’گردش‘ کا مقصد
دلوں میں احساس جگانے، ارواح میں محبت ابھارنے، سماج میں نفرتیں مٹانے، تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے، طرزِ عمل مثبت بنانے نیز زاویہ نگاہ کو توسیع دینے، خیر سے جڑے رہنے، حقیقت پسند بننے اور اعتراف حقیقت کے لیے مطلوبہ حوصلہ متحرک رکھنے کے لیے مکالمانہ انداز کے تحت ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ ( مصنف)
’ اسلامی دنیا میں دنیا کو دکھانے کے لیے ترکیہ اور ملائیشیا کے علاوہ کوئی قابل ذکر ماڈل موجود نہیں۔‘
یہ وہ سچا، پکا خیال ہے جس نے عرصہ دراز سے میرے دل و دماغ میں خود بخود گھر کر لیا ہے۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ تمام اسلامی ممالک گونا گوں مسائل کے ایسے شکار ہیں جن سے نکلنے کا کوئی راستہ انہیں سجھائی نہیں دے رہا۔ اسلامی ممالک میں عموماً معاشی ناہمواری، انصاف کی نایابی، انتظامی صلاحیتوں اور شفافیت کے فقدان، سیاسی عدم استحکام نیز نسلی، لسانی اور فرقہ ورانہ تنازعات نے مل کر ایسا ماحول پیدا کیا ہے جن سے اوپر اٹھ کر کچھ نہ کچھ سوچنے سمجھنے یا عملاً کچھ کر گزرنے کا موقع ہی نہیں دکھائی دے رہا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک اعلی سرکاری آفیسر سے دوران گفتگو گپ شپ ہو رہی تھی۔ انہوں نے بتایا ’مجھے پہلی بار سن دو ہزار میں ترکیہ جانے کا موقع ملا تھا اور پھر دوسری بار دو ہزار پانچ میں۔ پانچ سال کے اس دورانیے میں مجھے ترکیہ کے اندر زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ترکیہ گزشتہ پانچ برسوں میں معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور سماجی بہتری کی دوڑ میں بہت تیزی سے آگے نکل گیا ہے۔ ہر سطح پر واضح تبدیلی نظر آرہی تھی۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند، کرنسی وہاں کی کرنسی’لیرا‘ کی قدر و قیمت میں خاطر خواہ اضافہ، صفائی ستھرائی کا انتظام اطمینان بخش اور انفراسٹرکچر کے ڈھانچے میں واضح بہتری نظر آئی جسے دیکھنے کے لیے کسی ’اشتہاری مہم‘ کی قطعاً ضرورت نہیں تھی‘۔
ترقی اور استحکام واقعی ایسی چیزیں ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے تقریروں اور اشتہاروں کی بالکل ضرورت نہیں پڑتی۔
وہ ترکیہ جو عالمی سطح پر ’مرد بیمار‘ کے نام سے بدنام ہوچکا تھا، گزشتہ اڑھائی عشروں سے رجب طیب اردگان کی قیادت میں ایک خوشحال، صحت مند اور فعال ملک بن چکا ہے۔ ترکیہ نے نہ صرف قومی سطح پر تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے دور رس اہداف حاصل کیے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بے شمار تنازعات کے حل اور امکانات کی تخلیق میں بھی قائدانہ اور جاندار کردار ادا کیا۔ ترکیہ نے ہمیشہ فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا بھر کے ہر حل طلب مسئلے پر ٹھیک ٹھاک سٹینڈ لیا ہے اور انصاف و جرات سے ہم آہنگ مؤقف اختیار کیا ہے۔
