محمد عاصم حفیظ
ارض پاک میں ایک بار پھر مدارس کے حکومتی کنٹرول / تحویل کی بحث جاری ہے۔ دراصل پانچوں بڑے وفاق مطالبہ کر رہے ہیں کہ رجسٹریشن میں پیچیدگیاں دور کی جائیں۔ بنک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی جائے اور عصری تعلیم کی لازمی شرط میں نرمی اور دیگر معاملات کو بہتر بنایا جائے۔
دوسری جانب حکومت مدارس کو وفاقی ڈائریکٹوریٹ کے تحت لانا چاہتی ہے۔ وفاق نمائندگان کا موقف ہے اس سے مدارس کا تعلیمی نظام، مالی معاملات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مدارس پرانے قوانین کے تحت تو رجسٹر ہیں لیکن نئے ڈائریکٹوریٹ سے منسلک نہیں ہوئے۔ گزشتہ حکومت میں ایک نیا بندوبست کیا گیا کہ ہر مسلک میں مزید دو، تین وفاق منظور کر دئیے گئے۔ لیکن مدارس کی اکثریت نے ان نئے وفاقوں کو تسلیم نہیں کیا اور کئی وفاق تو کاغذی کارروائی سے آگے ہی نہیں بڑھ سکے۔ یہ نئے وفاق نئے ڈائریکٹوریٹ سے منسلک ہونے کے حمایتی ہیں کیونکہ انہیں یونیورسٹی چارٹر بھی دئیے گئے ہیں۔
دوسری جانب پرانے پانچوں وفاق اور ہر مسلک کی بڑی تنظیمیں اس نئے ڈائریکٹوریٹ سے منسلک نہیں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس میں کئی پیچیدگیاں ہیں۔ اس سے مدارس کی آزادانہ ورکنگ متاثر ہو گی۔ نصاب، مالی معاملات سمیت پورا سسٹم حکومتی کنٹرول میں چلا جائے گا۔ بیوروکریسی مدارس کو کنٹرول کرے گی جس سے ان کی دینی سرگرمیاں شدید متاثر ہوں گی۔ دینی جماعتوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت ناقص کارکردگی پر اپنے سرکاری سکولز تو پرائیویٹ کر رہی ہے، این جی اوز اور چرچ کے حوالے کر رہی ہے لیکن مدارس کی تحویل / کنٹرول کی خواہشمند ہے۔ اسی اختلاف پر دینی جماعتوں نے احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے۔ دوسری جانب تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہےکہ حکومت نے سرکاری سکولز و کالجز چرچ اور مشنری اداروں کے حوالے کیے ہیں۔
راولپنڈی گورڈن کالج بھی دینے کی مہم جاری ہے۔ دو ہزار بائیس میں پنجاب کی صوبائی کابینہ نے لاہور، راولپنڈی، سیالکوٹ کے چار سکول چرچ کے حوالے کیے۔ صوبائی وزیر تعلیم مراد راس کی تجویز پر اس کی منظوری دی گئی۔ اس سے پہلے ایف سی کالج لاہور، کنیئرڈ کالج لاہور سمیت کئی بڑے ادارے چرچ کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ یہ صرف تعلیمی ادارے نہیں اربوں مالیت کی پراپرٹیز ہیں۔ چرچ کے حوالے ہوتے ہی انہیں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرز پر چلایا جا رہا ہے جس سے کروڑوں کی آمدن چرچ کو ہو رہی ہے۔
اگر آپ اندازہ کر سکتے ہیں تو ضرور کریں کہ لاہور کے مصروف ترین تجارتی مراکز انارکلی، رنگ محل اور راجہ بازار راولپنڈی میں وسیع و عریض عمارتیں مل جانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ جی ہاں کبھی ایف سی کالج، کنیئرڈ کالج کی فیسوں اور آمدن کا پتہ لگا لیں۔ یہ سیدھے صاف معنوں میں مشنری اداروں کے ساتھ اربوں کا تعاون ہے جو کہ اندرونی بیرونی دباؤ پر کیا جا رہا ہے۔ ان اداروں پر حکومتی تحویل کے دوران کروڑوں کے اخراجات ہوئے ہیں، عمارتیں بنی ہیں اور یہ سب چرچ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ تھوڑا مزید غور کریں تو پتہ چلے گا کہ چرچ کی مذہبی، تبلیغی، ریلیف اور دیگر سرگرمیوں کے لیے یہی آمدن استعمال ہوتی ہے، اہل پاکستان سے کمائی گئی یہ آمدن۔ یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ کسی تنظیم کو اس قدر پرکشش قیمتی ادارہ حوالے کرنے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔
دراصل 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا جن میں 346 اسلامی اور 118 مشنری سکول و کالجز تھے۔ بعد ازاں پالیسی بدلی لیکن دوہرا معیار یہ ہوا کہ کرسچن مشنری تعلیمی ادارے تو چرچ کے حوالے کیے جانے لگے لیکن کوئی بھی اسلامی سکول یا کالج کسی دینی تنظیم کے حوالے نہیں کیا گیا۔ چرچ کا مطالبہ تسلیم ہوا کہ اس کے ادارے واپس مل جائیں لیکن مساجد کو نہیں مل سکے، کسی اسلامی انجمن، تنظیم کو اس کا ادارہ واپس نہیں ملا۔ یاد رہے کہ 1985میں سندھ گورنمنٹ نے 14 مشنری ادارے واپس کر دئیے۔
2004 میں روشن خیالی مہم کے تحت صدر مشرف نے 59 واپس کئے۔ مری، شیخوپورہ کے بڑے ادارے ایف سی کالج، کنیئرڈ کالج جیسے ادارے جن کے ساتھ اربوں کی پراپرٹیز ہیں۔ اسی طرح انتہائی منظم اور خفیہ طریقے سے ایک، ایک، دو، دو یا جب بھی موقع ملا مشنری تعلیمی ادارے واپس ہونے لگے۔ اب چند رہ گئے ہیں۔ ان میں سے چار دو سال قبل مارچ میں واپس ہوئے۔
دوسری جانب اسلامیہ کالجز کے نام سے لاہور، پشاور میں کئی ادارے حمایت اسلام سکولز و کالجز، جامعہ اسلامیہ بہاولپور سمیت سینکڑوں ایسے ادارے جنہیں دینی جماعتوں، انجمنوں اور تنظیموں نے لوگوں سے چندے لے کر بنایا تھا، جن کا مقصد دینی علوم کا فروغ تھا، ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں کیا گیا۔ یہ سب ادارے حکومتی تحویل میں کام کر رہے ہیں۔ کس قدر دوہرا معیار ہے کہ مشنری تعلیمی ادارے تو واپس کئے جا رہے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ چرچ نے بنائے تھے لیکن کسی اسلامی سکول و کالج کو واپس نہیں کیا گیا۔ کیا لاہور کی جامع مسجد مبارک کی انتظامیہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کرسکتی ہے جو ماضی میں اسی مسجد کے چندے سے بنایا گیا تھا؟
اب ہر جگہ ہوا یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ادارہ چرچ کو واپس ہوا تو اسے فوری طور پر کمرشل کر دیا گیا، تجارتی بنیادوں پر چلایا جانے لگا۔ وہاں موجود سٹاف کو نکال دیا گیا۔ ایک مکمل کرسچن ادارے کے تحت چلایا جانے لگا۔ جہاں مسلم طلباء کے لیے تو مہنگی فیسیں جبکہ کرسچن کمیونٹی کے لیے سکالرشپس موجود ہیں۔ یہ سب ادارے شہروں میں انتہائی قیمتی، تجارتی مقامات پر واقع ہیں۔ مہنگی فیسوں، ساتھ قائم دکانوں اور دیگر ذرائع سے یہ ادارے کروڑوں روپے کی آمدن لے رہے ہیں۔ اربوں روپوں کی پراپرٹیز بھی ساتھ ہیں جو سب کچھ چرچ کے استعمال میں ہے۔ ان اداروں میں پڑھنے والے عیسائی تو شاید بنیں یا نہ بنیں البتہ یہاں مشنری ماحول میں کئی سال رہ کر سیکولر، لبرل اور ملحد نظریات کے حامل ضرور بن جاتے ہیں۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کوئی دینی جماعت مطالبہ کر سکتی ہے کہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، حمایت اسلام سکول و کالجز ان کے حوالے کر دئیے جائیں؟ گورنمنٹ کی تحویل میں موجود ان اداروں کی عمارتیں اور ساتھ موجود پراپرٹیز اتنی قیمتی ہیں کہ کئی دینی جماعتوں کا بجٹ چلا سکتی ہیں جنہیں تبلیغی، خدمت خلق اور دینی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ارض پاک میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہاں صرف چرچ کو اربوں مالیت کے تعلیمی ادارے تجارتی، تبلیغی مقاصد کے لیے واپس مل سکتے ہیں، جہاں حکومت کا ذرا سا بھی عمل دخل نہیں رہتا۔ ان کی فیسیں وہ خود طے کرتے ہیں اور آمدن چرچ استعمال کرتا ہے۔ الحاق برطانوی و امریکن یونیورسٹیوں سے ہوتا ہے۔ اے، او لیول کے نام پر فیسیں برطانیہ پہنچتی ہیں حتی کہ بعض اوقات انھیں حکومتی فنڈز بھی ملتے ہیں۔ جبکہ کوئی اسلامی تنظیم، مسجد، مدرسہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسے 346 میں سے کوئی ایک بھی ادارہ واپس نہیں مل سکتا کیونکہ اس حوالے سے کوئی اندرونی بیرونی دباؤ موجود نہیں ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں قیمتی اداروں کا کنٹرول حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بھاری سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ دراصل یہ اربوں کی پراپرٹیز اور تجارتی مقاصد کی گیم ہے اس کے لیے اندرونی و بیرونی دباؤ، اقلیتوں کے حقوق، میڈیا، این جی اوز سمیت ہر حربہ استعمال ہوتا ہے کیونکہ تحویل ملتے ہی اس کی آمدن سے سب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی، تبلیغی، تجارتی اور ریلیف کے مقاصد۔ ٹرسٹ کے بینیفیشریز کون ہوتے ہیں اس حوالے سے حکومت یا کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
اس دوہرے معیار اور پالیسی پر بات ہونی چاہیے کہ سرکار اپنے تعلیمی ادارے تو چرچ، مشنری تنظیموں اور این جی اوز کے حوالے کر رہی ہے لیکن مدارس کا انتظامی، مالی اور تعلیمی و نصابی کنٹرول حاصل کرنے کی جدو جہد میں ہے۔ اس حوالے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے۔
یہ واقعی سنجیدہ صورت حال ہے اور اسے انتہائی احسن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مدارس کے نمائندگان کے ساتھ بیٹھے اور مذاکرات کرے، ان کے تحفظات کو دور کیا جائے تاکہ کسی بڑے تنازعے سے بچا جا سکے۔
تبصرہ کریں