جائیداد-کی-تقسیم

وراثت کی تقسیم، سادہ اور حکمت سے بھرپور لیکن کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اسلام کے خاندانی نظام کو جوڑ کر رکھنے والی بہت سی چیزیں ہیں جن میں باہمی عزت و احترام، درگزر اور تحائف کا تبادلہ اہم ہیں۔اسی طرح بہن بھائیوں کا والدین کی جائیداد کو انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق آپس میں تقسیم کرنا بھی شامل ہے۔

ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ جائیداد کی تقسیم سے قبل باہمی تعلقات اچھے بھلے چل رہے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی والدین کی وفات ہوتی ہے، بچے ان کی چھوڑی چیزوں کو بانٹنے کے لیے اس قدر حرص و طمع کا شکار ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی تامل نہیں کرتے۔ جان چھڑکنے والی بہنیں سگے بھائیوں کی جانی دشمن بن جاتی ہیں جبکہ بھائی بھائیوں کے قاتل۔ حالانکہ جائیداد کی تقسیم ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہے۔

اللہ تعالٰی سے ڈر کے زندگی گزارنے والے اپنے حقوق و فرائض کا انتہا درجے تک خیال رکھتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے رب سے ملاقات کا مکمل یقین ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہر معاملے میں قرآن و حدیث کی اطاعت ہم پر فرض ہے۔ چاہے معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا۔

 درحقیقت وراثت کی تقسیم کا معاملہ بہت ہی سادہ اور حکمت سے بھرپور ہے بشرطیکہ ہر شخص کسی بھی لالچ اور حرص کے بغیر اس پر عمل کرے۔ جو کوئی اللہ کا حکم جانتے ہوئے اس پر عمل کرے گا۔اللہ اسے دنیاوآخرت دونوں میں بہت زیادہ نوازے گا۔ اس باب میں صرف اپنے دل کو صاف کرنا ہے اور اپنے رب کا حکم سمجھ کر اس وراثت کو تقسیم کرنا ہے۔

وراثت کے حصوں کو خود وارث تقسیم نہیں کرسکتے اور نہ ہی والدین اپنے مال کو اپنی مرضی سے اولاد میں  تقسیم کر سکتے ہیں بلکہ شریعت کے جاننے اور ماننے والے متقی علماء سے اس کی تقسیم کرواتے ہیں تاکہ عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔

جائیداد تقسیم کرتے ہوئے اولاد کی فرمانبراری، نافرمانی، خدمت یا لاڈلا ہونا نہیں دیکھا جاتا بلکہ والدین کا تخم (حقیقی اولاد)ہونا دیکھا جاتا ہے۔

بڑا بچہ یا چھوٹا بچہ ہونے کی حیثیت سے بھی کسی کا حق نہیں مارا جاسکتا۔

مزید یہ کہ کس بچے بچی نے جائیداد بنانے میں کتنی محنت اور معاونت کی یہ بھی نہیں دیکھا جاتا بلکہ جو جائیداد والدین کے نام ہے وہ ساری اولاد میں عدل و انصاف سے بانٹی جاتی ہے۔

جائیداد کی تقسیم میں سے پہلا اور ضروری کام والدین کے قرضے اتارنا ہے جو قبر میں ان کے لیے انتہائی عذاب کا باعث بن سکتے ہیں۔

 بھائی کبھی بہنوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ تمہیں جہیز دے چکے ہیں، اس لیے اب تمہارا کوئی حصہ نہیں۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بھاری بھر کم جہیز ہندوانہ رسم ہے جبکہ بہنوں بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ دینا اللہ کا حکم ہے۔

جن کی نیت اللہ کا حکم ماننے کی ہو انہیں چاہیے کہ جہیز کی بجائے بہنوں بیٹیوں کو ان کا شرعی حق دیں۔

شریعت کی رو سے کوئی بیٹا، بیٹی اپنے والدین سے جائیداد نہیں لکھوا سکتا چاہے والدین کی رضامندی ہی کیوں نہ ہو۔

کیونکہ یہ حصے رب تعالٰی نے بنائے ہیں اور ان کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے۔

اللہ کسی کو بھی اپنے حق سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔وہ سب سے زیادہ انصاف پسند ہے اور اپنے بندوں کے درمیان انصاف سے فیصلے فرماتا ہے تاکہ اس کے بندے ایک دوسرے سے تعلقات بنا کر رکھیں۔

رہی بات اپنے حصے کے لیے سرکاری عدالت سے رجوع کرنے کی، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ بشرطیکہ عدالت جلد از جلد شریعت کے مطابق فیصلہ کرے۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سرکاری عدالتیں وکلاء کی بھاری فیسوں اور جھوٹ پر مبنی شواہد کے ساتھ سالہا سال معاملات کو لٹکائے رکھتی ہیں۔ جو فریق جتنے زیادہ روپے لگائے گا، جتنے زیادہ جھوٹ بولے گا اتنا زیادہ حصہ لے اڑے گا۔ یوں دادا کے وقت سے جائیداد کا فیصلہ ہوتے ہوتے اس قدر طول پکڑتا ہے کہ پوتے جوان ہو جاتے ہیں، ہماری سرکاری عدالتیں فیصلوں کو التوا کا شکار کرتی رہتی ہیں۔ وکلا بھاری بھاری فیسیں لیتے رہتے ہیں۔ یوں دنوں میں ہو جانے والے فیصلے سالوں تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔

 ان عدالتوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے سب فریق آپس میں مل بیٹھ کر یا فون پر باہمی رضامندی سے اسلامی فتویٰ کے حصول کے لیے دارالقضا سے کسی متفقہ عالم سے جائیداد کی تفصیلات بتا کر فتوی لے لیں۔ اس طرح سب فریقین وقت پر اپنے حصے کو کام میں لا کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

کیونکہ وہ مفتیان کرام 

1۔جائیداد کی تقسیم عین اسلامی اصولوں پر کریں گے

2۔معاملے کو کچھ دنوں میں ہی نپٹا دیں گے۔۔۔

۔ لوگ انصاف کے ہر تقاضے کو پورا کریں گے

اور یوں آپ سالہا سال کی ٹینشن اور گھٹن بھرے ماحول سے نکل آئیں گے، پیسے کے ساتھ ساتھ وقت بھی بچے گا اور مطمئن دل و دماغ سے آپ اپنی زندگی گزار سکیں گے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وحدیث کو اپنا رہبر و مربی مان کر فیصلے کرنے کی توفیق دے۔آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے