماہ بعد عرفان نے سارہ کو سکول سے ہٹا لیا تو خدشات بڑھنے لگے۔ سکول ٹیچر ہیلن سمنز کے مطابق یہ عجیب سی بات تھی تاہم سارہ ستمبر میں سکول لوٹ آئی۔ اسی دوران سارہ نے حجاب کرنا شروع کر دیا لیکن اس کے حجاب کے باوجود مارچ 2023 تک ہیلن سمنز سارہ کے چہرے پر چوٹوں کے نشان دیکھ رہی تھیں۔ آخر کار سگے باپ نے ظلم کی انتہا کردی۔

گزشتہ سال 10 اگست کی رات دو بج کر 47 منٹ کا وقت تھا جب سرے پاس کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ ایک لرزتی ہوئی آواز میں ہچکچاتے ہوئے مرد نے کہا میں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا ہے۔ میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے اسے کچھ زیادہ پیٹ دیا۔ اس شخص نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو صرف سزا دینا چاہتا تھا۔ اس نے کہا کہ میں ایک ظالم باپ ہوں۔ یہ شخص عرفان شریف تھا۔

کوئی سگا باپ کیسے اپنی بیٹی کو مسلسل تشدد کرکے ہلاک کرسکتا ہے؟ جانور کسی دوسرے جانور کے بچے کو نہیں مارتے، یہاں سوتیلی ماں نے مروا دیا سگے باپ سے 10 سالہ معصوم سگی بیٹی کو۔ کال ختم ہونے سے پہلے ہی پولیس اہلکار جارج وان ڈر وارٹ ووکنگ میں شریف خاندان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ پھر اوپر کی منزل پر اسے بستر کی چادر کے نیچے سے 10 سالہ سارہ شریف کی لاش ملی۔ تکیے کے ساتھ ہی ایک نوٹ موجود تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ عرفان نے اپنی بیٹی کو مارا اور اسے قتل کر دیا۔

لاش ملنے سے ایک روز قبل یعنی نو اگست کو سارہ کے والد عرفان شریف، سوتیلی ماں بینش بتول اور چچا فیصل ملک بچوں سمیت پاکستان فرار ہوچکے تھے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے علم ہوا کہ سارہ کی موت لاتعداد چوٹوں کی وجہ سے ہوئی۔ اس کا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا۔ سر پر بھی شدید چوٹیں تھیں۔ معصوم سارہ کے جسم پر 70 سے زائد  زخم تھے، ہڈیاں 25 جگہ سے فریکچر تھیں۔ جسم پر خراشوں، جلنے اور دانتوں سے کاٹنے کے نشان بھی تھے۔ حتیٰ کہ سارہ کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ دماغ پر بھی انجریز تھیں۔ اسے بیٹ یعنی بلے، آئرن راڈ سے بھی مارا پیٹا گیا تھا۔ تقریباً دو سال سے زائد عرصے تک یہ بچی بہیمانہ تشدد برداشت کرتی رہی۔

ڈاکٹر کیرے نے بتایا کہ موت گردن کی کمپریشن کا نتیجہ ہے جو عام طور پر ہاتھوں سے گلا گھونٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سارہ کے جسم پر کاٹنے اور استری سے جلنے کے نشانات سمیت درجنوں زخم تھے۔ اس کے ڈی این اے کے ساتھ اس کے والد اور چچا کے ڈی این اے بلے اور بیلٹ یہ دونوں کے خون سے میچ ہو گیا ہے۔

سارہ کیس کی تفتیشی برطانوی آفیسر مارک چیمپین کا یہ کہنا ہے کہ میں اپنی پولیس سروس کے تیسویں سال میں ہوں لیکن پورے کیرئیر میں کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا جس میں ایک ننھی بچی کو اس قدر ہولناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ جب عرفان شریف، بینش اور سارہ کا چچا فیصل ملک ستمبر میں برطانیہ واپس آئے تو پولیس نے جہاز کے دروازے کھلتے ہی اس میں جا کر تینوں کو ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا۔

سارہ قتل کیس کا ٹرائل چھ ہفتے چلا۔ عرفان شریف چھ روز تک عدالت میں جیوری کے سامنے ہر الزام سے انکار کرتا رہا اور سارا الزام اپنی بیوی کے سر ڈالتا رہا۔ لیکن ساتویں روز اس سفاک باپ نے ایک یوٹرن لیا اور کانپتی آواز میں تسلیم کیا کہ اس نے کئی ہفتوں تک اپنی بیٹی کو بار بار تشدد کا نشانہ بنایا اور اتنا مارا کہ بالآخر وہ مرگئی۔

11 دسمبر 2024 کو لندن کی عدالت نے سارہ شریف قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سارہ کے والد عرفان شریف اور سوتیلی ماں بینش بتول کو مجرم قرار دے دیا۔ دونوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جب کہ سارہ کے چچا اور عرفان شریف کے بھائی فیصل ملک کو ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا ایسا ہونے دینے پر مجرم قرار دیا گیا۔ اسے 16 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

 سوتیلی ماں کا لفظ سنتے ہی ذہنوں میں منفی تصورات ابھر آتے ہیں لیکن اس کیس نے ثابت کر دیا ہے کہ سفاکیت کا تعلق سگے یا سوتیلے رشتوں سے نہیں ہے بلکہ انسانی سوچ سے ہوتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے