امریکی ادارے ’جارج ٹاؤن انسٹی ٹیوٹ فار ویمن ، پیس اینڈ سیکیوریٹی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 33 فی صد خواتین موبائل استعمال کرتی ہیں،24 فی صد برسرروزگار ہیں، پارلیمان میں خواتین کا حصہ 20 فی صد ہے، بیٹے کی خواہش دنیا کے دیگر معاشروں کی نسبت پاکستان میں زیادہ ہے،73فی صد پاکستانی مرد اپنے گھر کی خواتین کو روزگار کے لیے باہر بھیجنا پسند نہیں کرتے۔27 فی صد خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
ان سارے اعدادوشمار کی بنیاد پر ادارے نے پاکستان کو خواتین کے لیے بہتر معیار زندگی فراہم کرنے والے ممالک میں آخر میں رکھا ہے اور قراردیا ہے کہ دنیا کے 153ممالک میں پاکستان کا نمبر150واں ہے، جب کہ بھارت 131نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے زیادہ بری صورت حال صرف یمن، افغانستان اور شام میں ہے۔
یقیناً امریکی ادارے کی رینکنگ کا معیار مغربی ہی ہوگا، اب ایک پاکستانی ادارے ’گیلپ انٹرنیشنل‘ کے مختلف جائزوں کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان جائزوں کے مطابق پاکستان میں51 فی صد خواتین ہراساں کیے جانے کے ڈر سے گھر سے باہر سفر کرنا کم کردیتی ہیں،34 فی صد خواتین اکیلے سفر کرنا پسند نہیں کرتیں،29 فی صد تحفظ کے لیے حجاب استعمال کرتی ہیں۔ 28 فی صد راستہ بدل کر سفر کرتی ہیں،26 فی صد اندھیرا ہونے کے بعد باہر نہیں نکلتیں۔ ہراساں ہونے کے سبب 12فی صد طالبات تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔
یہ تصویر ہے گھر کے باہر کی، اب دیکھتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ گھروں کے اندر کیا طرزعمل اختیار کیا جاتا ہے۔ رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق 81 فی صد پاکستانیوں کے خیال میں بیٹی کے رشتے کے معاملے میں والدین کا فیصلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، صرف19فی صد کا کہنا تھا کہ لڑکی کو انتخاب کا حق ہونا چاہیے۔ ایسے پاکستانیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے خیال میں ہمارے معاشرے میں عورت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عزت واحترام حاصل ہورہا ہے، سن 2009ء سے2017ء تک کے عرصے کے دوران ایسے پاکستانیوں کی شرح میں 21 فی صد اضافہ ہوا ہے۔70فی صد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ خواتین کو گزرے برسوں کی نسبت زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
رائے عامہ کے مذکورہ بالا جائزوں کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں خواتین بالخصوص شادی شدہ خواتین کے لیے حالات اب بھی خراب ہیں۔ ان کے لیے سنگین مسائل کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب ان کی شادی کے لیے تیاری شروع ہوتی ہیں، اس کے بعد ہر آنے والا دن انھیں راحت اور سکون کے بجائے کوفت اور اذیت فراہم کرتا ہے۔ آئیے! ذیل میں ان مسائل کا جائزہ لیتے ہیں جنھوں نے پاکستانی خواتین کی زندگی کو ابتر کر رکھا ہے:
جہیز کا مسئلہ
بنیادی طور پر جہیزدلہا اور دلہن کی ایک فطری ضرورت تھی جو انھیں نئی زندگی کی گاڑی چلانے میں معاونت فراہم کرتی تھی، لوگ اپنی استطاعت کے مطابق بیٹی کو جہیز دیتے، دوسری طرف لڑکے والے بھی دلہا، دلہن کے ہاتھ مضبوط کرتے۔ تاہم جہیز مسئلہ تب بنا جب لڑکے والوں نے جہیز کو لڑکی کی ضرورت کے بجائے لڑکے کا حق قرار دے دیا۔ پھر یہ جہیز لالچ اور ہوس کی شکل اختیار کرگیا اور پھر دلہنوں کی زندگیاں اجیرن ہونے لگیں، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ نکاح ہوا اور چند دنوں بعد جہیز کم یا بالکل نہ لانے پر لڑکی کو طلاق دے کر والدین کے ہاں بھیج دیا گیا۔
پہلے سسرال کے طعنے سن کر دلہنیں صرف نفسیاتی مریض بنتی تھیں، جسمانی ونفسیاتی تشدد سہتی تھیں، اب انھیں کافی جہیز نہ لانے کے ’’جرم‘‘ میں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال2000 خواتین جہیز نہ لانے کے سبب قتل کردی جاتی ہیں۔ رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق84 فی صد پاکستانی شادی میں جہیز کا کردار بہت زیادہ یا پھر کسی حد تک اہم سمجھتے ہیں، 69 فی صد کا خیال ہے کہ جہیز کے بغیر لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی۔ گذشتہ برس ہونے والے رائے عامہ کے ایک دوسرے جائزے کے مطابق56 فی صد پاکستانی بیٹے کی شادی کرتے ہوئے لڑکی کے جہیز پر نظر رکھتے ہیں۔
پاکستان میں جہیز کو غیرقانونی قرار دینے کے لیے اب تک پانچ بار قوانین منظور ہوچکے ہیں پہلی بار1961ء میں پاس ہوا، اس کے بعد بار بار ہوا لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہاں کے مقتدر طبقات خود ہی یہ مسئلہ ختم کرنا نہیں چاہتے۔ جنوری2018ء میں سندھ کابینہ میں ایک بل پیش کیا گیا، جس کے مطابق سندھ میں جہیز50 ہزار اور منہدی کے تحائف یا اخراجات50 ہزار سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ کسی دباؤ پر جہیز حاصل کرنے پر پابندی ہوگی جب کہ پابندی کی خلاف وزری پر6 ماہ سزا اور بھاری جرمانہ ہوگا۔ تاہم پیپلزپارٹی کے راہ نما اور صوبائی وزیر منظوروسان نے اعتراض کیا کہ جہیز کے خلاف یہ سزا دینا قانوناً مناسب نہیں، وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کا بھی کہنا تھا:’’غیرضروری مطالبات کا خاتمہ شعور پیدا کرنے سے ہوسکتا ہے۔‘‘ گویا ان کا ووٹ بھی قانون کے حق میں نہیں تھا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے2010ء میں جہیز کے خلاف ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی، پھر مارچ 2017ء میں بھی میں جہیز کے خاتمے کے لیے بل پیش کیا گیا، جس کے مطابق تحائف سمیت ولیمہ اور دیگر اخراجات 75 ہزار روپے مالیت سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ دلہن کے والدین کو جہیز پر مجبور کرنے والوں کو دو ماہ قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا، نکاح اور بارات میں مہمانوں کی تواضع صرف مشروبات سے کی جائے گی جب کہ ولیمہ میں چاول، گریوی اور سوئٹ کے علاوہ دیگر اشیاء پکانے پر پابندی عائد ہوگی۔ اسی طرح والدین یا دیگر رشتہ دار دلہن کو جہیز کی بجائے صرف تحائف دے سکیں گے، جن کی مالیت بھی دس ہزار روپے سے زائد نہیں ہوگی۔
بل کے مطابق جہیز کی مد میں نقد رقم یا دیگر لوازمات رکھنے پر دلہن اور دلہا کے والد یا سربراہ کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی۔ اپریل 2017ء میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک اہم اور منفرد قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب حکومت کو ہدایت کی کہ وہ قانون سازی کرے کہ آئندہ کسی بھی دلہن کو جہیز میں دیے جانے والے قیمتی سامان یا تحائف کی فہرست باقاعدہ طور پر نکاح نامے میں بھی لکھی جائے گی۔ عدالت کے مطابق اس طرح ایسی خواتین کے مادی مسائل میں کمی کی جا سکے گی، جو پہلے ہی سے طلاق کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہوں۔
لڑکیوں کو رشتے کے لیے دیکھنے آنا اور رد کردینا
