شام کی انقلابی عبوری حکومت کے روح رواں احمد الشرع المعروف بہ ابو محمد الجولانی کا پہلا تفصیلی انٹرویو
شام کی انقلابی عبوری حکومت کے روح رواں احمد الشرع کا پہلا تفصیلی انٹرویو ’سیریا ٹی وی‘ نے نشر کیا ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ وہ کس انداز میں حکومت کریں گے؟ انہوں نے ایران اور روس سے متعلق اپنی پالیسی کا اظہار بھی کیا اور اسرائیل کی طرف سے شام کی سرحدی خلاف ورزی پر بھی بات کی۔ احمد الشرع نے اس انٹرویو میں بطور حکمران اپنی ترجیحات کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے بشارالاسد حکومت کی بدعنوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس باب میں حکومت کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
یہ بھی پڑھیے
شام میں انقلابی تحریک کے سربراہ ابو محمد الجولانی واقعی پُراسرار شخصیت ہیں ؟
14 سالہ شامی لڑکا جس کی گرفتاری نے بشار الاسد کو کہیں کا نہ چھوڑا
رامی عبدالرحمٰن، کپڑے کا چھوٹا سا تاجر جس کی تنظیم سب سے مستند خبر رساں ادارہ بن چکی ہے
احمد الشرع کا کہنا ہے کہ دمشق کو آزاد کرانے کے دوران المناک حالات کا سامنا کرنا پڑا، جہاں تباہی ہر پہلو میں پھیل گئی تھی۔ یہ حالات ان مشکلات کی عکاسی کرتے ہیں جن کا سامنا شامی عوام نے برسوں تک جاری تنازعے کے دوران کیا۔
اقتصادی بحران میں اضافہ
احمد الشرع نے وضاحت کی کہ معزول سابق صدر بشار الاسد نے مرکزی بینک کے گورنر کو حکم دیا تھا کہ وہ بغیر کسی مالی پشتوانے کے کرنسی چھاپے۔ اس اقدام نے اقتصادی بحران کو مزید سنگین کر دیا اور شامی عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا۔
ریاست کی ذہنیت سے قیادت کی ضرورت
الشرع نے کہا کہ شام کو ایک حقیقی سانحے کا سامنا ہے، جس کے حل کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عملی اقدامات سے قبل ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور اس کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شامی انقلاب کی کامیابی کے باوجود، شام کو انقلاب کی ذہنیت سے نکال کر ریاست کی ذہنیت میں لانے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے جو قانون اور اداروں پر قائم ہو تاکہ طویل مدتی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
انقلابی سوچ سے ریاستی تعمیر کی طرف تبدیلی
احمد الشرع نے کہا کہ انقلابی سوچ کو خیرباد کہنا اور ریاستی تعمیر پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق شام کا مستقبل اچھی حکمرانی اور انصاف کے اصولوں کو مضبوط کرنے پر منحصر ہے۔
کپٹاگون کی پیداوار کا خاتمہ
الشرع نے کہا کہ نئی قیادت شام میں کپٹاگون کی پیداوار کو ختم کرے گی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سابقہ حکومت نے بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق شام کو کپٹاگون بنانے کا مرکز بنا دیا تھا۔ یہ حقائق اسد حکومت کے زوال کے بعد سامنے آئے اور دمشق میں نشہ آوار دوا کپٹاگون (Captagon) بنانے کی ایک بڑی فیکٹری کل پکڑی گئی۔ جس میں یہ منشیات بنا کر بشار مختلف ممالک کو سپلائی کرتا تھا۔

فوجی کامیابی کے لیے طویل منصوبہ بندی
احمد الشرع نے وضاحت کی کہ شامی حکومت کا خاتمہ صرف 11 دن میں ممکن ہوا، لیکن اس کے پیچھے کئی برسوں کی طویل اور محتاط منصوبہ بندی شامل تھی۔ یہ کامیابی عسکری کارروائیوں کے دوران کی گئی محنت اور پیشگی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ انتظامیہ نے بڑے شہروں پر قابو حاصل کیا اور اس عمل کے دوران کسی کو بے گھر ہونے پر مجبور نہیں کیا۔ شہریوں کے حق میں یہ سارا عمل بڑا پرامن رہا۔
شامی انقلاب کو درپیش چیلنجز
الشرع نے شامی انقلاب کے دوران درپیش مشکلات پر بھی بات کی، جن میں اندرونی اختلافات، گروہی تقسیم اور مختلف بین الاقوامی فریقوں کی مداخلت شامل تھی۔ یہ انقلاب دیگر عالمی انقلابات کے مقابلے میں منفرد اور زیادہ پیچیدہ تھا۔ ان پیچیدہ حالات کی وجہ سے جامع سیاسی حل تک پہنچنا ممکن نہ ہو سکا، جس کے باعث عسکری راستہ اختیار کرنا واحد آپشن بن گیا، حالانکہ یہ راستہ بھی اپنی نوعیت میں بہت زیادہ پیچیدہ تھا۔
تعمیر نو کی ضرورت
الشرع نے کہا کہ شامی ریاست کو جدید اصولوں کے تحت ازسرنو تعمیر کرنا ضروری ہے، تاکہ تمام شہریوں کے حقوق اور انصاف کی ضمانت دی جا سکے۔ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی اہمیت پر زور دیا، کیونکہ یہ غلطیاں ماضی میں استحکام کے قیام میں رکاوٹ بنی تھیں۔ عبوری حکومت کے پاس منظم منصوبے موجود ہیں تاکہ سابق صدر بشار الاسد کے دور میں ہونے والے منظم تباہی کا مداوا کیا جا سکے۔ نئی انتظامیہ کے اہداف واضح ہیں اور ترقی و تعمیر نو کے لیے اس کے منصوبے تیار ہیں۔

آئین کی نظرثانی اور حکومتی ڈھانچہ
آئین کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے کمیٹیاں اور کونسلیں تشکیل دی جائیں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی شکل کے بارے میں فیصلہ ماہرین، قانونی ماہرین اور شامی عوام کے مشورے پر چھوڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنے والی ریاست میں اہلیت اور قابلیت ہی بنیادی معیار ہوں گے۔
مسلح گروہوں کے بارے میں مؤقف
مسلح گروہوں کے حوالے سے احمد الشرع نے کہا کہ عبوری حکومت کی وزارتِ دفاع ان گروہوں کو ختم کرے گی اور ریاست کی اتھارٹی کے باہر کوئی ہتھیار نہیں ہوگا۔
شامی معاشرتی گروہوں کے ساتھ تعلقات
نئی انتظامیہ کا عیسائی اور دروز کمیونٹی کے ساتھ تعلق مضبوط ہے، اور یہ کہ ’وہ ہماری عسکری کارروائیوں کے دوران ہمارے ساتھ مل کر لڑے ہیں‘۔ انہوں نے کرد کمیونٹی اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے درمیان فرق پر بھی زور دیا اور اشارہ کیا کہ ان کا مسئلہ صرف پی کے کے تنظیم سے ہے، نہ کہ پوری کرد کمیونٹی سے۔ احمد الشرع نے پہلے کہا تھا کہ عبوری حکومت مغربی سفارت خانوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور دمشق میں برطانیہ کی نمائندگی کی بحالی کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ایرانی عوام کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔

روس کے ساتھ تعلقات
الشرع نے وضاحت کی کہ شام کی نئی انتظامیہ نے روس کو شام کے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنے کا موقع دیا ہے۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کے ساتھ دمشق میں اس کی سفارتی نمائندگی کی بحالی کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔
روسی فضائی حملے اور انسانی بحران
روسی فضائی حملوں کا بڑا ہدف عام شہری تھے، جس سے شمالی شام میں ’غزہ کے منظرنامے‘ کے دہرائے جانے کا خدشہ پیدا ہوا۔ اس صورتحال نے انسانی بحران کو مزید شدید کر دیا اور چیلنجز میں اضافہ کیا۔
اسرائیلی دلائل بے بنیاد
الشرع نے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلی دلائل اب بے بنیاد ہو چکے ہیں اور ان کی حالیہ خلاف ورزیاں کسی طور قابلِ جواز نہیں۔ اسرائیلیوں نے شام کی سرحدوں کو کھلم کھلا عبور کیا ہے، جس سے خطے میں بلا جواز کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔
موجودہ صورتحال اور ترجیحات
جنگ اور تنازعات کے برسوں کے بعد شام کی کمزور حالت اب کسی نئے تنازعے میں الجھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ الشرع کے مطابق، موجودہ وقت میں سب سے بڑی ترجیح تعمیر نو اور استحکام ہے، نہ کہ ایسے تنازعات میں ملوث ہونا جو مزید تباہی کا سبب بنیں۔
عالمی برادری سے اپیل
الشرع نے عالمی برادری سے فوری مداخلت اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اپیل کی، تاکہ اس کشیدگی کو قابو میں لایا جا سکے۔ انہوں نے خطے میں صورتحال کو معمول پر لانے اور شامی خودمختاری کے احترام کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے مطابق، امن و استحکام کو یقینی بنانے کا واحد راستہ سفارتی حل ہے، نہ کہ کوئی غیر دانش مندانہ فوجی کارروائی۔
عوامی کوششوں کی اہمیت
الشرع نے اس بات پر زور دیا کہ سابقہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کی جانے والی کوششیں کسی فرد واحد کی کاوش نہیں تھیں، بلکہ تمام شامی عوام کا مشترکہ عمل تھیں۔ انہوں نے کہا:
’ہم محض وہ ذرائع تھے، جنہیں اللہ نے سابقہ حکومت پر فتح کے لیے استعمال کیا، لیکن یہ کامیابی تمام شامیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اس میں خاص ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔‘
ایرانی توسیع پسندی خطے کے لیے خطرہ
احمد الشرع نے کہا کہ خطے میں ایرانی توسیع پسندی اور شام کو اپنی ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم میں تبدیل کرنا ملک اور پڑوسی ممالک، خصوصاً خلیجی ریاستوں، کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا تھا۔ انہوں نے کہا: ’ہم نے شام میں ایرانی موجودگی کا خاتمہ کر دیا ہے، لیکن ہمیں ایرانی عوام سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہماری اصل مسئلہ ان پالیسیوں سے تھا، جنہوں نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا۔‘
روس کے ساتھ تعلقات
الشرع نے وضاحت کی کہ شامی قیادت نے روس کو اکسانے سے گریز کرتے ہوئے اسے شام کے ساتھ تعلقات پر دوبارہ غور کرنے کا موقع دیا تاکہ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات بین الاقوامی تعلقات کو نہایت محتاط انداز میں سنبھالنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
‘پچھلا نظام: ایک ریاست نہیں بلکہ جاگیر’
الشرع نے سابقہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ایک حقیقی ریاست قائم کرنے کے بجائے شام کو ذاتی مفادات کے لیے ایک جاگیر کے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بشارالاسد حکومت میں لوٹ مار کی سطح بے حد بلند تھی اور آنے والے دنوں میں ایسی دستاویزات شائع کی جائیں گی جو یہ ثابت کریں گی کہ سابقہ حکومت نے عوامی وسائل کے ساتھ کیا زیادتیاں کیں اور کیسے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہوئے ذاتی اثاثے بنائے۔
بہتر مستقبل اور تعمیر نو کی ترجیحات
احمد الشرع نے کہا کہ اگلا مرحلہ تعمیر اور استحکام کا ہوگا، جہاں تمام توجہ شام کی بحالی اور عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے پر مرکوز ہوگی۔ انہوں نے کہا ’ہماری اولین ترجیح عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اور ایک زیادہ مستحکم اور منصفانہ مستقبل کی تعمیر پر کام کرنا ہے۔‘
(ترجمہ: ضیا چترالی)
ایک تبصرہ برائے “اب انقلابی سوچ کو خیرباد کہنا اور ریاستی تعمیر پر’ توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ‘”
بہت اہم انٹرویو ۔۔۔۔۔ بڑا سادہ اور عام فہم ترجمہ۔۔۔ کاش یہ ساری قابل عمل ہو سکیں۔۔۔۔ اور اس انقلاب سے خیر برآمد ہو۔۔۔