میرا حسنِ ظن ہے کہ ’یوٹوپیا‘(Utopia) کے لفظ اور اس کے معانی سے ہمارے ہاں ہر پڑھا لکھا خوب واقف ہوگا۔ اگر کوئی ایک آدھ فرد اس کے بارے میں علم نہیں رکھتا، اس کے لیے عرض کیے دیتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جگہ کا نام ہے جو قوانین، طرزحکمرانی اور سماجی ماحول کے اعتبار سے بدرجہ کمال مثالی ہے۔ یہ تخیل کی دنیا کا ہی ایک مقام ہے۔
انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے والے ایک انگریز مصنف سر تھامس مور کی ایک کتاب سن پندرہ سو سولہ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا عنوان ’یوٹوپیا‘ تھا۔ ایک خیال ہے کہ یہ لفظ اس سے پہلے کہیں استعمال نہیں ہوا۔ تھامس مور نے اپنی کتاب میں یورپ کے معاشی اور سماجی حالات کا بالتفصیل تذکرہ کیا تھا۔ اس میں ’یوٹوپیا‘ نام کے ایک مثالی معاشرے کا ذکر کیا جو امریکی ساحلوں پر ہنستا بستا تھا۔ اسی کتاب کے اختتام پر مصنف نے وضاحت کردی کہ ’ یوٹوپیا‘ نام کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
اگر آپ کو یہ باتیں خشک سی محسوس ہو رہی ہیں تو تھوڑی سی مزید خشک بات پڑھنے اور برداشت کرنے کی تھوڑی سی مزید ہمت پیدا کرلیجیے۔
بنیادی طور پر یہ لفظ یونانی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ایک لفظ ’ ou ‘ ہے جس کا مطلب ہے ’ نہیں‘۔ اور دوسرا لفظ’topos ‘ ہے جس کا معنی ’ جگہ‘ کے ہیں۔ مکمل معانی یوں ہوئے کہ ایسی جگہ جو کہیں نہیں ہے۔
پہلے زمانوں میں لوگوں کو یقین تھا کہ ایسی کوئی جگہ ضرور ہے لیکن وہاں تک رسائی ممکن نہیں۔ دور جدید میں زیادہ تر لوگ ایک آئیڈیل معاشرے کو ’ یوٹوپیا‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ ایک لمحہ میں ’یوٹوپیا‘ میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں رہنا بسنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دوران میں ان کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ اپنے آپ کو مسائل بھرے پاکستان میں دیکھ کر ، ایک بار پھر آنکھیں میچ لیتے ہیں اور ’یوٹوپیا‘ میں پہنچ جاتے ہیں۔
میرے ایک دوست نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ پاکستانی لوگ’ یوٹوپیا‘ نہیں بلکہ ’یوتھوپیا‘ میں رہتے ہیں۔ میں نے وضاحت چاہی تو فرمانے لگے کہ ایسی یوتھ جو یوٹوپیا میں رہتی ہو۔ یہ کہہ کر ان کے چہرے پر ایک شرارتی مسکراہٹ رقصاں ہوگئی۔ اور میں سمجھ گیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے نوجوانوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔
ابھی میرے ایک دوست، جن کا تعلق پی ٹی آئی ہی سے ہے، پورے تیقن سے دعویٰ کر رہے تھے کہ آنے والی عید سے پہلے عمران خان جیل سے باہر ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ ہاتھ جوڑ کر، منت سماجت کے انداز میں خان سے کہے گی کہ آپ کی مہربانی، حکومت سنبھال لیں۔ موجودہ حکومت ہماری برداشت سے باہر ہوچکی ہے۔
پوچھا: آپ کو کیسے پتہ چلا کہ اسٹیبلشمنٹ کی برداشت جواب دے گئی؟
کہنے لگے:’ بیرونی دباؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔‘
تب میں بھی اپنے پرانے دوست کا ہم خیال ہوا کہ واقعی کچھ لوگ ’یوتھوپیا‘ میں ہی رہتے ہیں۔
صرف پی ٹی آئی سے وابستہ یہ ایک ہی دوست’ یوتھوپیا‘ میں نہیں رہتے، اس ’عظیم الشان‘ تحریک کا ہر مرد و زن، نوجوان اور بزرگ ’ یوتھوپیا‘ کا باسی ہے۔
ابھی حال ہی میں ’ فائنل کال‘ کے عنوان سے جو مختلف ہندسوں کو ایک دوسرے سے ضرب دی گئی، اس کے مطابق پندرہ سے بیس لاکھ افراد نے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنا تھا۔ پی ٹی آئی کے ہر رہنما اور کارکن کو یقین تھا کہ ہر ایم این اے دس ہزار اور ہر ایم پی اے پانچ ہزار افراد کو لے کر ڈی چوک ضرور پہنچے گا۔ لیکن پھر کیا ہوا، کتنے لوگ وہاں پہنچے، سب جانتے ہیں۔
اب ’یوتھوپیا‘ کے باسی یقین کیے بیٹھے ہیں کہ بیسیوں امریکی اور برطانوی ارکان پارلیمان سے خطوط لکھیں گے، نتیجتاً پاکستانی مقتدرہ پر ناقابل برداشت بوجھ لد جائے گا اور اس کی کمر دوہری ہوجائے گی، یوں وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سر کے بل جائے گی، عمران خان کے سامنے دست بستہ کھڑی ہوجائے گی، نظریں نیچی کرتے ہوئے، ہاتھ جوڑتے ہوئے درخواست گزار ہوگی کہ حضور والا تبار! ایوان وزیراعظم میں جلوہ افروز ہوجائیے، ہم آپ کے بغیر کہیں کے نہیں رہے۔ حضور! ہم پر کرم کیجیے اور وزارت عظمیٰ کی مسند ایک بار پھر سنبھال کر ہماری عزت افزائی فرمائیے۔
’یوتھوپیا‘ کے باسیوں کو یہ بھی یقین ہے کہ ’فوجی مصنوعات‘ کے بائیکاٹ سے مقتدرہ گھٹنوں کے بل آ گرے گی۔ یوں اس کے پاس عمران خان کو ایک بار پھر اپنے کندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم ہاؤس چھوڑ آنے کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوگا۔ حالانکہ پی ٹی آئی سے انتہا درجے کے مخلص دانشور سمجھا رہے ہیں کہ یہ بائیکاٹ مہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ تاہم ’یوتھوپیا‘ کے باسی آنکھیں میچے سہانے خواب سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ پاکستان میں انتخابی عمل پر کڑی نظر رکھنے والے ادارہ ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک‘ (فافن) نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 139 شیخوپورہ کے ضمنی الیکشن کی رپورٹ جاری کر دی۔ اس رپورٹ میں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ شیخوپورہ میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ عام انتخابات میں 38 فیصد تھا جو بڑھ کر 55.7 فیصد ہوگیا۔
دوسری طرف ہارنے والے امیدوار کو عام انتخابات اور ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے سپورٹ کیا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کا ووٹ بینک 36 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 25 فیصد رہ گیا۔
یہ پڑھتے ہوئے خیال گزرا کہ پنجاب میں مریم نواز شریف کی حکمرانی میں مسلم لیگ ن ہی ضمنی الیکشن جیتے گی، ہر حکومت ضمنی انتخابات پر اثرانداز ہوتی ہے، تاہم فافن نے کہا کہ گنتی کا عمل شفاف رہا، تمام پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق فارم 47 رات ساڑھے 10 بجے تک تیار ہوچکے تھے۔
پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں کمی کیوں آئی اور مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں اضافہ کیوں ہوا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کا مجموعی تاثر گدلا ہوا ہے۔ اس کا ورکر مایوس ہو رہا ہے۔ اسے جس ’یوٹوپیا‘ میں بھیجا گیا تھا، فطری طور پر وہاں زیادہ عرصہ زندگی بسر نہیں ہوسکتی۔ اوّلاً، اسے یقین دلایا گیا کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں برسراقتدار آنے والے عمران خان اب ہمیشہ حکمران رہیں گے۔ تاہم وہ ساڑھے تین برس بعد ہی ایوان اقتدار سے نکال باہر کیے گئے۔ اب جب کہ خان صاحب جیل میں ہیں تو آئے روز پی ٹی آئی ورکر سے کہا جاتا ہے کہ تم آنکھیں میچو، جب کھولو گے تو عمران خان ہنستے، مسکراتے، فاتحانہ انداز میں مکے لہراتے تمھارے سامنے کھڑے ہوں گے۔ وہ بے چارہ بار بار آنکھیں بند کرکے تھک چکا ہے، آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے عمران خان کی فاتحانہ انداز کی تصاویر بنا کر تھک چکا ہے لیکن جیل کے پھاٹک ٹوٹ نہیں رہے، عمران خان چھوٹ نہیں رہے۔
عمران خان کو بھی اپنے ورکر کی اس تھکن، مایوسی کا احساس تھا، تب ہی تو انھوں نے ’فائنل کال‘ دیدی اور کہا کہ یہ فائنل کال کامیاب ہو کر رہے گی۔ عمران خان کی روحانی رہنما اور پی ٹی آئی کی موجودہ قائد محترمہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کارکنان کو یقین دلاتے رہے کہ وہ عمران خان کو رہا کروا کر ہی واپس آئیں گے۔ آپ ان کے بیانات پڑھ لیں جو ’فائنل کال‘ سے پہلے شائع ہوئے تھے۔ انھوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر ورکرز سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مر جائیں گے لیکن عمران خان کو رہا کروائے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن سب سے پہلے یہی دونوں شخصیات ورکرز کو پولیس کے نرغے میں پھنسا کر بھاگ اٹھیں اور مانسہرہ جا کر دم لیا۔
اب ’یوتھوپیا‘ میں رہنے والے مزید ’ یوتھوپیا‘ میں رہنے کو تیار نہیں۔ وہ بشریٰ بی بی کو بھی ماننے کو تیار نہیں، وہ علی امین گنڈاپور کو گریبان سے پکڑ رہے ہیں۔ اب وہ حقیقت کی دنیا میں آ رہے ہیں۔ اب وہ احساس زیاں کے شکار ہیں کہ خواہ مخواہ سبز باغ ہی دکھانے والوں کے جھانسے میں آگئے اور کئی برس برباد کیے۔
شیخوپورہ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک چھتیس فیصد سے پچیس فیصد تک کم ہوا ہے، اس کا سبب یہی ہے کہ اب لوگ ’ یوتھوپیا‘ میں رہنے کو تیار نہیں۔
پیارے پڑھنے والو! جناب شعیب بن عزیز کا ایک شعر بہت مشہور ہے
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
تبصرہ کریں