ترکیہ نے ترقی اور انصاف کا معجزہ کسی ’جادوئی طاقت‘ کے بل بوتے پر نہیں بلکہ فطرت کے سیدھے سادے اصولوں کی شعوری پاسداری کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ لوگوں نے میرٹ پر ووٹ کا استعمال یقینی بنایا جبکہ اس کے نتیجے میں آنے والی قیادت بھرپور خلوص اور محنت سے کام لے کر ملک و قوم کی وہ خدمت بجا لائی ہے جس کی کم از کم اسلامی دنیا میں مثال موجود نہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ترکیہ ماڈل کیا ہے؟ جواب بڑا اسان اور واضح ہے۔ ترکیہ ماڈل بنا ہے میرٹ پر ووٹ کے استعمال سے، قوم اور حکومت کے درمیان صحت مندانہ تعلقاتِ کار سے، مخلصانہ خدمت سے، معیشت دوست اقدامات اور پالیسیوں سے، روز افزوں وسیع تر سیاحت سے، مغرب کی مادیت اور مشرق کی روحانیت کی آمیزش سے، ہمہ جہت ترقی کے پائیدار عمل سے، عمومی خوشحالی کے اہداف سے، قومی نظم و ضبط سے اور ملی وحدت، جذبے اور اعتماد سے۔ دنیا میں سب سے اہم رشتہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان پروان چڑھتا ہے یہ اگر اعتماد اور خلوص کا جوہر رکھتا ہو تو پھر ملکوں سے عالمی سطح پر تعمیر و ترقی کے کارہائے نمایاں بکثرت نظر آجاتے ہیں۔
ترکیہ کی خوبی یہ ہے کہ وہاں صرف دعوے، وعدے اور طفل تسلیاں نہیں بلکہ انہیں روبہ عمل لانے کے لیے مضبوط عزم بھی پایا جاتا ہے۔ وہاں صرف ذاتیات کے چکر نہیں بلکہ وسیع تر قومی مفاد اور انسانی فلاح و بہبود کے زمزمے بھی برابر بہتے ہیں۔ وہاں اخلاق ہے، احساس ہے، جذبہ ہے، عزت نفس ہے، امید ہے۔ وہاں اہلیت ہے، غیرت و حمیت ہیں، لیاقت ہے، محبت ہے، مہارت ہے، محنت ہے، وحدت ہے، انسانیت ہے، شرافت ہے، لطافت ہے، عدالت ہے، شجاعت ہے، صداقت ہے۔ دنیا میں اسلامی دنیا کی جانب سے اگر کوئی باوقار نمائندگی موجود ہے تو وہ بلا شبہ ترکیہ کے پاس ہے۔
ترکیہ میں کرپشن سے من حیث القوم انکار ہے، قانون کی پاسداری ہے، وہاں صرف ’ترقی پسندی‘ نہیں بلکہ حقیقی ترقی کا ساز و سامان ہے اور اس کے وسیع پیمانے پر عوامی زندگی میں نظر آنے والے ثمرات بھی۔ سیاحت کا شعبہ خوب فعال ہے اور قومی خوشحالی میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ترکیہ عالمی سطح پر ایک بہترین سیاحتی مقام کا درجہ رکھتا ہے، ایک جاندار تاریخی اور تہذیبی اثاثہ رکھتا ہے۔ وہاں امن و امان کا دور دورہ ہے۔ جدت ہے، وسعت ہے، لچک ہے، فعال اور ہموار سیاسی عمل ہے جبکہ عوام کا اپنی قیادت پر بھرپور اعتماد ہے، لیڈر شپ کا قومی اور بین الاقوامی سیاست میں ٹھوس کردار ہے۔ عوامی سطح پر مخلص، غیرت مند اور اہل قیادت کے انتخاب کا قابلِ بھروسہ انتظام ہے۔
خوش قسمتی سے ترک قوم کے اجتماعی مزاج میں آفاقی خوبیاں داخل ہوچکی ہیں جبکہ تباہ کرنے والی خرابیاں کافی محنت سے دب یا مٹ رہی ہیں۔ عالم اسلام کا مسئلہ ہو یا پھر انسانیت کا کوئی معاملہ، امن کے لیے کام ہو یا پھر علاقائی استحکام کا کوئی تقاضا ہر موقعے پر ترکیہ سے مخلصانہ، ہمدردانہ اور غیرت مندانہ آواز اٹھتی ہے جو دنیا بھر میں تمام انصاف پسند اور انسان دوست لوگوں کے لیے اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
ترکیہ کے اندر کرد قوم کچھ عرصہ قبل نا آسودگی محسوس کر رہی تھی جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو گئے تھے لیکن اب حکومت کی دور اندیش، مخلصانہ اور خیر خواہانہ پالیسیوں کی بدولت کرد قوم ترکیہ کے قومی دھارے میں بخوشی شامل ہوگئی ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ ترکیہ کو ترکیہ کے اندر موجود کردوں سے کوئی مسئلہ نہیں۔
