‘جیمی دورن’ آئرش/ سکاٹش ڈاکومینٹری فلمساز ہیں، پہلے برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ میں پروڈیوسر تھے، آج کل آزادانہ طور پر کام کررہے ہیں۔
جیمی نے سن2008ء میں ‘کلوور فلمز’ کے نام سے ایک فلم ساز کمپنی قائم کی۔ ان کی فلمیں پوری دنیا میں نہایت دلچسپی سے دیکھی جاتی ہیں۔بی بی سی، الجزیرہ، اے بی سی، پی بی ایس جیسے متعدد بڑے ٹی وی چینلز ان سے ڈاکومنٹریز خرید کر نشر کرتے ہیں۔
جیمی درون نے 2002ء میں Afghan Massacre: the Convoy of Death کے عنوان سے فلم بنائی جس میں دکھایا گیا کہ ‘دشتِ لیلی’ میں طالبان کے قتل عام (2001ء) میں امریکی فوج بھی ملوث تھی۔ یہ فلم جرمن اور یورپی پارلیمان میں بھی دیکھی گئی۔ اسے پورے یورپ میں خوب میڈیا کوریج ملی۔ فلم اس قدر مقبول ہوئی کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں اس قتل عام کی انکوائری شروع ہوئی۔ یاد رہے کہ سابق صدر بش اس ہولناک واقعہ کی انکوائری کرنے سے مسلسل گریزاں رہے۔
جیمی نے2010ء میں’The Dancing Boys of Afghanistan’ کے عنوان سے فلم پیش کی، یہ ایسے لڑکوں کے بارے میں تھی جو افغانستان میں ‘شمالی اتحاد’ اور ‘ایساف’ کے کمانڈروں کے جنسی استحصال کا شکار رہے تھے۔ اسی طرح پشاور میں لڑکوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال پر’Pakistan’s Hidden Shame’ کے عنوان سے ایک فلم تیارکی۔ انھوں نے فروری 2010ء میں ایک ڈاکومنٹری کے ذریعے نیویارک کے ایڈز زدہ بچوں کا مسئلہ نمایاں کیا۔ اس پر امریکا میں خاصا کہرام مچا۔ فلم ساز کو یہ راز افشا کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اسی طرح ایک فلم ‘Afghanistan: Behind Enemy Lines’ میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت ہوتے دکھائی گئی۔
یہ پہلی فلم تھی جس نے دنیا پر یہ حقیقت آشکار کی کہ افغان مزاحمت کاروں کی کمر نہیں ٹوٹی بلکہ امریکی اور اتحادی افواج سخت مشکل میں پھنس گئی ہیں۔ ان کی متعدد ڈاکومنٹریز نے عالمی ایوارڈز جیتے، جن میں’Opium Brides’ اور’Battle for Syria’ بھی شامل ہیں۔
جیمی ڈورن ایک روز ماسکو گئے، وہاں ان کی ملاقات ایک تجربہ کار شامی صحافی سے ہوئی۔ جیمی نے چھوٹتے ہی اُس سے سوال پوچھا:’ شام میں جنگ شروع کیسے ہوئی تھی؟‘
شامی صحافی نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ دہشت گرد ہی تھے جنھوں نے جنگ چھیڑی تھی۔ تاہم حقیقت یہ ہی کہ اُس وقت داعش اپنی حالیہ شکل میں موجود ہی نہ تھی اور ‘النصرہ فرنٹ’ کے لوگ بھی اگلے کئی مہینوں تک شام نہیں پہنچے تھے۔
جیمی نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور شامی صحافی کو کچھ چہرے دکھائے، جو بشارالاسد کے خلاف مزاحمت کے اولین دنوں کے لوگ تھے۔ ان میں وہ لڑکا بھی دکھایا جس نے ایک معمولی سا کام کیا تھا، تاہم اس کی ایک چھوٹی سی حرکت سے ایسی چنگاری پھوٹی جو شعلہ میں بدلی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں آگ بھڑک اٹھی۔
شامی صحافی وہ چہرے دیکھ کر حیران ہوا۔ وہ اس سے بھی بے خبر تھا کہ شام میں خفیہ پولیس کیسے عشروں تک حکمران خاندان کے مخالفین کو اغوا، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کرتی رہی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ کس طرح شامی عوام اپنی بیٹیوں کو تنہا گھر سے باہر جانے سے روکتے تھے کیونکہ ‘شبیہہ’ (اسدخاندان کی ملیشیا) کے اہلکار لڑکیوں کو اغوا ، ریپ اور پھر قتل کردیتے تھے۔
جیمی دورن کو یہ سب کچھ کیسے پتہ چلا؟
دراصل وہ سن 2016ء کے اوائل میں اردن کے دارالحکومت عمان کی ‘شارع الخطاب ‘ پر واقع ‘بکس اینڈ کیفے’ میں بیٹھے تھے۔ وہاں بہت سے آزاد خیال اردنی بھی موجود تھے۔ جیمی کے ساتھ کیمرہ مین اور فلم ساز ‘ابوبکر الحاج علی’ بھی تھا۔ وہ یہاں کا روایتی حقہ پی رہا تھا اور شام کے شہر ‘دِرعا’ کا ذکر کر رہا تھا جہاں سے انقلاب نے جنم لیا تھا۔ میڈیا نے اس شہر اور یہاں رونما ہونے والے اُس اولین واقعہ کو نظرانداز کیا تھا جس نے شام میں آگ لگائی تھی۔ مغربی میڈیا نے ایسا کیوں کیا؟ شاید سب سے بڑا سبب اُردن کی طرف سے مغربی صحافیوں کو شام میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا تھا۔ چنانچہ وہ بے خبر رہے۔
جیمی شام اردن سرحد پر ایک ہفتہ تک بیٹھے رہے۔ درعا یہاں سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ فلم ساز نے اردن کی فوج کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں جیمی پہلے مغربی صحافی تھے جو درعا کی طرف جارہے تھے۔ پھر ایک روز انھیں سرحدی چوکی سے بلاوا آیا، وہاں سے ایک کار میں بٹھایا اور واپس عمان پہنچادیا گیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ برطانوی خفیہ ایجنسی ‘ایم آئی سکس’ کے نمائندوں نے اردنی حکومت سے کہا ہے کہ جیمی کو سرحد پارجانے کی اجازت دینا ایک بُرا خیال ہے۔ نجانے وہ کیوں اس قدر متفکر تھے حالانکہ جیمی آئرش پاسپورٹ پر سفر کررہے تھے۔
جیمی اور ابوبکر ایک بار پھر ‘بکس اینڈ کیفے’ پر سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ درعا کی ڈاکومنٹری کیسے تیار کی جائے، یاد رہے کہ یہ ابوبکر کا اپنا علاقہ تھا۔ جیمی نے اس سے پوچھا کہ وہاں لڑائی کس نے شروع کی تھی؟ اُس نے بتایا کہ جب شامی فوج نے کمانڈر معروف عبود کے گاؤں پر حملہ کیا تو اس نے سب سے پہلی ملیشیا قائم کی تھی۔ پھر اس نے قریباً چھ سات افراد کے نام لیے، جومعروف کے ساتھ تھے۔
جیمی اس کی معلومات سے خوش ہوئے۔ اُنھوں نے اُسے مزید کریدا۔ پھر صحافی نے اُس لڑکے کا ذکر کیا جس نے سب سے پہلے بشارالاسد کے خلاف اپنے سکول کی دیوار پر چاکنگ کی تھی۔ جیمی نے یہ سنا تو اچھل پڑے۔ اس کا کسی ‘داعش’ سے تعلق نہیں تھا، کسی ‘النصرہ’ سے تعلق نہیں تھا اور نہ ہی کسی تیسرے چوتھے عسکریت پسند گروہ سے۔ شام میں جو کچھ ہوا، وہ اس 14سالہ لڑکے کی غلطی بھی نہ تھی۔ ایک لڑکے کا حکومت کے خلاف نعرہ لکھ دینا کوئی غلطی یا جرم نہیں قرار پا سکتا۔ معاملہ تب خراب ہوا جب اُس لڑکے اور اس کے تین دوستوں کو گرفتار کرکے ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، نتیجتاً لوگوں نے وہ لائن عبور کرلی جس کے بعد واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
ہوا کچھ یوں کہ جب ان چاروں لڑکوں کے والدین، رشتہ دار پولیس سٹیشن پہنچے تو انھیں کہاگیا کہ ‘بھول جاؤ اپنے بچوں کو، اپنے گھروں میں بیویوں کے پاس جاؤ، مزید بچے پیدا کرو۔ اگر تم بچے پیدا نہیں کرسکتے تو پھر اپنی بیویوں کو ہمارے پاس بھیج دو، ہم تمہارے لیے یہ کام کردیں گے’۔ اس سے لوگوں کا غصہ اشتعال میں بدل گیا۔
اسکول کی دیوار پر نعرہ لکھنے والا لڑکا ‘معاویہ سیاسنہ’ تھا۔ وہ ساتویں جماعت میں پڑھتاتھا، جب اس نے اپنے سکول کی دیوار پر صدر بشارالاسد کے خلاف نعرہ لکھا۔ یہ فروری 2011ء کی بات ہے۔ اُس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی اِس حرکت کے نتائج اس قدر ہولناک نکلیں گے۔
جس روز سے یہ لڑائی شروع ہوئی، تب سے اب تک سوا چھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، سڑسٹھ لاکھ لوگوں کو وطن چھوڑنا پڑا۔
معاویہ کے شہر میں گلی گلی لڑائی ہوئی، بمباری ہوئی اور یہ لڑائی ایسے زخم چھوڑ گئی جو کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔
لڑکے نے یہ نعرہ کیوں لکھا؟دراصل ‘عرب انقلابی بہار’ پورے مشرق وسطیٰ میں مقبول ہوچکی تھی۔تیونس، مصر، لیبیا، یمن میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر آچکے تھے۔ وہ آمرانہ حکومتوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کررہے تھے۔ معاویہ نے بتایا: ‘ہم روز ٹی وی پر خبریں دیکھتے تھے کہ تیونس اور مصر میں کیا ہو رہا ہے۔چنانچہ ہم کچھ دوست سکول میں جمع ہوئے، تھوڑا سا پینٹ حاصل کیا اور دیواروں پر نعرے لکھنا شروع کردیے۔ ہم نے سکول کی دیوار پر لکھا: ‘ ڈکٹیٹر اسد! اگلی باری تمہاری ہے’۔ پولیس والوں نے یہ نعرے دیکھے تو ہمارے محلے سے لڑکوں کو پکڑنا شروع کردیا’۔
معاویہ سے پوچھا’ کیا تمہارے والد کو معلوم تھا کہ اس حرکت میں تم ملوث ہو؟’
‘ہاں’، اس نے جواب دیا۔
‘انھوں نے اس بارے میں کیا کہا؟’
‘انھوں نے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں لکھا؟ میں نے کہا کہ بس! ہم نے لکھ ڈالا۔ یہی بات ہوئی۔ پھر انھوں نے مجھے کہا کہ چھپ جاؤ۔’
‘کیا وہ تم سے ناراض تھے یا خوفزدہ؟’
‘ ہاں! وہ میری خاطر خوفزدہ تھے۔’
معاویہ کے والد کا خوف بے جا نہ تھا، ایک روز ان کا بیٹا دیگر کئی لڑکوں سمیت گرفتار ہوگیا۔
معاویہ بتاتا ہے: ‘ایک رات، پچھلے پہر چار بجے پولیس والے آئے اور مجھے پکڑ کر لے گئے’
‘ کتنے دن تک تمہیں حراست میں رکھا گیا؟’
‘پینتالیس دن’
‘ وہاں کیا ہوتا رہا؟’
‘ وہ ہمیں مارتے رہے، انھوں نے ہمیں باندھ کے رکھا ہوا تھا، ہمیں گالیاں دیتے رہے۔ پھر کہنے لگے کہ ہم تم لوگوں کو قتل کردیں گے۔ انھوں نے ہمیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، ہماری ٹانگیں باندھیں اور ٹانگوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ بھی باندھے، پھراسی حالت میں فضا میں لٹکایا۔ رسّی اس قدر زور سے باندھی گئی کہ وہ ہمارے جسم کو کاٹ رہی تھی۔ ہمارے کندھوں پر ناقابل برداشت درد ہو رہا تھا۔ پھر وہ مجھے باتھ روم لے گئے، مجھ پر شاور چھوڑ دیا گیا اور پھر بجلی کے جھٹکے لگانے لگے۔ وہ بجلی کی تار سے ہماری پٹائی کرتے رہے۔ کمر، پاؤں بلکہ جسم کے ہر حصے پر بجلی کی تار برساتے رہے۔ پھر اوپر دیوار پر ہُکس لگی ہوئی تھیں، وہاں ہمیں پورا ایک دن لٹکا دیا گیا، بلکہ ایک دن سے زیادہ وقت تک۔ ‘
معروف عبود پہلا شخص تھا جس نے سرکاری فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے، وہ 20برس تک ائیرفورس میں اکاؤنٹنٹ کے طور پر ملازمت کرتا رہا۔ اس کا کہناتھا: ‘بچوں نے چند الفاظ ہی لکھے تھے نا! لیکن حکومت نے انھیں پکڑ لیا اور ان پر تشدد شروع کردیا۔ جو کچھ ہو رہا تھا، وہ ‘درعا’ کے لوگوں کے لیے کسی بھی طور پر قابل قبول تھا’۔
لڑکے قریباً ایک ماہ تک حراست میں رہے، انھیں رہا نہ کیا گیا تو لوگ ان کی رہائی کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آگئے۔ معروف عبود نے بتایا: ‘ میں سب سے پہلے احتجاج کرنے والوں میں شامل تھا۔سب لوگ پرامن تھے، (ان کی ویڈیوز بھی موجود ہیں)، ہم نعرے لگا رہے تھے کہ ‘ ہم اور فوج ایک ہی ہیں’۔ تاہم ہمارے یہ نعرے غلط ثابت ہوئے۔ سہ پہر کے وقت پولیس آئی، اس نے مظاہرین پر آنسو گیس پھینکی، پھر واٹر کینن کے ذریعے پانی پھینکا جانے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد زمین پر سپیشل فورسز اور آسمان پر فوجی ہیلی کاپٹر آگئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا، سہ پہر چار بجے مظاہرین پر فائر کھول دیا۔
جیمی دورن’سالے’ نامی اُس لڑکی سے بھی ملے، جس نے لڑکوں پر ہونے والے ظلم اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کو انٹرنیٹ کے ذریعے پورے شام کے لوگوں کو دکھایا۔ لڑکی نے بتایا: ‘ نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے، ہم نے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی آوازیں سنیں، لوگ ہلاک اور زخمی ہونے لگے۔ پہلے دن دو افراد شہید ہوئے، ان میں سے ایک ہمارا ہمسائیہ تھا’۔’سالے’ کہتی ہے: ‘ اس انقلاب سے پہلے میں پڑھتی تھی۔ میں انجینئرنگ کی طالبہ تھی۔ یقیناً اس سب کچھ سے میری تعلیم متاثر ہوئی۔ تاہم مجھے اپنی مزید تعلیم کی پروا بھی نہ رہی’۔
‘سالے’ سے پوچھا گیا: ‘کیا سکول کے ان بچوں کی وجہ سے آپ کو تعلیم کی پروا نہ رہی؟’
‘ہاں! ان بچوں کے ساتھ جو سلوک کیاگیا، سیکورٹی فورسز نے جس قسم کا ردعمل ظاہر کیا، اس کے سبب۔’
مظاہرین کہہ رہے تھے کہ ہم بچوں کی خاطر اپنی جانیں بھی قربان کردیں گے۔ اگلے روز دو افراد کے جنازے اٹھے، بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے، سیکورٹی فورسز نے جنازے کے اجتماع پر فائر کھول دیا۔ شہر کی سب سے قدیم مسجد’ العمری مسجد’ میں موجود لوگوں پر بھی فضا سے فائرنگ کی گئی۔ 23 مارچ کو اِسی مسجد میں نمازفجر کے لیے جمع ہونے والے نمازیوں پر بھی سیکورٹی فورسز نے پتھراؤ کیا اور پھر فائرکھول دیا۔وہاں ایک ڈاکٹر سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے نے لوگوں کے غم وغصہ کو مزید بھڑکایا اور ہزاروں افراد شہر کی سڑکوں پر آگئے۔ حالات حکومت کے قابو سے باہر ہوگئے نتیجتاً لڑکوں کو رہا کر دیا گیا۔
معاویہ کہتا ہے ‘جب میں باہر آیا تو لوگوں کو اس قدر بڑی تعداد میں سڑکوں پر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بس! پھر ہم بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ ہم خوش تھے کہ اس قدر بڑی تعداد میں لوگ ہماری حمایت میں باہر نکلے۔ سارا شہر ہی باہر نکل آیاتھا لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوگا’۔
سڑکوں پر موجود لوگ ‘امن’،’ امن’ کے نعرے لگا رہے تھے جبکہ سیکورٹی فورسز کو اُن پر کھلی فائرنگ کا حکم دیا جا رہا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں پر لاشے تڑپنے لگے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے اس شہر کی صورت حال سے پورا ملک آگاہ ہو رہا تھا۔احتجاج درعا سے لطاکیہ، دمشق، حمص، بنیاس، حماہ، حلب، الرقّہ تک پھیل گیا۔ اب یہ احتجاج محض لڑکوں کی رہائی یا ان پر ہونے والے تشدد کے خلاف ہی نہیں رہا تھا بلکہ بشارالاسد حکومت کو ہٹانے کی کوشش بھی شروع ہوگئی۔
معاویہ کہتا ہے: ‘جو کچھ ہو رہا تھا، اس کی مجھے ہرگز توقع نہ تھی۔ فوج اپنا سارا اسلحہ ہم پر استعمال کررہی تھی’۔ معروف عبود کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اسلحہ کا مقابلہ اسلحہ ہی سے کریں،گولی کا جواب گولی ہی سے دیں۔ نتیجتاً ہم نے ‘جبھۃ الجنوبیہ’ کے نام سے ایک چھوٹی سی ملیشیا بنالی۔ پہلے دو یونٹ صرف پندرہ ، پندرہ لوگوں پر مشتمل تھے۔
معروف نے سب سے پہلے اپنے بھائی ‘معراف’ کو اس ملیشیا میں بھرتی کیا۔ لوگ بچوں کی گرفتاری کے سبب بھڑک اٹھے تھے۔ وہ کسی منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر ہی نکل آئے تھے۔
شامی فوج کے ساتھ پہلی مسلح جھڑپ ایک گاؤں میں ہوئی۔ یہ 18اکتوبر2011ء کا دن تھا۔ فوج بُصریٰ شہر کے قریبی گاؤں ‘نعیمہ’ پر ٹوٹ پڑی تھی۔ وہ بھاری اسلحہ کے ساتھ فائرنگ کر رہی تھی،گھروں کو براہ راست نشانہ بنایا جارہا تھا۔ معروف کا بھائی کہتا ہے ‘ہم نے اُسے روکنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ شام میں مسلح جدوجہد کا آغاز تھا۔ائیرفورس کا اکاؤنٹنٹ(معروف) اَب جنگجو بن چکا تھا، حالانکہ وہ کبھی شامی فوج کو ملک و قوم کا فخر قرار دیتا تھا۔1987ء میں ائیرفورس میں بھرتی ہونے والا معروف اب اپنا سارا تجربہ اپنی ہی فوج کے خلاف استعمال کر رہا تھا، اس نے لڑائی شروع کی لیکن اسے یہ کام بہت مشکل لگا کیونکہ اس کے ساتھیوں کی تعداد بھی کم تھی اور اسلحہ بہت ہی کم۔
سرکاری فوج کے خلاف اسلحہ سازی کا بیڑہ کس نے سنبھالا؟ یہ ابو قصیٰ تھا۔ اس نے بتایا ’میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دوبئی میں گزارا۔ میں ایک انجینئر ہوں۔ جب انقلاب شروع ہوا تو میں نے ایک مشکل فیصلہ کیا کہ اپنی فیملی کو بھی یہاں بلالوں، اپنی ملازمت کو خیرباد کہہ دوں، سب کچھ چھوڑ دوں اور خود اپنے ملک میں اتر جاؤں’۔
اس نے اپنی انجینئرنگ کی تعلیم سے فائدہ اٹھایا اور اپنے گاؤں میں بم ساز فیکٹری قائم کرلی۔ وہ کہتاہے’ہمیں یہ کام کرنا پڑا کیونکہ ہمیں کہیں سے اسلحہ نہیں مل رہا تھا۔ مجھے یہ سب کچھ تیار کرتے ہوئے بڑی خوشی ہو رہی تھی۔ بم سازی ایک مشکل کام تھا، بہت زہریلا کام۔ حکومت اسلحہ خریدتی ہے لیکن ہم اسلحہ خود تیار کررہے ہیں’۔
شام میں ایک طرف مسلح جدوجہد شروع ہوئی، دوسری طرف عوامی احتجاج بھی جاری رہا۔ خواتین بھی اس میں شریک ہوچکی تھیں، وہ نعرے لگارہی تھیں’ہمیں جمہوریت چاہیے۔’
‘سالے’ کا کہنا تھا’ ہمیں معلوم تھا کہ ہم احتجاج میں شامل ہوکر ایک بڑا قدم اٹھا رہے ہیں، زندگیاں ایک خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکی تھیں کیونکہ انقلاب تو قربانیاں بھی مانگتا ہے، بڑی قربانیاں’۔
پھر درعا کے عام لوگ راکٹوں اور بموں کی برسات میں بھی معمول کی زندگی بسر کرنے لگے ۔ دکانیں کھلی ہوتی تھیں اور کاروبار ہوتا رہتا تھا۔
ایک خاتون نے بتایا ‘جو کچھ بھی ہو رہا تھا، ہمیں اس کا سامنا کرنا ہی تھا۔ مثلاً ایک روز پہلے ایک میزائل ہمارے ہمسائے میں آگرا۔ پوری عمارت گرگئی لیکن ہم نے اس سے اثر نہ لیا۔ صرف آدھے گھنٹے کے اندر ہم نے سارا ملبہ صاف کرلیا تھا۔ یوں زندگی ایک بار پھر معمول پر آگئی۔ تاہم بعض اوقات زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی تھی جس کا ملبہ اٹھانا نسبتاً زیادہ مشکل ہوتا تھا۔ بہرحال اسی ملبے کے درمیان میں لوگ عیدیں مناتے اور شادیاں کرتے رہے۔
ایک خاتون’ ایمان’ کہتی ہیں’ جب انقلابی جدوجہد شروع ہوئی تو میں نے سکول کھولا۔ ہم نے اِدھر اُدھر کے تمام بچوں کو جمع کیا، بالخصوص ایسے بچوں کو جنھوں نے ابھی سکول کی تعلیم شروع ہی نہیں کی تھی۔ میں اور میری بہن نے یہاں پڑھانا شروع کیا۔ وہ بچوں کو عربی پڑھاتی تھی جبکہ میں انگریزی۔ اس سکول کے لیے تمام سازوسامان تباہ شدہ سکولوں کے ملبہ سے اکٹھا کیا گیا۔ وہاں سے کتابیں، کاپیاں، الماریاں، بنچ غرضیکہ جو کچھ بھی ملا، یہاں لے آئے۔ نتیجتاً ہمیں وہ سب کچھ مل گیا، جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ چند ہی دنوں میں ہمارا سکول باقاعدہ اور اصل سکول کی شکل اختیار کرگیا۔ جب انقلاب شروع ہوا تو ہم بہت خوش تھے۔ اس سے پہلے ہم بہت عذاب جھیل چکے تھے۔ یہ انقلابی جدوجہد دراصل ظلم اور استبداد کے خلاف تھی’۔
انٹرنیٹ کو انقلاب کے لیے استعمال کرنے والی ‘سالے’ نے بچوں کو سول ڈیفنس کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ وہ بچوں کو بتاتی تھیں کہ اگر آپ گلی اور بازار میں کھیل رہے ہوں، وہاں بم برسے یا فائرنگ ہو توکیا کرنا چاہیے۔ پھر بچوں کو سول ڈیفنس کی تمام بنیادیں باتیں حفظ ہوچکی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ جب جہاز آئے تو انھیں اپنے گھر کے کسی کونے میں چھپنا چاہیے اور اس وقت وہاں سے ہلنا چاہیے جب جہاز واپس چلا جائے۔ اگربمباری ہونے لگے اور چھپنے کی کوئی جگہ نہ مل سکے تو پھر کیا کرناچاہیے؟ ایک بچے نے جواب دیا’زمین پر لیٹ جاناچاہیے’۔
سکول کی دیوار پر بشارالاسد کے خلاف نعرہ لکھنے والا لڑکا ایک بھرپور نوجوان بنا، کلاشنکوف تھامے شب و روز گزارنے لگا، آزاد شامی فوج کے ساتھ مل کر سرکاری فورسز کے خلاف فرنٹ لائن پر جنگ لڑا۔ اس کے متعدد رشتہ دار اور دوست اس لڑائی کی نذر ہوگئے۔ ان میں اس کے والد بھی شامل ہیں۔
معاویہ بتاتا ہے’سن 2013ء میں میرے والد درعا ہی میں بمباری کے ایک واقعے میں ہلاک ہوگئے۔ میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا، میرے والد نے مجھے بہت خراب کیا، انھوں نے ہر وہ چیز لے کر دی جو میں نے مانگی۔ میں اپنے والد سے بہت محبت کرتا تھا۔ جب وہ ہلاک ہوئے تو مجھے لگا کہ میں اس دنیا میں سب کچھ سے محروم ہوگیا ہوں۔ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنا میرا خواب تھا۔ میں بزنس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرناچاہتاتھا’۔
بشارالاسد کا تختہ الٹنے سے اگرچہ معاویہ سیاسنہ کا ملک ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوچکا ہے تاہم لڑائی نے اس کے خواب بکھیر دیے۔ باپ کے قتل کے بعد یہ خاندان غربت کا شکار ہوگیا۔ یتیم ہونے کے بعد معاویہ کے پاس ایک ہی آپشن تھا، اس کے بقول’مجھے محسوس ہوا کہ اب اسلحہ اٹھالینا چاہیے اور لڑائی شروع کردینی چاہیے۔ یہ میری زندگی کا ایک اہم ترین لمحہ تھا۔ میں ‘آزاد شامی فوج’ کے شانہ بشانہ لڑنا چاہتا تھا۔ لڑائی کے ابتدائی دنوں ہی میں ٹانگ میں گولی لگنے سے میں زخمی ہوا اور علاج کے لیے السبیل صوبہ میں منتقل ہوگیا۔‘
’یہ ایک خطرناک فیصلہ تھا کیونکہ وہ علاقہ بشارالاسد انتظامیہ کے کنٹرول میں تھا، وہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے سرکاری فوج کے ناکوں سے گزرنا پڑا۔ تکلیف کے سبب میرا چلنا محال تھا، پھر ایک دن سرکاری فوجی اہلکار آگئے، میں بھاگ گیا اور ایک گھر میں گھس گیا۔ میرے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ فوجی اہلکار میرے پیچھے لگے ہوئے تھے، وہ مجھے تلاش کررہے تھے۔ یہ دن میرے لئے بہت مشکل رہا’۔
‘سالے’ کہتی ہے’جب ہم سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کررہے تھے تو ہمیں بتایاگیا کہ اس ملک کے لیے حکمران بعث پارٹی ہی سب کچھ ہے۔ ملک کے لیے سب کچھ اسی نے کیا ہے۔ تب سے ہمیں ایسے نعرے حفظ کرائے گئے تھے جن میں حافظ الاسد اور بشارالاسد کی تعریف ہوتی تھی۔ ہمارے نصاب میں شامل تاریخ کے مضمون میں حافظ الاسد اور بشارالاسد کے کارنامے ہی بیان کئے گئے تھے’۔
تباہ شدہ سکولوں سے سازوسامان اکٹھا کرکے سکول چلانے والی خاتون کہتی ہے’ میں انقلاب سے پہلے متعدد سکولوں میں پڑھاتی رہی۔ فوجی افسروں کی طرف سے ہمیں مسلسل ہراساں کیا جاتا تھا۔ وہ ہروقت سکولوں کے معائنے ہی کرتے رہتے تھے۔ بالخصوص گرلزسکولوں اور خواتین اساتذہ کے پاس جاتے تھے۔ ہمیں کہتے تھے کہ جو نصاب میں ہے، آپ کو صرف وہی پڑھانا ہے۔ اساتذہ کے ہاتھ پوری طرح بندھے ہوئے تھے۔کوئی آزادی نہیں تھی’۔
اپنے موجودہ سکول کے بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا’بعض اوقات سکول میں کچھ بھی پڑھانے کو نہیں ہوتا تھا تو پھر ہم صرف کھیلتے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ بچوں کو جنگ کے اثرات سے باہر نکالیں۔ تاہم انھوں نے جو کچھ دیکھا تھا، اسے بھلانا ممکن نہیں۔ بہرحال انھیں کچھ وقت تفریح کے لیے مل جاتا۔
درعا کے زیادہ تر حصے انسانی آبادی سے مکمل طور پر خالی ہیں، صرف اور صرف کھنڈر ہیں، زندگی کے کوئی آثار نظرنہیں آتے۔ بس! کھنڈرات کا ایک جنگل ہے۔ انجینئر ابو قصیٰ نے الجزیرہ کی ٹیم کو وہ تمام علاقے دکھائے جو کبھی ہنستے بستے تھے لیکن اب بھاری گولہ باری سے تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔
انجینئر یہاں مستقبل میں ڈزنی لینڈ کی طرح کا ایک پارک بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اسلحہ اٹھائے رکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ یقین کریں کہ یہ بہت بوجھ لگتا تھا۔ ہر وقت قتل، قتل اور قتل، خون اور خون اور قبریں۔ ہم اپنے بہت سے دوستوں سے محروم ہوچکے ہیں’۔ ابوقصیٰ جب فلم ساز ٹیم کو اپنا اسلحہ خانہ اور ذخیرہ دکھا رہا تھا تو ان دنوں کو بھی یاد کر رہا تھا جب احتجاج شروع ہوا تھا۔
احتجاج کیوں شروع ہوا تھا؟ وقار اور آزادی کے لیے، انسانیت کے لیے۔ میں انسان ہوں، جانور نہیں۔ میں نہیں پسند کرتا کہ مجھ سے جانوروں سا سلوک ہو۔ ہم یہ سب کچھ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے لیے کررہے تھے۔ انھیں ویسی زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے جیسے ہم نے چالیس برس تک کی۔
’بشارالاسد سے نجات ملنے سے ہمارے مسائل کم نہیں ہوں گے۔ چالیس سالہ جبر کے بعد، بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ ہمیں لوگوں کو تعلیم دینا ہوگی۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ آزادی کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ یورپ میں ان کی اپنی آزادی کی شکل ہے جو انھوں نے 400 سال تک ناانصافی سے لڑ کر حاصل کی۔ میں آزادی اظہار پر ایمان رکھتا ہوں، مذہبی آزادی پر بھی اور عبادات میں آزادی پر بھی، اسی طرح سیاسی آزادی پر بھی۔ میں اپنا صدر خودمنتخب کرنے کا اختیار چاہتا ہوں’۔
انجینئر ابوقصیٰ کہتا ہے’ یہ سارا نقصان اور خون ریزی ہمارے لیے نہایت خوفناک ہے۔ یہ ہماری فطرت کے خلاف ہے۔ یہ جنگ ہم سب پر برے نفسیاتی اثرات چھوڑ جائے گی۔ ہمارے پورے معاشرے نے اس سے نقصان اٹھایا ہے۔ ظاہرہے کہ جنگ نشان چھوڑتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ المیہ بھی ایک روز ختم ہوگا۔ تب ہم اپنی تمام توانائیوں کو چینلائز کرکے ایک نئے شام کی ابتدا کریں گے’۔
‘سالے’ کہتی ہے’بعض اوقات میں حیران ہوتی ہوں کہ ہم نے یہ انقلابی جدوجہد کیوں شروع کی تھی؟ ہم بہت سے لوگوں سے محروم ہوئے جن میں سے اس قوم کے بہترین نوجوان بھی تھے’۔
آج معاویہ سیاسنہ کہتا ہے’اگرمجھے معلوم ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے ایک جملے سے اس قدر زیادہ نقصان ہوگا تو میں وہ جملہ کبھی نہ لکھتا’۔
تبصرہ کریں