بھلا کوئی اس لڑکی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کرسکتا ہے جب لڑکے والے اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں تو اس کا جائزہ یوں لیتے ہیں جیسے وہ قربانی کا جانور ہو، پھر اس کی جسامت، نین نقش پر اعتراضات کرکے، رد کرکے چلے جاتے ہیں۔ مسترد کیے جانے کا یہ عمل لڑکی کو شدید مایوسی سمیت دیگر کئی نفسیاتی عوارض کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسی بعض لڑکیاں مایوس ہوکر کبھی شادی نہ کرنے کا ارادہ کرلیتی ہیں، اس کے بعد والدین کے گھرانے میں بھابھیوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کی زندگی میں کیا کیا مسائل جنم لیتے ہیں، اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔
نکاح کے فارم سے عورتوں کو تحفظ دینے والی شرائط کاٹ دینا
خیبر پختونخواہ میں موجود صوبائی کمیشن برائے ویمن اسٹیٹس کی2014 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 74 فی صد خواتین ایسی ہیں جن سے نکاح نامہ فارم پر کرنے سے پہلے مشورہ نہیں کیا گیا، جب کہ 40 فی صد شادی شدہ خواتین اس بات سے واقف ہی نہیں ہوتیں کہ نکاح نامے میں ان کی جانب سے کیا تحریر کیا گیا۔ اچھی بھلی پڑھی لکھی لڑکیاں بھی نکاح نامہ نہیں دیکھتیں۔ ڈاکٹررابعہ خرم درانی ایک گائناکالوجسٹ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اکثر لڑکیاں زندگی بھر اپنے نکاح نامے کو دیکھ ہی نہیں پاتیں عموماً اس کی دو تین وجوہات ہوتی ہیں: اولاً: والد/ولی پر اعتماد، ثانیاً: اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ نکاح نامے کی تفصیلات انھیں جاننی چاہییں، اس کا سبب کم عمری، ذہنی ناپختگی یا تعلیم کا فقدان بھی ہوسکتا ہے۔
ثالثاً: اس معاملے میں لب کھولنا بے شرمی یا بغاوت سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹررابعہ کا کہنا ہے کہ عموماً لڑکے بھی نکاح نامے کی تفصیلات سے باخبر نہیں ہوتے۔ یہ کام گھر کے بڑوں کے سپرد کردیا جاتا ہے اور اپنی زندگی کا اہم ترین معاہدہ بنا اپنے شعوری علم اور بغیر اپنی مرضی کی شرائط کے طے ہونے دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹررابعہ بھی ان خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے نکاح نامہ خود پُر کیا نہ ہی اس کی تفصیلات قبل ازوقت معلوم کیں تاہم اب وہ کہتی ہیں کہ لڑکی کو نکاح نامے کی تفصیلات سے آگاہ نہ کرنا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں جن خواتین کے انٹرویوز کیے گئے ان میں ثمینہ رشید بھی شامل تھیں، انھوں نے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررکھی ہے، انھوں نے بھی اپنا نکاح نامہ خود پُر نہیں کیا تاہم وہ ان بیسیوں خواتین میں واحد تھیں جو نکاح ہونے سے قبل نکاح نامے میں طے ہونے والے مندرجات سے مکمل واقف تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نکاح کے فارم میں شق 13 سے لے کر 25 تک باقاعدہ ایک لکیر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ شقیں حق مہر، نان و نفقہ سے متعلق دستاویزات تیار کرنے، طلاق کا حق تفویض کرنے اور اس کی شرائط، کسی جائیداد کے مہر میں دینے ، طلاق دینے کی صورت میں مرد کو کسی شرط یا پابندی کا تابع کرنے تاکہ عورت طلاق کی صورت میں آرام سے زندگی گزار سکے، زیورات کی ملکیت کے بارے میں اندراج سے متعلق ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر قسم کی غیرشرعی رسموں کے تحت ہونے والی شادی میں واحد شرعی رسم کی تان مہر پر آکر ٹوٹتی ہے جو پانچ سے دس ہزار تک ہی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ان تمام شقوں پر زور دینے اور لازمی اندراج کرنے کے بجائے ان پر ایک لکیر ڈال دی جاتی ہے۔ یوں ایک ایسے معاہدہ جس کی قانونی حیثیت تسلیم شدہ ہے، میں عورت کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً طلاق کی صورت میں عورت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا کیوںکہ نکاح نامے کی متعلقہ شقوں میں کچھ درج ہی نہیں ہوتا۔