اے کاش! ترکیہ کے اس حکمت عملی سے ہم بھی کچھ سبق سیکھ لیں۔ کیا ہی خوب ہو اگر ناراض اور نا آسودہ اقوام سے برادرانہ شفقت، خیر خواہانہ اقدامات اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذرائع سے کام لے کر معاملات بطریق احسن طے ہو۔
ترکیہ کو اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کا نہ صرف گہرا ادراک ہے بلکہ کما حقہ ان کے تقاضوں کو پورا بھی کر رہا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ آج پوری اسلامی دنیا میں ترکیہ کا ہمسر کوئی دوسرا ملک نہیں۔ ہر اسلامی اور انسانی ایشو پر اگر کہیں سے موثر آواز اٹھ سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف ترکیہ ہے۔ ترکیہ کی موجودہ قیادت نے نہ صرف ترک قوم کے دل میں جگہ کر لیا ہے بلکہ اب تو امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن بھی بن چکی ہے۔
بطور ایک مسلمان اور پاکستانی میں ترک اور ترکیہ کو اپنے دل، زندگی، وجود، جذبات اور تہذیب کے بے حد قریب محسوس کرتا ہوں۔ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محسوس کرتا ہوں کہ ترکیہ اور پاکستان عالمی برادری میں دو سگے بھائیوں جیسے ہیں۔ معروف صحافی سلیم صافی نے ایک مرتبہ کہا تھا ’میں دنیا بھر میں گھوما پھرا ہوں لیکن پاکستانیوں کے لیے حقیقی محبت اور عزت میں نے صرف ترکیہ میں محسوس کی ہے اور کہیں نہیں‘۔
چند برس قبل اس وقت کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حالیہ برسوں میں ترکیہ نے جو متعدد کارنامے سر انجام دہے ہیں، ان کے پیچھے یہ دو سحر انگیز الفاظ کار فرما ہیں اور وہ ہیں اعتماد و استحکام‘۔
رجب طیب اردوگان کی حکومت میں ترکیہ کی نمایاں کامیابیوں کے پشت پر دراصل وہاں موجود استحکام اور اعتماد کا مجموعی ماحول ہی کارفرما ہے۔ ترکیہ میں سیاحت، تجارت اور صنعت و حرفت جیسے شعبوں نے حیران کن ترقی کی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پر کشش مراعات کے مختلف پیکجز متعارف کرائے گئے ہیں جن میں شہریت اور دوسری بے شمار سہولیات موجود ہیں، ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 2007 سے اب تک 70 لاکھ شہریوں کو باعزت روزگار فراہم کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اتنی قلیل مدت میں یہ ایک حیران کن کارنامہ ہے۔
میرا احساس ہے اسلامی دنیا کو چاہیے کہ وہ یہاں وہاں بھٹکنے کے بجائے ترکیہ ماڈل کو فالو کرے، ترکیہ کی قیادت میں ایک مضبوط عالمی اتحاد کے لیے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ دنیا میں بھی چمکے اور آخرت میں بھی نجات کا سامان ہاتھ لگے۔ ترکیہ کی صورت میں ترقی و خوشحالی اور فلاح و بہبود کا ایک کامیاب اور خوبصورت ماڈل ملت کے دامن میں موجود ہے لیکن دیگر مسلمان ممالک دیکھتے نہیں اور ادھر ادھر بھٹکنے میں وقت اور مواقع ضائع کر رہے ہیں۔
رب رحیم و کریم سے دعا ہے کہ وہ ہماری آنکھیں اور سینہ باہم ایک دوسرے کے لیے کھول دیں، ہم پر حقائق آشکار فرما دیں، ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیں، گہرے اور وسیع اتحاد کی نعمت سے ہمیں سرفراز فرمائے اور ان مسائل سے ہمیں اپنا دامن چھڑانے کی ہمت عطا فرمائے جو کہ تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے راستے میں حائل ہوگئے ہیں۔
تبصرہ کریں