نصرت یوسف۔۔۔۔۔۔
لفٹ سبک رفتار سے بلندی پر جا رہی تھی، ہندسے اور مسافر ہر کچھ لمحوں میں بدلتے، کوئی آتا اور کوئ جاتا، ساتویں منزل تک پہنچتے پہنچتے وہ اکیلا مسافر رہ گیا ، لفٹ کی چمکدار دھاتی دیوار میں اس کا عکس واضح ہونے لگا، وہ گہری نگاہ ڈالتے کچھ وقت لگاتا لیکن، خودکار دروازہ دھیمی سی مترنم آواز کے ساتھ کھل گیا، اس کی منزل آچکی تھی،فرش پر رکھے بیگ کو اٹھاتے اس نے قدم باہر رکھ دیا، لفٹ کی جانب تیزی سے بڑھتےاجنبی نوجوان جوڑے کو اس نے سرسری دیکھا، ان کے آگے چار پانچ سالہ بچہ کو بھاگتے دیکھ کر بے اختیار مسکراتے اس نے پلٹ کر سرعت سے لفٹ روکنے کا بٹن دبایا.
بچہ تقریباًاس سے ٹکراتا ہوا لفٹ میں داخل ہوا اور والدین بھاگتے ہوئے اس کو پکارتے لپکے، خدشہ تھا کہ دروازہ ہی نہ بند ہو جائے، اس نے ایک بار پھر پلٹ کر بٹن پر انگلی رکھ دی. بند ہوتا دروازہ پیچھے ہوتا گیا اور ماں باپ دونوں اندر پہنچ گئے.
مرتعش سانسوں کے ساتھ دونوں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ جواب میں مسکرا کر سر ہلاتا آگے بڑھ گیا.
راہداری میں دھیمی دھیمی سی خوشبو پھیلی تھی، وہی جو لفٹ میں روانہ ہوئے جوڑے سے اٹھتی اس نے محسوس کی تھی.
“بالکل وہی جو اس میں سے آتی تھی ، اب تو مدت ہوئی، نہ خوشبو ہے اور نہ کھنک!” سوچوں میں گم وہ دھیمی چال چل رہا تھا.
چار قدم فاصلے پر اس کا فلیٹ تھا، صاف ستھری کشادہ راہداری میں رکھے پودوں پر پانی کی بوندیں ٹکی تھیں، اس نے گزرتے ہوئے ایک بوند کو اپنی پور میں چنا اور تالہ کھولتا اپنے فلیٹ میں داخل ہوگیا.
گھر میں اس کے سلام کی آواز گونجی مگر جواب دینے والا کوئی نہ تھا، لمحہ بھر کو وہ رک گیا، بیگ ہاتھ سے رکھتے ہوئے اس نے داخلی دروازے کو خواہ مخواہ دیکھا، گھنٹی تو نہ بجی تھی پھر کیوں اسے لگا جیسے کوئی باہر ہو، دستک دیتا ہوا، انتظار کرتا ہوا.
سر جھٹک کر جوتوں کو ان کی جگہ پر جماتا، وہ اپنی خواب گاہ کی جانب بڑھ گیا. اس کو ہر موسم میں نیم گرم پانی سے غسل پسند تھا لیکن آج پانی کی ٹھنڈی دھار جسم پر پڑتے ہی اس نے بے آرامی محسوس کی ،شاید گیزر میں کچھ مسئلہ تھا،
غسل سے طبیعت بحال نہ ہوئ اور بھوک کے باوجود وہ بستر پر لیٹ گیا.
کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد آنکھ لگ ہی گئ.
کون سا پہر تھا وقت کا، جب نیند کا غلبہ دھیما پڑا، کمرے میں نیم اندھیرا تھا، برابر میں وہ موجود تھی، مگر سوئ ہوئ. بھوک اب زوروں پر تھی لیکن تنہا کھانا اس کے لئے مشکل تھا.
اس نے کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر اس سوۓ وجود کو دیکھا کہ شاید اس میں کوئی جنبش ہو تو وہ اس سے کچھ بات کر سکے، کچھ بات جو اس سجے سجاۓ گھر جیسی سجی ہوئ ہو لیکن اس کا دنیا سے رابطہ منقطع تھا.
ٹھنڈی سانس لے کر اس نے گرم دودھ کے مگ پر اکتفا کرنے کا سوچتے کچن کا رخ کیا اور وہیں کرسی پر ٹک کر گھونٹ بھرنے لگا.
گھر میں باوقار آرائش تھی، ان دونوں نے اس گھر اور اپنے پروفیشن کے موجودہ درجہ تک پہنچنے کے لئے بہت محنت کی تھی، وہ ایک بہترین ایونٹ مینجر بن چکا تھا،وہ زوجین کے باہمی تعلقات کی بہترین کاؤنسلر میں شمار ہونے لگی تھی. لوگ اس کی مسیحائی کے لیے مدت تک محو انتظار رہتے، اور بہتر حالات کو پہنچ جاتے تو عقیدت بھی بڑھتی اور مانگ بھی.
خوش گفتاری اور خوش ادائ دونوں نسوانیت کے ساتھ جمع ہو جائیں اور ایسا وجود گھر کی چار دیواری سے نکل کر اپنا ہنر بکھیرتا ہو تو وقتاً فوقتاً اس کے انتخاب زوج پر چبھن دلانے والے ملتے رہتے ہیں.
“کیا غضب ہے، آپ جیسا ہیرا ایک عمومی سے تاج میں جڑا ہے”
“اوہ یہ ہیں آپ کے شوہر!”
“بہت جلد بازی کا فیصلہ لگتا ہے”
اور وہ ان تمام باتوں پر سپاٹ تاثرات چہرے پر منڈھ لیتی. ہر روز شوہر کا محبت بھرا حصار اسے باور کراتا کہ وہ یہاں تک اس کے تعاون کے ساتھ ہی پہنچ سکی، اگر وہ اس کا ساتھ نہ دیتا تو وہ آج تک ایک عمومی سطح پر جی رہی ہوتی.
احسان ماننا اس کی خو تھی اور وہ اسی لیے ان تعریفوں پر بند آنکھوں اوربہرے کانوں سے گزر جاتی.
ہر شام وہ کام کے وقفہ میں گھر پہنچتا تو وہ نکھری دھوپ بنی ملتی، ہر شب اس کا تھکا ہوا وجودشام کی نکھری دھوپ کو شب کی پر سکون چاندنی میں ڈھلا پاتاتو گھر کے سکوت میں کلکاریاں سننے کی خواہش حسرت نہ بننے پاتی.زندگی ایسے ہی رہتی تو پھر کیا تھا، مگر زندگی کا پہیہ عسر، یسر کے لیبل کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے، کسی کی قسمت میں عسر اور کسی کے لیے یسر کا وقفہ طویل. ان دونوں کی زندگیوں میں یسر کی نعمت گھنی تھی. لیکن بہرحال عسر کی باری بھی آہی گئ۔
دھن ،دھنا دھن عورت کی جانب بڑھا تو احساس برتری بھی ساتھ ساتھ چلا آیا، آئینہ بھی جادوئی بن گیا.. ہر بار ملاقات میں جتانا نہ بھولتا کہ اس جیسی عورت بات ماننے کے لیے نہیں بلکہ بات منوانے کے لیے پیدا کی جاتی ہے، مجازی خدا بننا اس کو زیب دیتا ہے، اور پھر ادائیں، کج ادائیوں پر تیزی سے سرکنے لگیں۔
مالدیپ کے تنہا سفر پر کسی آرگنائزیشن کے منعقد کردہ سیمینار پر جانے پر وہ بخوشی تیار تھی لیکن بیوی کو اجنبی جگہ، اجنبی لوگوں میں بھیجنے پر اسے کئ تحفظات لاحق تھے. اس نے ان سب کو اس سے بانٹنا چاہا لیکن جب “میری بات سنو اور سمجھو تو” کے بعد پہلا جملہ یہ آیا “مجھے ملا ہی کیا اس بندھن سے؟” تو وہ فوراً خاموش ہوگیا.
اس جملہ اور اس بات کو اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ کبھی ان کے درمیان گونجے گا… وہ تو اس خوش فہمی میں تھا کہ ان دونوں کو اس بندھن سے بہت نعمتیں ملی ہیں…وہ سوکھا سا لڑکا باوقار مرد بنا اور وہ گھبرائ سی لڑکی بااعتماد عورت بنی. زندگی نے دونوں کو زوجین بنا کر کئ قیمتی سبق سکھاۓ اور کئ قیمتی تحائف دیۓ…. اور اب وہ کہتی ہے
” کیا ملا؟؟؟”
اکیلے بیٹھے وہ سگریٹ پہ سگریٹ کے کش لگاتا” کیا ملا” اور “کیا نہ ملا” کا حساب لگا رہا تھا… اچانک نگاھ سامنے نظر آتے کلینڈر پر ٹک گئ…گلابی گالوں والا بچہ، لگتا تھا اسی کو دیکھ رہا ہے.