خلع نہ لینے اور ہر صورت میں شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے معاشرہ اور خاندان کا دباؤ
یقیناً طلاق یا خلع لینے کا عمل جائز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ ہوتا ہے، سبب یہ ہے کہ کوئی بھی ایک گھرانے کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہتا۔ تاہم جب لڑکی پر ظلم و استحصال کی انتہا ہوجائے، اسے روز بدترین تشدد کا سامنا ہو، ایسے میں ازدواجی زندگی کا سفر جاری رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے، ایسے میں لڑکی کو خلع نہ لینے کے مشورے بذات خود ایک ظلم شمار ہوتے ہیں۔ مجبور والدین بیٹی کو بہلانے کے لیے شوہر اور سسرال کے مظالم کو معمولی قرار دیتے ہیں، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ یہ بیٹی خلع یافتہ ہوگئی تو اس کے بُرے اثرات غیرشادی شدہ بیٹیوں پر بھی پڑیں گے، لوگ اور رشتہ دار باتیں بنائیں گے وغیرہ ۔ راشدہ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس کی شوہر کے ساتھ مزید گزربسر نہیں ہوسکتی، شادی کو دس برس ہوچکے ہیں۔
وہ چاہتا ہے کہ بیوی کمائے ، چار بچیوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی پالے پوسے، اور وہ گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھے یا پھر باہر اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارے۔ بیوی کچھ کمانے کا تقاضا کرتی ہے تو وہ اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتا۔ راشدہ نے اسے متعدد بار کہا کہ وہ اسے طلاق دے دے لیکن اس کا شوہر جانتا ہے کہ طلاق دینے کی صورت میں راشدہ کو بہت کچھ دینا پڑے گا، وہ اسے خلع کا مشورہ دیتا ہے۔ خاتون جب خلع کا سوچتی ہے تو اس کے رشتہ دار کہتے ہیں کہ تم پڑھی لکھی ہو، کماؤ، بچے پالو، شوہر کو ایک طرف پڑا رہنے دو، جب ٹھیک ہوجائے تو اسے قبول کرلینا، آخر وہ تمہارے بچوں کا باپ ہے، بچیوں کے لیے باپ کی بہت ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ جیسا بھی ہو۔ خلع لے کر تمہاری اور تمہارے والدین کی معاشرے میں عزت کیا رہ جائے گی۔ اگر سگا باپ نہیں ہوگا تو مستقبل میں بچیوں کے رشتوں میں بھی مشکل ہوگی۔
شادی شدہ خواتین کے جلنے کے واقعات
پولیس ریکارڈ کے مطابق گذشتہ چھے برسوں کے دوران خواتین کو جلانے یا کسی دوسری تیسری صورت میں قتل کرنے، جنسی ہراسانی وغیرہ جیسے جرائم پر مبنی51 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے چولہا پھٹنے کے واقعات کی خبریں روزانہ شائع ہونے لگی تھیں، اب بھی ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 300خواتین کو زندہ جلادیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایسے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ جو اعدادوشمار دست یاب ہوتے ہیں، وہ اس لیے نامکمل ہوتے کہ لوگ بااثر لوگوں کے ساتھ مل کر ظلم پر مبنی واقعات پر پردہ ڈال لیتے ہیں۔ 2015ء کے اعدادوشمار پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اس ایک سال کے دوران پنجاب میں 35 خواتین کو زندہ جلایا گیا جب کہ سندھ میں ان کی تعداد 72 اور بلوچستان میں 143 ہے۔ موخرالذکر صوبہ کی مذکورہ بالا تعداد میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جن کے چہرے پر تیزاب پھینکا گیا۔ 2015ء میں سندھ میں 90 جب کہ پنجاب میں 22خواتین تیزاب گردی کی شکار ہوئیں۔
طلاق اور اس کے بعد مسائل
ثمینہ رشید کہتی ہیں کہ اوّل تو طلاق کا فیصلہ ہی عورت کے لیے بہت مشکل کردیا جاتا ہے۔ صبر کی آخری حد پر بھی یہ فیصلہ کرنا ایک عورت کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیوںکہ معاشرے میں اب بھی طلاق کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی دباؤ کے پیش نظر عورت بہت کچھ خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔ کسی قسم کی چپقلش کی صورت میں اگر مہر وغیرہ کم ہو تو مرد بہت آرام سے طلاق دے کر جان چھڑا لیتا ہے، جہاں کہیں نکاح نامے میں طلاق کے حق سے متعلق کسی قسم کی شرط ہو یا مہر زیادہ ہو تو وہاں طلاق کے معاملے کو جان بوجھ کر اس قدر لٹکایا جاتا ہے، تاکہ لڑکی والے خلع لینے پر مجبور ہوجائیں اور مہر نہ دینا پڑے۔ طلاق کے بعد جہیز اور زیور پر سسرال والے قبضہ کرلیتے ہیں۔ طلاق یافتہ خواتین کا دوسرا نکاح بھی آسان ٹاسک نہیں۔ معاشرے میں بیوہ کا دوسرا نکاح نسبتاً آسان ہے طلاق یافتہ کا نہیں۔
طلاق یافتہ خواتین کے حق کے حصول کے لیے مقدمات کی طوالت
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طلاق یافتہ خواتین جب اپنے حقوق کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں تو ان کے مقدمات کبھی ختم فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہوتے، نتیجتاً وہ خلع کا دعویٰ دائر کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ یاد رہے کہ خلع کے دعویٰ کا مطلب حق مہر سمیت اپنے تمام تر حقوق سے دست برداری ہوتا ہے۔ عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز مقدمات کو اس لیے معرض التوا میں ڈالتے ہیں کہ شاید کسی مرحلے پر مفاہمت ہوجائے۔ بعض اوقات ججز کی یہ تدبیر کام یاب ہوجاتی ہے۔ بعض ججز اور وکلا ایسے مقدمات کو اس لیے بھی طول دینا چاہتے ہیں کہ وہ مقدمات کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لڑکے والوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ طلاق کے مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو تاکہ لڑکی والے خلع لینے پر مجبور ہوجائیں۔
ڈاکٹرمحمد مشتاق احمد طویل عرصے سول جج کے طور پر کام کرتے رہے، آج کل وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ ہیں، وہ ایسے ہی ایک طویل مقدمہ کا احوال سناتے ہیں:’’میں ایک چھوٹے سے ضلع میں کام کر رہا تھا، وہاں مجھے روزانہ 80 کیسز نمٹانے ہوتے تھے ۔ ایک روز ہمارے ایک سنیئر سول جج نے ایک کیس کی فائل دی کہ اسے دیکھیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔ یہ ایک خاتون اور ان کے شوہر کا مسئلہ تھا، فیملی لا کا ایشو تھا، تین بچوں کی ولادت کے بعد اس خاتون نے اپنی جائیداد شوہر کے نام کر دی، ممکن ہے شوہر نے دباؤ ڈالا ہو، جب یہ خاتون میکے گئی وہاں اس کے والدین غصے میں آگئے کہ تم نے ہم سے پوچھے بغیر انتقال کیسے کیا، مجبور کئے جانے پر خاتون نے انتقال کی منسوخی کا دعویٰ دائر کر دیا۔ جب اس نے درخواست دی تو شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔
مقدمہ 24 سال پہلے دائر ہوا تھا، لوئر کورٹ سے بالآخر بات ہائی کورٹ تک پہنچ گئی تھی، ہائی کورٹ نے کہا کہ اس مقدمے کے بالکل شروع میں ایک غلطی ہوئی ہے، اس وجہ سے پورا مقدمہ غلط بنیاد پر چلایا گیا، اس کو آپ شروع سے چلائیں، اسے واپس نیچے بھیج دیا گیا یعنی 24 سال بعد مقدمہ از سر نو شروع کریں۔سے دس ہزار تک ہی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ان تمام شقوں پر زور دینے اور لازمی اندراج کرنے کے بجائے ان پر ایک لکیر ڈال دی جاتی ہے۔ یوں ایک ایسے معاہدہ جس کی قانونی حیثیت تسلیم شدہ ہے، میں عورت کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً طلاق کی صورت میں عورت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا کیوںکہ نکاح نامے کی متعلقہ شقوں میں کچھ درج ہی نہیں ہوتا۔
خلع نہ لینے اور ہر صورت میں شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے معاشرہ اور خاندان کا دباؤ
یقیناً طلاق یا خلع لینے کا عمل جائز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ ہوتا ہے، سبب یہ ہے کہ کوئی بھی ایک گھرانے کو ٹوٹنے نہیں دینا چاہتا۔ تاہم جب لڑکی پر ظلم و استحصال کی انتہا ہوجائے، اسے روز بدترین تشدد کا سامنا ہو، ایسے میں ازدواجی زندگی کا سفر جاری رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے، ایسے میں لڑکی کو خلع نہ لینے کے مشورے بذات خود ایک ظلم شمار ہوتے ہیں۔ مجبور والدین بیٹی کو بہلانے کے لیے شوہر اور سسرال کے مظالم کو معمولی قرار دیتے ہیں، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ یہ بیٹی خلع یافتہ ہوگئی تو اس کے بُرے اثرات غیرشادی شدہ بیٹیوں پر بھی پڑیں گے، لوگ اور رشتہ دار باتیں بنائیں گے وغیرہ ۔ راشدہ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس کی شوہر کے ساتھ مزید گزربسر نہیں ہوسکتی، شادی کو دس برس ہوچکے ہیں۔
وہ چاہتا ہے کہ بیوی کمائے ، چار بچیوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی پالے پوسے، اور وہ گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھے یا پھر باہر اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارے۔ بیوی کچھ کمانے کا تقاضا کرتی ہے تو وہ اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتا۔ راشدہ نے اسے متعدد بار کہا کہ وہ اسے طلاق دے دے لیکن اس کا شوہر جانتا ہے کہ طلاق دینے کی صورت میں راشدہ کو بہت کچھ دینا پڑے گا، وہ اسے خلع کا مشورہ دیتا ہے۔ خاتون جب خلع کا سوچتی ہے تو اس کے رشتہ دار کہتے ہیں کہ تم پڑھی لکھی ہو، کماؤ، بچے پالو، شوہر کو ایک طرف پڑا رہنے دو، جب ٹھیک ہوجائے تو اسے قبول کرلینا، آخر وہ تمہارے بچوں کا باپ ہے، بچیوں کے لیے باپ کی بہت ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ جیسا بھی ہو۔ خلع لے کر تمہاری اور تمہارے والدین کی معاشرے میں عزت کیا رہ جائے گی۔ اگر سگا باپ نہیں ہوگا تو مستقبل میں بچیوں کے رشتوں میں بھی مشکل ہوگی۔
شادی شدہ خواتین کے جلنے کے واقعات
پولیس ریکارڈ کے مطابق گذشتہ چھے برسوں کے دوران خواتین کو جلانے یا کسی دوسری تیسری صورت میں قتل کرنے، جنسی ہراسانی وغیرہ جیسے جرائم پر مبنی51 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے چولہا پھٹنے کے واقعات کی خبریں روزانہ شائع ہونے لگی تھیں، اب بھی ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 300خواتین کو زندہ جلادیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایسے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ جو اعدادوشمار دست یاب ہوتے ہیں، وہ اس لیے نامکمل ہوتے کہ لوگ بااثر لوگوں کے ساتھ مل کر ظلم پر مبنی واقعات پر پردہ ڈال لیتے ہیں۔ 2015ء کے اعدادوشمار پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اس ایک سال کے دوران پنجاب میں 35 خواتین کو زندہ جلایا گیا جب کہ سندھ میں ان کی تعداد 72 اور بلوچستان میں 143 ہے۔ موخرالذکر صوبہ کی مذکورہ بالا تعداد میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جن کے چہرے پر تیزاب پھینکا گیا۔ 2015ء میں سندھ میں 90 جب کہ پنجاب میں 22خواتین تیزاب گردی کی شکار ہوئیں۔
طلاق اور اس کے بعد مسائل
ثمینہ رشید کہتی ہیں کہ اوّل تو طلاق کا فیصلہ ہی عورت کے لیے بہت مشکل کردیا جاتا ہے۔ صبر کی آخری حد پر بھی یہ فیصلہ کرنا ایک عورت کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیوںکہ معاشرے میں اب بھی طلاق کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی دباؤ کے پیش نظر عورت بہت کچھ خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔ کسی قسم کی چپقلش کی صورت میں اگر مہر وغیرہ کم ہو تو مرد بہت آرام سے طلاق دے کر جان چھڑا لیتا ہے، جہاں کہیں نکاح نامے میں طلاق کے حق سے متعلق کسی قسم کی شرط ہو یا مہر زیادہ ہو تو وہاں طلاق کے معاملے کو جان بوجھ کر اس قدر لٹکایا جاتا ہے، تاکہ لڑکی والے خلع لینے پر مجبور ہوجائیں اور مہر نہ دینا پڑے۔ طلاق کے بعد جہیز اور زیور پر سسرال والے قبضہ کرلیتے ہیں۔ طلاق یافتہ خواتین کا دوسرا نکاح بھی آسان ٹاسک نہیں۔ معاشرے میں بیوہ کا دوسرا نکاح نسبتاً آسان ہے طلاق یافتہ کا نہیں۔
طلاق یافتہ خواتین کے حق کے حصول کے لیے مقدمات کی طوالت
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طلاق یافتہ خواتین جب اپنے حقوق کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں تو ان کے مقدمات کبھی ختم فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہوتے، نتیجتاً وہ خلع کا دعویٰ دائر کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ یاد رہے کہ خلع کے دعویٰ کا مطلب حق مہر سمیت اپنے تمام تر حقوق سے دست برداری ہوتا ہے۔ عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز مقدمات کو اس لیے معرض التوا میں ڈالتے ہیں کہ شاید کسی مرحلے پر مفاہمت ہوجائے۔ بعض اوقات ججز کی یہ تدبیر کام یاب ہوجاتی ہے۔ بعض ججز اور وکلا ایسے مقدمات کو اس لیے بھی طول دینا چاہتے ہیں کہ وہ مقدمات کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لڑکے والوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ طلاق کے مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو تاکہ لڑکی والے خلع لینے پر مجبور ہوجائیں۔
ڈاکٹرمحمد مشتاق احمد طویل عرصے سول جج کے طور پر کام کرتے رہے، آج کل وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ ہیں، وہ ایسے ہی ایک طویل مقدمہ کا احوال سناتے ہیں:’’میں ایک چھوٹے سے ضلع میں کام کر رہا تھا، وہاں مجھے روزانہ 80 کیسز نمٹانے ہوتے تھے ۔ ایک روز ہمارے ایک سنیئر سول جج نے ایک کیس کی فائل دی کہ اسے دیکھیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔
یہ ایک خاتون اور ان کے شوہر کا مسئلہ تھا، فیملی لا کا ایشو تھا، تین بچوں کی ولادت کے بعد اس خاتون نے اپنی جائیداد شوہر کے نام کر دی، ممکن ہے شوہر نے دباؤ ڈالا ہو، جب یہ خاتون میکے گئی وہاں اس کے والدین غصے میں آگئے کہ تم نے ہم سے پوچھے بغیر انتقال کیسے کیا، مجبور کئے جانے پر خاتون نے انتقال کی منسوخی کا دعویٰ دائر کر دیا۔ جب اس نے درخواست دی تو شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔ مقدمہ 24 سال پہلے دائر ہوا تھا، لوئر کورٹ سے بالآخر بات ہائی کورٹ تک پہنچ گئی تھی، ہائی کورٹ نے کہا کہ اس مقدمے کے بالکل شروع میں ایک غلطی ہوئی ہے، اس وجہ سے پورا مقدمہ غلط بنیاد پر چلایا گیا، اس کو آپ شروع سے چلائیں، اسے واپس نیچے بھیج دیا گیا یعنی 24 سال بعد مقدمہ از سر نو شروع کریں۔