” مجھے تو یہ بھی نہیں ملا لیکن میں نے تمہیں کبھی نہیں جتایا، کیونکہ تم میرے لیے اھم تھیں”اس کی آنکھ میں پانی ٹہر گیا ..
میز پر رکھے موبائل کو اٹھاتے اس نے اپنا میل باکس کھولا، جہاں میڈکل رپورٹ امیج محفوظ تھا، یہ امیج پانچ برس پرانا تھا. بالکل اس تاریخ کا جب ان کی شادی کی دسویں سالگرہ تھی، وہ اپنی بیوی کو اچانک خوش دیکھنے کے لئے صبح اس کے جاگنے سے قبل ہینڈ بیگ میں اس کے پسندیدہ کلون کا تحفہ رکھ رہا تھا کہ لیبارٹری کا لفافہ دیکھ کر چونک گیا، اس کو کھولتے اسے ذرہ برابر بھی لکھے لفظوں کا خدشہ نہ تھا لیکن زندگی کے تمام رنگ یکا یک اس رپورٹ نے اڑا دیے تھے… وہ کبھی اس کی اولاد کی ما ں نہ بن سکتی تھی… بے اختیار اس نے پلٹ کر اطمینان سے گہری نیند سوتی بیوی کو حیرت سے دیکھا اور پھر اس کے سرہانے رکھی نیند کی دوائی پر اس کی نگاہ رک گئی..
” رات جاگتی رہی”اس نے بے اختیار سوچا اور پھر اس کا سوتا چہرہ دیکھا جہاں آنسو بہنے کے کچھ آثار تھے..
کسی خیال کے تحت موبائل سے امیج لیتے وہ اپنے آپ کو سنبھالتے یہ عہد کر رہا تھا کہ اس نے کسی ایک محرومی کو وجہ بنا کر اس عورت اور اپنی زندگی کو کڑوا کبھی نہیں کرنا.
اور پھر اس نے یہ عہد بہ خوبی نبھایا… اس وقت بھی جب اس کو یہ علم ہوا کہ وہ “باصلاحیت” ہے اور اس وقت بھی جب اس کو یہ علم ہوا کہ قدرت نے اس کی بیوی پر اس نعمت کا ہر طریقہ ہر راستہ بند رکھا ہے.
قربتیں، دوریوں میں بدلتی گئیں،
سکون، اضطراب میں ڈھلتا گیا،
سناٹے درد بھری سسکیوں میں ڈوبتے گۓ، وہ محو انتظار رہا،
“میری ہے، لوٹ کر آۓ گی”
لیکن اس کے جملے نے یکایک اسے توڑ ڈالا
“مجھے ملا ہی کیا؟؟؟؟ اس بندھن سے”
موبائل کی پیڈ پر اس کی تھکی ہوئ نگاہیں اور مرتعش انگلیاں لگیں تھیں.
یہی سوال اگر میں تم سے کرتا، “مجھے کیا ملا تم سے” تو میں کہوں گا، “ستارے ملے، گلاب ملے”
لیکن اب اسے تمہاری نا قدری اور خودغرضی نے جلا ڈالا.
میسج بھیج کر اس نے سر کو سیٹ پر ڈھیلا چھوڑ دیا…
وہ مالدیپ جا چکی تھی. اور وہ اس سے محبت چھوڑ چکا تھا.
4 پر “خواب تھا کوئی…” جوابات
بہت پیارا لکھا ہے لیکن تلخی سے بھرپور۔ ایسے مرد میں نے نہیں دیکھے جو بے غرض ہوں۔ سب کم از کم بیوی کے ساتھ خودغرض ہوتے ہیں۔
may Allah gives you more wisdom and knowledge Excellent writing
تحریر مکمل اور پر اثر ہے مگر مرد عموما اولاد
کے لیے دوسری کرلیتا ہے ۔
ضروری نہیں کہ سارے مرد ایک جیسے ہوں۔شوہر شعور والا ہو تو بیوی کا باشعور ہونا اور رہنا دونوں ضروری ہیں ۔مرد کے لئے ویسے بھی اور راستوں کا انتیخاب عورت کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